اقتدارکا کھیل زور آور کی فتح پہ منتج ہوتا ہے۔ دیگر مٹا دیے جاتے ہیں۔ تاریخ کی کتاب میں یہی لکھا ہے۔
استثنا موجود ہے مگر بہت تھوڑے ہیں جو اس کا ادراک کر پاتے ہیں۔ اس کے لیے اقتدار کی سیاست سے بلند ہو کر‘ اقدار کی سیاست کرنا پڑتی ہے اور کم لوگ ہیں جو اقدار کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر کوئی کر جائے تو اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود تاریخ اسے فاتح قرار دیتی ہے۔ شاعر اس کے لیے گیت لکھتے ہیں۔ مؤرخ کا قلم مدح کی روشنائی میں ڈوبا رہتا ہے۔ دانش اس کے لیے رطب اللسان رہتی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو سماج کو بڑے فساد سے بچا لیتے ہیں۔
مسلم تاریخ میں اس استثنا کی اولیں مثال علی ابن ابی طالب ہیں یا ان کے فرزندِ ارجمند حسن ابن علی۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ سقیفہ بنی ساعدہ سے لے کر سیدنا عثمانؓ کے انتخاب تک‘ سیدنا علیؓ نے جان لیا تھا کہ سیاست کا بہاؤ کسی طرف ہے۔ انہوں نے اس کا ادراک کیا اور پہلی مسلم ریاست انتشار سے محفوظ ہو گئی۔ داخلی استحکام نے پھر اس سیاسی نظام کو جنم دیا جسے خلافتِ راشدہ کہتے ہیں۔ بات جب سیدنا حسنؓ ابن علیؓ تک پہنچی تو انہوں نے اقتدار پر امت کی وحدت کو ترجیح دی۔ وہ جامع الامت کہلائے اور پھر بیس برس مسلم ریاست کو جو استحکام نصیب ہوا اس نے اسے ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ ان فتوحات اور کامیابیوں میں ان کا حصہ ہے‘ جس طرح خلافتِ راشدہ کے قیام میں سیدنا علیؓ کا حصہ ہے۔
جمہوریت انسان کی روشن دماغی کا غیر معمولی شاہکار ہے۔ اس نے سیاست کو درپیش سب سے پیچیدہ مسئلے کو حل کر دیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ جب اقتدار کے ایک سے زیادہ فریق ہوں تو پھر فیصلہ کیسے ہو؟ جمہوریت نے اس کا رخ تلوار سے رائے عامہ کی طرف موڑ دیا۔ اس طرح اقتدار کا کھیل انسانی لہو سے رنگین میدانِ کارزار سے پولنگ سٹیشن کی طرف منتقل ہو گیا۔ اب عوام کے ہاتھ میں تیر کی جگہ تیر کی تصویر والی پرچی آ گئی۔ انسانی خون بہائے بغیر انتقالِ اقتدار ممکن ہو گیا۔ یہاں تک تو بات قابلِ فہم ہے مگر ایک نیا سوال اٹھ کھڑا ہوا: جب ووٹ کی حرمت بندوق سے پامال ہونے لگے تو کیا کیا جائے؟ اس کا جواب بھی جمہوریت نے دیا: پُرامن جدوجہد۔
جمہوریت ایک کلچر ہے۔ یہ انسانی رویوں کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کلچر نے عمرانی معاہدے کا تصور دیا۔ احتجاج کو انسان کا جمہوری حق سمجھا۔ آزادیٔ رائے کو سماجی قدر قرار دیا۔ اب اگر کہیں ووٹ کا تقدس مجروح ہوتا ہے تو اس نے وہ ماحول فراہم کیا جو اس ناانصافی کا ازالہ کرے۔ آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی اسی جمہوری کلچر کی عطا کردہ اقدار ہیں۔ یہ جمہوری نظام اگر غیر فعال ہو جائے تو پُرامن احتجاج کا راستہ کھلا رہتا ہے۔ اس میں دیر ہو سکتی ہے‘ اندھیر نہیں۔ جمہوریت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور انسانی طبیعت میں عجلت ہے۔ یہ عجلت اسے متبادل راستوں کی طرف اُکساتی ہے۔ ایسا ہی ایک راستہ ہے جسے انقلاب کا رومانوی نام دیا جاتا ہے۔ انقلاب درحقیقت ایک جمہوریت کش تصور ہے۔ یہ معاشروں کو انتشار کی راہ دکھاتا‘ انسانی لہو کو ارزاں کرتا اور پُرامن تبدیلی کے راستے بند کر دیتا ہے۔ کچھ لوگ جمہوریت میں انقلاب کا پیوند لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو متصادم تصورات کو جمع کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
پاکستان میں یہ راستہ چھ مرتبہ اپنایا گیا۔ پہلی دفعہ عوامی لیگ نے اس پر قدم رکھا۔ جب مشرقی پاکستان میں ووٹ کا تقدس مجروح ہوا تواس نے انقلابی جدوجہد کی۔ اس کا پہلا نتیجہ سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں نکلا۔ دوسرا شیخ مجیب الرحمن کے قتل کی شکل میں اور تیسرا حسینہ واجد کے روپ میں سامنے آیا جو اَن گنت بنگالیوں کی جان اور ان کا اقتدار لے گیا۔ دوسری دفعہ یہ راستہ بلوچستان میں قوم پرستوں نے اپنایا جب بھٹو صاحب نے ان کے خلاف ریاستی قوت استعمال کی۔ وہ دن اور آج کا دن‘ بلوچستان کو امن نصیب نہ ہو سکا۔ تیسری دفعہ پیپلز پارٹی کے ایک دھڑے نے بھٹو صاحب کے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو کی قیادت میں یہ راستہ چنا‘ جب الذولفقار کی بنیاد رکھی۔ جہاز اغوا ہوئے‘ کئی لوگ قتل ہوئے‘ انتشار پھیلا‘ یہاں تک کہ خود مرتضیٰ بھٹو کا اپنا وجود اس آگ میں جل گیا۔ چوتھی بار ایم کیو ایم نے انقلاب کا آوازہ بلند کیا جب اس کے خیال میں مہاجر ووٹ کی بے حرمتی ہوئی۔ اس کے نتیجے میں کراچی اور ملک کا جو حشر ہوا‘ یہ ایک المناک داستان ہے۔ پانچویں بار جہادی سوچ نے یہ راستہ دکھایا جب کچھ گروہوں نے یہاں بزور اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں ملک فساد کا گڑھ بن گیا۔ چھٹی بار پی ٹی آئی نے اس راستے کو چنا۔ اس نے عسکری علامتوں کو ہدف بنایا اور یہ خیال کیا کہ وہ بزور اقتدار کے ایوانوں کو خالی کرا لیں گے۔ اس کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔
آج بھی اگر کسی کا خیال ہے کہ ووٹ کی حرمت مجروح ہوئی ہے یا وہ ریاستی جبر کا شکار ہے تو اس کا راستہ پُرامن جدوجہد ہے۔ اس راستے کے انتخاب کے لیے سیاسی سوچ لازم ہے۔ سیاست صبرکے ساتھ ہوتی ہے۔ اگرسوشل میڈیا پر صبح وشام برسرِ اقتدار قوت کی تذلیل کی جائے گی‘ اسے کچوکے لگائے جائیں گے‘ معاصر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا دروازہ بند کیا جا ئے گا‘ کارکنوں کو مسلسل اشتعال دلایا جائے گا تو پھر دوسرے فریق سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ اس کا رویہ نرم ہو؟ ریاست کے ساتھ معاملہ کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ اسے دباؤ میں لا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔ دوسرا طریقہ مکالمہ‘ بات چیت‘ سیاسی قوتوں کی ہم نوائی اور صبر کے ساتھ جدوجہد ہے۔ سیاسی سوچ ہو تو اقتدار کے کھلاڑی اسی راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ بینظیر بھٹو صاحبہ اور نواز شریف صاحب اس کی مثال ہیں۔ ان کے لیے اقتدار کے دروازے اسی لیے کھلے کہ انہوں نے صبر کیا اور سیاسی حکمتِ عملی اختیار کی۔ بینظیر صاحبہ نے جنرل ضیا الحق کے ساتھیوں سے صلح کی۔ نواز شریف صاحب نے بھی پرویز مشرف صاحب کو بطور صدر قبول کیا۔ (ن) لیگ کے وزرا نے 2008ء میں مشرف صاحب سے آئین کی وفاداری کا حلف لیا۔ اہلِ سیاست کے لیے یہ راستہ ہی واحد راستہ ہے۔
پہلے طریقے کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کمزور سے کمزور ریاست بھی کسی دوسرے گروہ کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتی۔ وہ بڑے سے بڑا نقصان گوارا کر لے گی مگر اس حل کو قبول نہیں کرے گی۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ کو یاد کر لیں۔ آج بھی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ آج کی ریاست کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اسے طاقت سے دباؤ میں لانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ سیاست میں غلط اور صحیح کی تفریق نہیں ہوتی۔ یہاں امکانات کو دیکھا جاتا ہے۔ ملک اور عوام کو فساد کی نذر کرنے میں کسی کا فائدہ نہیں ہو گا۔ ریاست کی ذمہ داری بھی یہ ہے کہ وہ پُرامن جد وجہد کے راستے بند نہ ہونے دے۔ ریاستی قوت کا ناروا استعمال ریاست کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
یہ سیاسی حالات پر میرا تبصرہ ہے۔ سیاست مگر میرے تبصرے کی تابع نہیں ہے۔ اس کی اپنی حرکیات ہیں۔ اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ریاست کی سوچ کیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی راہیں مسدود کر چکیں۔ میں طویل عرصہ یہ لکھتا رہا کہ عمران خان صاحب کو سیاسی جماعتوں سے فاصلہ کم کرنا چاہیے کہ ان کے فطری اتحادی وہی ہو سکتے ہیں۔ ان کا خیال مگر یہی رہا کہ وہ سب کو روند کر طاقت سے فضا کو اپنے حق میں کر لیں گے۔ انہوں نے اپنے لیے کوئی راستہ چھوڑا ہے‘ نہ دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے۔ اس کا فائدہ ظاہر ہے تیسری قوت کو ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں آج بے بسی کی تصویر ہیں اور نتیجتاً سیاست بھی۔ اقتدار کے کھیل میں کسی ایک ہی کو فاتح رہنا ہے۔ تاریخ کی کتاب میں یہی لکھا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved