تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     28-11-2025

جنت اور سائنس

اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلق کیا تو اس کی فطرت میں جنت کے حصول کی تڑپ بھی رکھ دی۔ انسان کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کر دیا گیا کہ اس کا دنیاوی جسم اس قابل نہیں ہے کہ جنت میں داخل ہو سکے لہٰذا اسے اپنے موجودہ وجود کو چھوڑنا ہوگا۔ اسی کا نام موت ہے۔ انسان بھلا کہاں ٹلنے والا تھا۔ اس نے اپنے خاکی وجود کی آسائش کے لیے اسی دنیا کو جنت بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اکثر نے اس کے لیے حلال وحرام کی تمیز تک مٹا ڈالی۔ نتیجتاً کرپشن کے ریکارڈ ٹوٹتے گئے اور نئے بنتے چلے گئے۔ یہ مزید بنتے چلے جائیں گے‘ آخرکار سب قبروں کی جانب جاتے چلے جائیں گے۔ مال کی ہوس میں مبتلا مردہ اجسام بالآخر لوگوں کے کندھوں پر سوار قبرستانوں میں جا بسیں گے۔ ہزاروں سالوں سے انسانی تاریخ اسی دائرے میں گردش کر رہی ہے۔ زمین سے جنم لینے والی خوشحال تہذیب زمین ہی میں اپنا مدفن بنا لیتی ہے۔ ہر انسانی تہذیب یہی سمجھتی ہے کہ اس نے سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں مگر پھر وہ بھی مٹ جاتی ہے اور اس کی جگہ نئی ترقی یافتہ تہذیب آ جاتی ہے۔
ہماری موجودہ تہذیب سائنسی تہذیب ہے۔ اس تہذیب نے زمین کو زمینی جنت بنانے میں مزید کمال کر دکھایا ہے مگر ہر کمال کے بعد ایک نیا کمال ہمارا منتظر ہوتا ہے۔2025ء ایسا سال ہے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سے پہلے کی سائنس اب پرانی سائنس بنتی چلی جائے گی۔ نیو سائنس کا نام ''کوانٹم سائنس‘‘ ہے۔ موجودہ دور کے معروف اور عظیم سائنس دان جناب مشیو کاکو (Michio kaku) نے اپنی کتاب ''Physics of the future‘‘ میں نئے دور کی سائنسی ترقی کا جو نقشہ کھینچا ہے‘ ملاحظہ ہو:
٭ آنے والے دس سے بیس برسوں کے دوران دنیا کو ہم ایک نئے سائنسی زاویے سے اس طرح دیکھیں گے کہ دماغ میں چپ نصب ہو گی۔ آپ پلک جھپکائیں گے تو آن لائن ہو جائیں گے۔ جس سے رابطہ ہو گا اس کا نام اور پروفائل نظروں کے سامنے آ جائے گی۔ وہی پروفائل جو ڈیٹا سسٹم میں موجود ہو گی۔
٭ کمپیوٹر ہر جگہ ہوں گے مگر نظروں سے اوجھل ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہو گی کہ چپس اس قدر سستی مگر اعلیٰ معیار کی ہوں گی کہ ہمارے گھر کی دیواروں‘ دروازوں‘ فرنیچر‘ کاروں‘ چوکوں اور چوراہوں وغیرہ میں نصب ہوں گی۔ جی ہاں! ہر جگہ چپس ہوں گی۔ انہی کی وجہ سے ہمارا سارا ماحول مصنوعی ذہانت سے مالامال ہوگا۔
٭ سائنسدان گورڈن مُور (Gordon Moore) نے 1965ء میں ایک فارمولا پیش کیا تھا جسے ''مورز لاء‘‘ (Moore's Law) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق ہر اٹھارہ ماہ میں پیداواری صلاحیت ڈبل ہو جاتی ہے۔ گزشتہ پچاس‘ ساٹھ سالوں سے یہی قانون کمپیوٹر کی صنعت کو چلا رہا ہے مگر اب اس رفتار کا دورانیہ ''کوانٹم کمپیوٹنگ‘‘ کے زمانے میں مزید کم ہوتا چلا جائے گا اور ترقی کی رفتار میں تیزی آخر کار مہینے اور ہفتے تک پہنچ جائے گی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ امریکہ کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ نے جولائی 1969ء میں زمین کے مدار سے نکل کر چاند پر قدم رکھا تھا اور دیگر سائنسی شعبوں میں بھی جو ترقی کی اور اس دوران جو چپس استعمال کی گئیں‘ ان سے کئی گنا اعلیٰ معیاری اور تیز رفتار چپس آج ہر کمپیوٹر اور ہر موبائل فون میں موجود ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج تقریباً چار پانچ ارب لوگ ترقی کی اُس منزل سے بھی کہیں آگے کھڑے ہیں جہاں امریکہ 1969ء میں کھڑا تھا۔
٭اب AI یعنی مصنوعی ذہانت سے آگے AR یعنی آرٹیفیشل ریئیلٹی (مصنوعی حقیقت) کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ مطلب یہ کہ ڈیجیٹل دنیا اور حقیقی دنیا کا فرق کم سے کم تر ہوتا چلا جائے گا۔
٭عنقریب زبانوں کا فرق بھی مٹ جائے گا۔ ترجمہ کاری کا فن اس قدر ترقی کر جائے گا کہ کسی دوسری زبان میں لکھا سائن بورڈ یا کوئی تحریر دیکھیں گے تو اس کا ترجمہ فوراً ساتھ ہی دکھائی دے گا۔
٭گلوبل پوزیشننگ سسٹم اور سینسرز کی مدد سے خودکار گاڑیاں عام ہو جائیں گی۔ اگرچہ اب بھی اس میں ترقی یافتہ ممالک میں کافی جدت آ چکی ہے مگر عنقریب یہ مناظر پوری میں عام ہو جائیں گے۔ اس سے حادثات کی شرح انتہائی کم ہو جائے گی جبکہ ٹریفک کا جام ہونا بھی انتہائی کم ہو جائے گا۔ کار خود بخود چلے گی اور خود ہی منزل پر پہنچے گی۔ سفر کرنے والا اس دوران اپنے دفتری کام اور گھریلو امور سکرین پر دیکھ کر نمٹا سکے گا۔
٭گھر کے اندر ماحول اس قدر معلوماتی ہوگا کہ بطور مثال اگر گھر کی دیواروں میں چپ ہو گی تو پلک جھپکنے میں دیوار سکرین میں بدل جائے گی۔ مناظر 3D ہوں گے۔ ہمارے عزیز واقارب جو دنیا کے دوسرے ملکوں میں ہوں گے‘ وہ کمرے یا لائونج میں ساتھ ہی بیٹھے دکھائی دیں گے اور باہم بات چیت ہو رہی ہو گی۔ اس نظام کو '' ٹیلی پریزینٹس‘‘ کہا جاتا ہے‘ یعنی یہ سارا کچھ حقیقت تو نہیں ہو گا مگر حقیقت کے کافی قریب ہو گا۔
قارئین کرام! ہمارا جو موجودہ زمانہ ہے اس میں سائنس تبدیلی کے مرحلے سے دوچار ہے۔ سائنس کے جو مختلف شعبے ہیں‘ اب ان شعبوں کے ساتھ کوانٹم لگنا شروع ہو جائے گا جیسا کہ ''کوانٹم کمپیوٹنگ‘‘ وغیرہ۔ فزکس کی ایک شاخ کو بھی اب کوانٹم کہا جاتا ہے۔ یہ جو ''کوانٹم فزکس‘‘ ہے‘ اس پر جناب جوزف سلبی (Joseph Selbie) نے The Physics of God کے نام سے ایک عمدہ کتاب لکھی ہے۔ وہ جدید ترین ریسرچ کے بعد لکھتے ہیں ''شعور (روح) کے لیے موت نہیں۔ یہ اپنے جسم سے ایک غیر مقامی کائنات سے باہر‘ کسی توانائی والی ہستی کی جانب جاتا ہے۔ لہٰذا سمجھنا چاہیے کہ مادی جسم عارضی لباس ہے۔ خیالات صرف خیالات نہیں بلکہ حقیقت کو بنانے والے اوزار ہیں‘‘۔ مزید لکھتے ہیں ''مادے کو اپنی شکل وصورت کی تبدیلی کے لیے ایک ایسی باشعور ہستی (اللہ تعالیٰ) کی ضرورت ہے جس کا مشاہدہ (اور توجہ) اس کی شکل وصورت بنائے‘‘۔ اللہ اللہ! ثابت ہوا جو اس کائنات کا خالق ہے‘ وہ خود اس کائنات کا حصہ نہیں اور نہ ہی کائنات اس کے وجود کا حصہ ہے۔ وہ تو واحد ہے‘ اَحد ہے‘ الصمد ہے۔ ''لم یلد و لم یولد‘‘ ہے۔ وہ کُن کہتا ہے تو کوئی بھی شے عدم سے وجود میں آ جاتی ہے اور جب مادہ وجود میں آتا ہے تو اس کی شکل وصورت اور اس کی خصوصیات بھی خالق کے مشاہدے اور توجہ ہی سے وجود پذیر ہوتی ہیں۔
مصنف مزید لکھتا ہے ''ہمارا وجود ایک روحانی وجود سے رابطے میں ہے‘‘۔ سبحان اللہ! قرآن مجید کی 114سورتیں ہیں۔ 114 بار قرآن کریم میں بسم اللہ الرحمن الرحیم آیا ہے۔ ''ب‘‘ کے عربی گرامر میں 15 معانی ہیں۔ ایک معنی یہ ہے کہ کسی کے ساتھ جڑ جانا‘ رابطے میں رہنا۔ اسے ''الصاق‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی اللہ نے اپنے ہر بندے کو اپنے ساتھ ربط کی فطرت ودیعت کی ہے۔ جی ہاں! زمین کی مٹی میں جو معدنیات ہیں‘ وہی منرلز انسان کے جسم کا بھی حصہ ہیں۔ انہی منرلز کو کام میں لا کر انسان زمین کو اپنے لیے جنت بنا رہا ہے۔ تو جس ربِ کریم نے اس انسان کے لیے اپنے پاس جنت بنایا ہے‘ وہ کیسا ہو گا؟ مولا کریم فرماتے ہیں ''کوئی نفس (جان) نہیں جانتی کہ اس کی (اخروی) آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چھپا کر رکھا گیا ہے‘‘ (السجدہ: 17)۔ حضور کریم ﷺ نے فرمایا ''جو کچھ (جنت میں انسان کی مہمانی کے لیے) تیار کیا گیا ہے نہ وہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے وہم وگمان میں آیا ہے۔ (بخاری‘ مسلم)۔
قارئین کرام! آئیے اللہ تعالیٰ کی مہمان نوازی کے مرکز یعنی جنت کے حصول کے مقصد کو سامنے رکھ کر اس زمین پر زندگی گزاریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved