تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-11-2025

یہ دنیا زور آوروں کی ہے

27نومبر کو امریکہ میں یومِ تشکر (Thanksgiving Day) کی قومی تعطیل تھی۔ امریکہ میں یہ دن ہر سال ماہِ نومبر کی چوتھی جمعرات کو منایا جاتا ہے۔ امریکہ میں بہت سے دن یا تہوار کیلنڈر کی تاریخ سے جڑے ہونے کے بجائے اُس ماہ میں کسی مخصوص دن کے حساب سے منائے جاتے ہیں‘ مثلاً مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ڈے جنوری کے تیسرے سوموار کو‘ پریذیڈنٹ ڈے (جارج واشنگٹن کا یومِ پیدائش) فروری کے تیسرے پیر کو‘ میموریل ڈے مئی کے آخری سوموار کو‘ لیبر ڈے ستمبر کے پہلے پیر کو اور کولمبس ڈے اکتوبر کے دوسرے سوموار کو منایا جاتا ہے۔ اسی طرح صدارتی اور کانگریس الیکشن ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے منگل کو ہوتے ہیں جبکہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کا دن ہر چار سال بعد 20 جنوری کو منایا جاتا ہے‘ مگر یہ ورکنگ دن ہونا چاہیے۔ اگر اس روز اتوار آ جائے تو یہ تقریب اگلے روز یعنی 21 جنوری کو وقوع پذیر ہوتی ہے۔
''امریکی پلگرم‘‘ یعنی زائر‘ یاتری یا مسافر یہ دن ہر سال نومبر کی چوتھی جمعرات کو بطور شکریہ مناتے ہیں‘ لیکن مقامی امریکی یعنی Native Americans اس دن کو National day of Mourning یعنی قومی یومِ سوگ کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ جو میں نے لفظ امریکی پلگرم لکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب گورے اس ملک میں آئے تو انہیں پلگرم یعنی زائر یا یاتری کے نام سے پکارا گیا اور خود بھی تب وہ اپنے لیے یہی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ یہ اور بات کہ تھوڑے عرصے بعد یاتری مالک اور مقامی قبائل پناہ گزین بن گئے۔ مہمان مالک اور مالک مہاجر ہو گئے۔ گورے جہاں بھی گئے یہی تاریخ دہرائی گئی۔ آسٹریلیا کے ایبوریجنل‘ نیوزی لینڈ کے ماوری(Maori)اور کینیڈا کے پہلے مقامی (First Nation) اور انوئٹ (Inuit) قبائل کا حال ہمارے سامنے ہے۔ آج سارا آسٹریلیا گوروں کے زیر نگین ہے‘ کہیں کہیں اور کبھی کبھی آسٹریلین ایبوریجنل اور ٹورس سٹریٹ آئی لینڈرز دکھائی دیتے ہیں۔ صدیوں سے ظلم و ستم اور جبرو استحصال کے مارے ہوئے ان اصل مقامی مالکان کو اب وظیفہ اور چند دیگر سہولتوں کے نام پر تہذیب کے نام لیوا صدیوں سے جاری اپنی لوٹ مار اور قبضہ گیری سے بھری ہوئی تاریخ کو سنہری پیکنگ میں لپیٹ کر اپنی انسان دوستی کے پردے میں چھپانا چاہتے ہیں‘ مگر یہ سب کچھ صرف دکھاوا ہے کیونکہ ان مقامی لوگوں کی حیثیت نمائشی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
میں جب آسٹریلیا میں تھا تو اپنے دوست ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کیساتھ دنیا کے قدیم ترین ڈائنٹری برساتی جنگل (Daintree Rainforest) دیکھنے چلا گیا۔ ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ بھی اندر سے ایک مسافر ہے اور دنیا گھومنے کا شوق اسے ملکوں ملکوں لیے پھرتا ہے۔ ہم دونوں ایک سی طبیعت کے سیلانی ہیں۔ ''خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو‘‘ کے مصداق جب میں ڈاکٹر بھٹہ کے پاس برسبین گیا تو ہم نے برسبین میں وقت صرف کرنے کے بجائے اسے اپنے طریقے سے گزارنے کا فیصلہ کیا اور جہاز پکڑ کر کیرنز (Cairns) چلے گئے۔ ہماری منزل دنیا پر قدرت کے بڑے قدرتی عجائبات میں پہلے نمبر پر گنا جانے والا عجوبہ گریٹ بیریئر ریف اور کیرنز کیساتھ واقع دنیا کا قدیم ترین برساتی جنگل ڈائنٹری تھا۔
ڈائنٹری برساتی جنگل آسٹریلیا کے صوبے کوئنز لینڈ کے شمال میں گزشتہ 180 ملین سالوں سے موجود ہے۔ 1200مربع کلو میٹر پر مشتمل یہ جنگل یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ لسٹ میں شامل ہے۔ یہ ایمازون کے مشہور جنگل سے بھی کہیں پرانا جنگل ہے‘ جو ارتقا کے کئی مرحلوں سے بچ کر جوں کا توں موجود ہے۔ اس جنگل میں بہت سے پودے اور جانور ایسے ہیں جو دنیا بھر میں کہیں اور دکھائی نہیں دیتے۔ یہ جنگل صدیوں سے قدیم آسٹریلیائی باشندوں یعنی ایبوریجنلز کے قبیلے Kuku Yalanji کا مسکن ہے۔ یہ جنگل ان کے نزدیک مذہبی‘ ثقافتی اور روحانی حیثیت کا حامل ہے۔ وہ اس جنگل کو ''زندہ ہستی‘‘ تصور کرتے ہیں۔ یہ جنگل کبھی گوروں نے سارے آسٹریلیا کی مانند مقامی لوگوں سے ہتھیا لیا۔
کوکو یالانجی لوگوں پر مشتمل قدیمی مقامی قبیلے نے اس استحصالی قبضے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ایک طویل عدالتی جنگ لڑ کر اس جنگل پر اپنے حقِ ملکیت ثابت کیا۔ تاہم یہ بھی غنیمت ہے کہ عدالتوں نے ان کے حقِ ملکیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس سلسلے میں واضح احکامات بھی جاری کیے اور سرکار نے ان احکامات کو کم از کم مقامی لوگوں کی اس جنگل کی ملکیت کا اقرار کر لیا۔ ہماری طرح نہیں کہ آئین میں عبوری حکومت کی طے شدہ مدت کے گزرنے کے بعد اس پر آئینی خلاف ورزی کے تناظر میں عدالتی حکم کے باوجود نہ صرف عبوری حکومت قائم و دائم رہی بلکہ انتخابات کروانے کے عدالتی حکم کو بھی ہوا میں اڑا کر رکھ دیا گیا۔ بہرحال یہ ایک الگ سٹوری ہے۔ فی الحال تو ہم ڈائنٹری برساتی جنگل میں ہیں۔
ڈائنٹری برساتی جنگل کے عدالتی تنازعے اور حقِ ملکیت کے تناظر میں 2007ء میں مقامی لوگوں کے حقِ ملکیت اور قدیمی زمین کے حقِ استعمال کا معاہدہ ہوا جس کے تحت رسمی طور پر کوکو یالانجی قبیلے کے لوگوں کو اس جنگل کا مالک تسلیم کر لیا۔ تاہم اس حقِ ملکیت سے قطع نظر انہیں حقِ قبضہ سے محروم رکھا گیا یعنی کاغذی طور پر تو یہ جنگل مقامی قدیم قبیلے کی ملکیت قرار دے دیا گیا تاہم انہیں صرف حقِ ملکیت کا لالی پاپ دے کر ٹرخا دیا گیا اور اس جنگل کی نام نہاد ملکیت کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ مجھے ایسے گھر کی رجسٹری تھما دی جائے جس پر غنیم قابض ہو اور کرائے کی مد میں بھی کچھ ادا نہ کر رہا ہو۔ اس کاغذی عدالتی حکم نامے کی حقیقت بھی عین اسی طرح تھی۔ پھر 2021ء میں ایک اور معاہدہ ہوا جسے Land Handover Agreement کہتے ہیں‘ جس کے تحت کوئنز لینڈ گورنمنٹ نے ایک لاکھ 60 ہزار 213 ہیکٹر زمین پر مشتمل یہ جنگل‘ جس میں ڈائنٹری نیشنل پارک بھی شامل تھا‘ باضابطہ طور پر مشرقی کوکو یالانجی قبیلے کے حوالے کر دی مگر یہ حقِ ملکیت اور حقِ قبضہ انہیں اس جنگل کے انتظامی معاملات میں حصہ داری کے علاوہ اور کچھ نہیں دیتا۔ وہ اس محفوظ جنگل کے انتظامی معاملات میں بھی صرف اس حد تک دخیل ہیں کہ وہ اب اس جنگل اور اس سے متصل ہوپ آئی لینڈ وغیرہ کی دیکھ بھال کے مشترکہ نظام کا حصہ ہیں‘ جس کے تحت اب حکومت اور مقامی کوکو یالانجی لوگ مل کر اس کا انتظام سنبھالتے ہیں اور اس قبیلے کے لوگ اب اس انتظامی ٹیم میں بطور ورکر ملازم بھی ہیں اور اپنے قدیم مقدس اور روحانی حیثیت کے حامل اس جنگل کے محافظ بھی ہیں۔
قارئین! میں معذرت خواہ ہوں کہ حسبِ معمول بھٹک کر کہیں کا کہیں چلا گیا لیکن کیا کروں! پنجابی کہاوت ہے کہ عادتیں سروں کیساتھ جاتی ہیں۔ یعنی پرانی عادتیں مرنے پر ہی ختم ہوتی ہیں اور میرا بھی یہی حال ہے۔ جب تک یہ عاجز لکھ سکتا ہے یہی کچھ کرتا رہے گا اور آپ سے معذرت بھی کرتا رہے گا۔ بات یومِ تشکر کی ہو رہی تھی۔ اس دن کو گورے مقامی قدیم قبائل کیساتھ باہمی مہربانی کے طور پر مناتے ہیں جبکہ اس باہمی بھائی چارے اور مبینہ مہربانی کے فریق ثانی یعنی مقامی قدیمی قبائل اس دن کو قومی یومِ سوگ کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ کسی معاملے پر فریقین کے مابین دنیا کا شاید سب سے بڑا باہم متصادم دن ہے۔ تاہم دنیا بھر کے سامنے صرف اسی فریق کا مؤقف ہے جس کے پاس طاقت‘ میڈیا اور بیانیے کے اظہار اور اس کو مسلط کرنے کی استطاعت ہے۔ لہٰذا ساری دنیا اس دن کو Thanksgiving Day کے نام سے جانتی ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ گورے جس فریق پر اپنی مہربانیوں کے دعویدار ہیں‘ وہ فریق اسے یوم سوگ کے طور پر مناتا ہے‘ دنیا کو صرف زور آور کے بیانیے سے مطلب ہے‘ کمزور کی کون سنتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved