تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     28-11-2025

اٹھارہویں ترمیم سے اٹھائیسویں ترمیم تک

یہ باتیں اب ثابت ہو چکی ہیں کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے میں بعض ایسی ترامیم بھی شامل تھیں جو ملکی مفادات کے حوالے سے تو بہت اہم تھیں مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کے تحفظات کی وجہ سے حتمی مسودے میں شامل نہ ہو سکیں۔ شنید ہے کہ 27ویں ترمیم کے بعد اب 28ویں ترمیم پر کام شروع ہو چکا ہے جس میں 18ویں ترمیم میں شامل اُن شقوں کو نکالنے کے حوالے سے کام شروع ہو چکا ہے جو فیڈریشن کو کمزور کرنے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔
18ویں ترمیم بظاہر آئینی اصلاحات کے نام پر کی گئی تھی۔ اس مقصد کیلئے ایک 22رکنی آئینی اصلاحات کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے سربراہ رضا ربانی تھے جبکہ اس کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے مگر یہ بات بہت کم حلقوں کو معلوم ہے کہ اس کے پس پشت کچھ بین الاقوامی محرکات بھی تھے۔ جنرل پرویز مشرف کو امریکہ نے این آر او کے تحت یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ انتخابات کے بعد ان کی صدارت برقرار رہے گی‘ اور ان کے ضامنوں میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی شامل تھے۔ لیکن 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد حالات یکسر بدل گئے اور آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی کمان سنبھال لی۔ 18 فروری 2008ء کے عام انتخابات نے انتخابی نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف سے ہاتھ ملا کر جنرل پرویز مشرف کو صدارت سے فارغ کرا دیا۔ پرویز مشرف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کے مشورے پر منصبِ صدارت سے استعفیٰ دیا‘ حالانکہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے پاس صدر مشرف کے مواخذے کیلئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہیں تھی۔ آٹھ ستمبر 2008ء کو آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہوئے تو تبھی 18ویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو گیا۔ آصف علی زرداری نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی کو بھی مدعو کیا تھا۔ میں خود بھی اس تقریب میں موجود تھا۔ حامد کرزئی آصف علی زرداری سے سرگوشیاں کر رہے تھے اور اپنے لکھے ہوئے نوٹس سے مشاورت کر رہے تھے۔ پی ٹی وی کے اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد مسعود اس تقریب میں حامد کرزئی کے بالکل پیچھے کھڑے تھے۔ شنید ہے کہ اس تقریب میں حامد کرزئی نے صدر آصف علی زرداری کو پرویز مشرف کی باقیات کو ختم کرنے اور سترہویں آئین ترمیم کو کالعدم قرار دینے‘ آئینی اصلاحات کے نام پر صوبوں کو طاقتور بنانے اور سوویت یونین کی طرز پر نیم خودمختار ریاستوں میں بدلنے کا اشارہ دیا تھا۔ حیرانی ہے کہ حامد کرزئی جیسے متعصب اور پاکستان مخالف بیان بازی کرنیوالے شخص کو اس حلف برداری کی تقریب میں بلانے کی کلیئرنس کیسے دی گئی۔ میرے علم کے مطابق 18ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی تیاری میں حسین حقانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے دبئی میں بیٹھ کر اس ترمیم کا ڈرافٹ فائنل کیا۔
فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد سے پرویز مشرف بے اختیار ہو چکے تھے‘ اس وقت تک ان کا زوال شروع ہو چکا تھا اور جنرل کیانی نے بھی ان سے نظریں پھیر لی تھیں۔ قبل ازیں پرویز مشرف نے آئین میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ کی تحلیل کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی منظوری سے مشروط کر دیا تھا‘ لہٰذا وہ آرٹیکل اٹھاون ٹو بی کے استعمال کیلئے سپریم کورٹ کی حمایت کے محتاج تھے۔ پرویز مشرف نے خود مجھے بتایا تھا کہ وہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تمام سرگرمیوں کو بغور دیکھ رہے تھے اور اس پر انہیں شدید تحفظات تھے مگر وہ تب تک عوامی حمایت سے تقریباً محروم ہو چکے تھے۔ پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جب استعفیٰ دیا تو حکومت کے خلاف ایک طویل چارج شیٹ بھی اس استعفے کا حصہ تھی‘ جس میں روپے کی گرتی قدر پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا‘ جس میں پچاس فیصد کے قریب کمی آ چکی تھی۔ وہی ڈالر جو مشرف دور میں 60 روپے کا تھا‘ پیپلز پارٹی حکومت کے ابتدائی چند مہینوں میں ہی چھلانگ لگا کر 90 روپے پر پہنچ گیا تھا۔ادھر آصف علی زرداری نے نواز شریف کی معاونت سے مواخذے کے نام پر صدر پرویز مشرف کو سبکدوش کرایا اور اٹھارہویں آئینی ترمیم پر کام شروع کر دیا جو 10 اپریل 2010ء کو نافذ ہوئی‘اور جو فیڈریشن کے بجائے کنفیڈریشن کی طرف ایک قدم ہے۔
1985ء کے انتخابات کے بعد رضا ربانی‘ ممتاز بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے کنفیڈریشن فورم کے نام سے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی تھی۔ اس کا منشور لگ بھگ وہی تھا جو بعد میں 18ویں ترمیم میں شامل کیا گیا۔ 18ویں ترمیم کا اصل ماخذ رضا ربانی‘ ممتاز بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ کا کنفیڈریشن فورم ہی تھا۔ جب یہ منشور سامنے آیا تو ممتاز صحافی ارشاد حقانی مرحوم نے اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ اس منشور میں پاکستان کہیں نظر نہیں آ رہا۔ باخبر حلقوں کے مطابق اگر 28ویں ترمیم عملی شکل اختیار کرتی ہے تو وفاق کی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں‘ میاں نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔ میاں صاحب کے وزارتِ عظمیٰ پر براجمان ہونے کی صورت میں بلاول بھٹو لیڈر آف دی اپوزیشن ہوں گے؛ البتہ آصف علی زرداری کا سیاسی مستقبل ابھی زیر غور ہے۔ 28ویں آئینی ترمیم میں ایسی شقیں شامل کیے جانے کا امکان ہے جن کے اثرات آنے والے کئی برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
23 نومبر کے ضمنی انتخابات کی بات کی جائے تو ان انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی چھ‘ چھ نشستوں پر کامیابی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کا پاکستان پیپلز پارٹی پر انحصار مزید کم ہو گیا ہے۔ ضمنی انتخابات سے قبل قومی اسمبلی کے 336 ارکان پر مشتمل ایوان میں مسلم لیگ (ن) کی 127 نشستیں تھیں‘ جو اَب 133 ہو گئی ہیں۔ ایم کیو ایم کی 22‘ مسلم لیگ (ق) کی پانچ‘ استحکام پاکستان پارٹی کی چار‘ مسلم لیگ ضیا الحق کی ایک‘ بلوچستان نیشنل پارٹی کی ایک چار آزاد اراکین کی نشستیں ملا کر مسلم لیگ (ن) اور اس کے حامیو ں کے مجموعی تعداد 170 ہو جائے گی‘ جبکہ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لیے 169 ارکان درکار ہوتے ہیں۔
حالیہ ضمنی انتخابات کا سب سے اہم پہلو کم ترین ووٹنگ ٹرن آؤٹ ہے۔ اپوزیشن نے انتخابات کے بائیکاٹ کا غیر جمہوری وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔ بینظیر بھٹو نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا‘ جس کے اثرات آج بھی سیاست پر نمایاں ہیں۔ اسی طرح 1993ء میں ایم کیو ایم نے کراچی میں قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا‘ وہ نشستیں جن پر ایک لاکھ سے زائد ووٹ پڑتے تھے‘ وہاں سے نو ہزار‘ 12 ہزار اور 15 ہزار ووٹ لینے والے امیدوار رکن اسمبلی منتخب ہو گئے لیکن انتخابی تاریخ نے اس الیکشن کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہی 17 اپریل 1993ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ملک میں سیاسی و انتخابی عدم استحکام کے باعث قومی اسمبلی تحلیل کر کے نواز شریف کی حکومت ختم کر دی۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے 26 مئی 1993ء کو حکومت بحال کر دی لیکن سیاسی بحران اس قدر بڑھ گیا کہ 18جولائی 1993ء کو آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ اور لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد کے فارمولے کے تحت نواز شریف کی حکومت کو دوبارہ تحلیل کر کے 24 اکتوبر 1993ء کو نئے انتخابات کرا دیے گئے۔ اب 23 نومبر 2025ء کے ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی میں تو پہنچ گئے ہیں لیکن ٹرن آؤٹ نہ ہونے کے برابر رہنے کے باعث ان کی سیاسی ساکھ پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
شنید ہے کہ عرفان صدیقی کی وفات کے بعد خالی ہونے والی سینیٹ کی نشست کیلئے حسین نواز‘ جنید صفدر اور مریم نواز کے داماد کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ یعنی اس نشست پر بھی حسبِ روایت موروثیت کو ترجیح دی جائے گی اور وفادار پارٹی کارکن جلسوں کے انتظامات کرتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved