تحریر : افتخار احمد سندھو تاریخ اشاعت     29-11-2025

نو طبقات کی لوٹ مار بدستور جاری

میں ایک عرصے سے اس بات کا رونا رو رہا ہوں کہ پاکستان کی اشرافیہ کے نو طبقات پاکستان کے وسائل کو بیدردی سے لوٹ رہے ہیں اور عوام کا مسلسل استحصال کر رہے ہیں‘ یعنی عوام کو قربانی کا بکرا بنایا ہوا ہے۔ پاکستان کی معاشی بدحالی کے ذمہ دار اشرافیہ میں یہی طبقات شامل ہیں‘ جو موجودہ حالت پر بھی ترس نہیں کھا رہے بلکہ ہنوز اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں اور انجمنِ ستائشِ باہمی بن کر لوٹ مار کیلئے ایک دوسرے کی بھرپور اور مقدور بھر معاونت کر رہے ہیں۔ پاکستان کا پورے کا پورا سیاسی اور معاشی نظام پاکستان کی اشرافیہ میں شامل ان طبقات نے مکمل طور پر ہائی جیک کر رکھا ہے اور یہ نظام ان طبقات کو ہی سپورٹ کرتا ہے‘ عوام کو کچھ بھی ڈِلیور نہیں کرتا۔ حرام کھانے والوں نے حلال کھانے والوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ لوٹ مار سے ان طبقات کی تجوریاں بھری جا رہی ہیں جبکہ یہ ملک اور بیچارے عوام مسلسل مقروض ہو رہے ہیں۔ غریب عوام کے خون اور پسینے کی کمائی پر یہ طبقات پل رہے بلکہ موج میلہ کر رہے ہیں۔ اب تو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔ ان رپورٹس سے قبل پاکستان کے معروف ماہر معاشیات‘ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا بھی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ پاکستان میں سالانہ 4500 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ کیا کہتے ہیں کہ
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسیوں پر قبضہ کر کے معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان میں گورننس اور بدعنوانی سے متعلق جاری رپورٹ میں پاکستان میں مسلسل بدعنوانی کے خدشات کی نشاندہی کرتے ہوئے 15نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کا دائرہ صرف وفاقی سطح کی کرپشن اور گورننس تک محدود ہے۔ رپورٹ میں اہم سرکاری اداروں کو حکومتی ٹھیکوں میں خصوصی مراعات ختم کرنے‘ فیصلوں میں شفافیت بڑھانے اورحکومت کے مالیاتی اختیارات پر سخت پارلیمانی نگرانی کی سفارش کی گئی ہے جبکہ انسدادِ بدعنوانی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے رپورٹ میں تمام سرکاری خریداری بھی 12 ماہ میں ای گورننس سسٹم پر لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پالیسی سازی اور عملدرآمد میں زیادہ شفافیت اور جوابدہی ضروری ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ اپنی جیبیں بھرنے کیلئے معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ کرپشن کی نذر ہونے والی رقم سے پاکستان میں پیداوار اور ترقی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گورننس بہتر بنانے سے نمایاں معاشی فائدے حاصل ہوں گے اور اصلاحات سے پاکستان کی معیشت پانچ سے 6.5 فیصد تک بڑھ سکتی ہے اور پاکستان پانچ سال میں جی ڈی پی گروتھ کو 6.5 فیصد تک لے جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹیکس سسٹم پیچیدہ اور کمزور ہے جو بدعنوانی کا باعث ہے‘ عدالتی نظام کی پیچیدگی اور تاخیر معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرتی ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں کمی بدعنوانی کے خطرات کی علامت ہے جبکہ بجٹ اور اخراجات میں بڑے فرق سے حکومتی مالیاتی شفافیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔ گورننس اور کرپشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن پالیسیوں میں تسلسل کی کمی اور غیر جانبداری سے اداروں پر عوام کا اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ پاکستانیوں کو سروسز کے حصول کی خاطر مسلسل ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں۔ لوٹ مار کیلئے حکومتی اور بیورو کریسی کے زیر اثر اضلاع کو زیادہ ترقیاتی فنڈ ملے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری عہدوں پر فائز شوگر مل مالکان نے مسابقت کی قیمت پر اپنے کام کو منافع بخش بنا رکھا ہے‘ شوگر ملز مالکان اپنے فائدے کیلئے برآمدات اور قیمتوں کے تعین کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوئے‘ وافر ذخیرہ ہونے کے باوجود شوگرمل مالکان نے مصنوعی قلت پیدا کرنے اور قیمتوں میں ہیرا پھیری کیلئے ملی بھگت کی۔ آئی ایم ایف کے مطابق چینی کی تحقیقاتی رپورٹ میں سیاسی ہیوی ویٹس کو مجرم قرار دیا گیا ہے اور تحقیقاتی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ برآمدی دباؤ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ گورننس اور کرپشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی نظام میں پرانے قوانین‘ ججوں اور عدالتی عملے کی دیانتداری کے مسائل ہیں جس کے باعث قابلِ اعتماد طریقے سے معاہدوں کو نافذ کرنے یا جائیداد کے حقوق کا تحفظ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ کرپشن کو پاکستان میں عدالتی کارکردگی کو متاثر کرنے اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچانے والے اہم عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نیشنل کرپشن سروے میں عدلیہ کو پولیس اور پبلک پروکیورمنٹ کیساتھ سب سے زیادہ کرپٹ شعبوں میں سے ایک کے طور پر دکھایا گیا جو عدالتی نظام پر اعتماد کی کمی ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کے عدالتی نظام کو عدالتی آزادی کے حوالے سے عملی طور پرکافی رکاوٹوں کا سامنا ہے اور 26ویں آئینی ترمیم نے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل کو تبدیل کرکے جوڈیشل کمیشن میں ممبران کی تعداد کو بڑھایا۔ آئی ایم ایف رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنوری 23ء تا دسمبر 24ء نیب کی 5300 ارب روپے کی ریکوری معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے ایک کم حصے کو ظاہر کرتی ہے۔
دوسری طرف گیلپ سروے نے بھی معاشی بہتری کے حکومتی دعووں کا کچا چٹھا کھول دیا ہے۔ سروے کے مطابق موجودہ کاروباری صورتحال کے بارے میں مثبت تاثر گزشتہ سروے کے 20فیصد سے کم ہوکر آٹھ فیصد ہوگیا ہے‘ جو اس بات کی عکاسی ہے کہ گزشتہ سروے کے مقابلے میں کاروباری اداروں کی نسبتاً کم تعداد موجودہ حالات کو بہتر سمجھتی ہے۔ اسی طرح مستقبل کی توقعات کے بارے میں کاروباری اداروں کی رائے میں کمی آئی ہے۔ مستقبل کے کاروباری حالات 22 فیصد سے کم ہو کر 12فیصد رہ گئے۔ ملک کی سمت کے بارے میں بھی کاروباری اداروں کی رائے گزشتہ سروے کے منفی دوفیصد کے مقابلے میں منفی آٹھ فیصد ہو گئی ہے۔ خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 54 فیصد کاروباری حضرات کہتے ہیں کہ ان کا کاروبار اس وقت ٹھیک چل رہا ہے لیکن یہ پچھلے سروے کے مقابلے میں سات فیصد کمی ہے۔ 56فیصد مستقبل کے بارے میں مثبت ہیں‘ مگر یہ بھی پچھلے سروے سے (پانچ فیصد) کم ہے۔ سروے کے نتائج کے مطابق افراطِ زر اب بھی سب سے بڑا چیلنج ہے اور 51 فیصد شرکا نے اشیا کی قیمتوں میں استحکام کی فوری ضرورت پر زوردیا ہے۔
ان دونوں رپورٹوں سے ان دعووں کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک میں معاشی ترقی نہیں ہو رہی بلکہ اشرافیہ میں شامل طبقات کے ہاتھوں ملکی وسائل کی لوٹ مار دھڑلے سے جاری ہے اور ان طبقات میں سے کوئی بھی ملک اور عوام کی حالت پر رحم کھانے کو تیار نہیں‘ بلکہ ان سب کو صرف اپنے اپنے معاشی مفادات کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اشرافیہ میں شامل یہ طبقات ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں موجود سیاستدانوں نے عد لیہ کو خوش بلکہ رام کرنے کیلئے ان کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا۔ باقی تمام طبقات اس پر خاموش رہے۔ اس کے بعد ارکانِ پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں جی بھر کر اضافہ کیا جس پر عدلیہ سمیت دیگر طبقات نے چپ سادھے رکھی۔ طبقاتِ اشرافیہ میں سے ہر کوئی اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کر رہا ہے‘ عوام جائیں بھاڑ میں‘ اُن کو اس سے کیا۔ بقول فیض احمد فیض:
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں‘ کس سے منصفی چاہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved