تحریر : ذوالفقار علی مہتو تاریخ اشاعت     29-11-2025

پولنگ سٹیشنوں سے روٹھے عوام اور ڈویژنل صوبے

پاکستان میں نئے‘ چھوٹے صوبوں کے قیام کی بحث اب دانشور حلقوں سے نکل کر تھڑوں تک پہنچ گئی ہے اور ایم کیو ایم پاکستان کے نئے صوبے کے نیم مطالبے سے معاملہ سیاسی میدان میں بھی سر اٹھانے لگا ہے۔ میرے بچپن کے ایک دوست‘ جو شمالی لاہور کے علاقے کی ایک کچی بستی میں رہتے ہیں‘ درزی کا کام کرتے ہیں (نام لکھنا مناسب نہیں)۔ ان کے محلے کی ایک سڑک (تقریباً ایک کلومیٹر کا ٹکڑا) گزشتہ سوا سال سے زیر تعمیر ہے‘ ٹھیکیدار پتھر ڈال کر غائب ہو چکا ہے۔ میرے دوست کو اس ٹوٹی پھوٹی سڑک کے باعث آنے جانے میں اپنی اور علاقہ مکینوں کی درپیش تکلیف تنگ نہیں کرتی بلکہ ان کا ایک انوکھا مسئلہ ہے‘ وہ یہ کہ ان کے خیال میں ماضی کی طرح اس ادھورے منصوبے کی رقم ٹھیکیدار لے چکا ہوگا اور سرکاری خزانے کی کروڑوں نہ سہی لاکھوں کی سر عام لوٹ مار ہو چکی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میں ان کی یہ باتیں سنتا رہتا تھا لیکن کئی ماہ قبل میں اس علاقے کے رکن صوبائی اسمبلی جو اَب وزیر بھی ہیں‘ کو سڑک کی وڈیو کے ساتھ وٹس ایپ پر ایک میسج بھیجا‘ اس پر انہوں نے وعدہ کیا کہ میں اس معاملے کو ذاتی طور پر دیکھتا ہوں۔ دو چار دن بعد اُن کا آڈیو میسج آیا کہ ٹھیکیدار کا کوئی بِل رکا ہوا ہے اس لیے وہ اس پروجیکٹ پر کام چھوڑ کر بیٹھا ہوا ہے‘ بہرحال میں یہ سڑک مکمل کراتا ہوں۔ صوبائی وزیر صاحب سے اس بات چیت کو بھی تقریباً ایک سال ہونے کو ہے مگر یہ سڑک اب بھی ویسی ہے۔ میرا دوست چند روز قبل مجھے ملا اور تقریباً احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیکیدار اور سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ ہے‘ نجانے بڑے منصوبوں میں کیا گھپلے ہو رہے ہوں گے۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی ٹھوس جواب نہیں تھا لیکن سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کہوں اور اتنے میں دوست کہنے لگا: ہم کہاں جائیں‘ ہمارے ایم پی اے تک تو ہماری رسائی نہیں اور علاقے میں اُن کے نمائندے کوئی جواب نہیں دیتے۔ میں نے جب یاد دلایا کہ وہ تو اب صوبائی وزیر ہیں تو اُس کے منہ سے بے اختیار نکلا کہ ''شکایت کرن والی گل ہن تے وسوں ای باہر اے‘‘۔ اس ساری کہانی کی تان اس بات پر ٹوٹی کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا 1240 ارب روپے رواں سال کا ریکارڈ ترقیاتی بجٹ شمالی لاہور کے ان مکینوں کیلئے بے معنی ہی نہیں‘ قابلِ تشویش بھی ہے کیونکہ وزیراعلیٰ کی لاکھ کوششوں کے باوجود شفافیت اور ایمانداری کے خلاف سینہ تان کا کھڑا کرپٹ مافیا ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ صوبائی وزیر اپنے محکمے پر توجہ دے یا اس چھوٹی سڑک کا آڈٹ کراتا پھرے؟ ذرا غور سے دیکھیں تو یہ سارا معاملہ دو سیاسی سوچوں کے گرد گھوم رہا ہے۔ ایک مرکزیت کے تحت سیاسی اور انتظامی بندوبست کی سوچ اور دوسرا اختیارات کی عوامی سطح تک تقسیم کا نظریہ۔ اس نامکمل سڑک سے علاقہ مکینوں کی محرومی اور کرپشن کے خدشات عوام کو معاشرتی شراکت سے لاتعلقی کی طرف لے جاتے ہیں اور ان کا جی سیاسی نظام کے ذریعے بہتری سے اچاٹ ہو جاتا ہے۔
کسی بھی پارلیمانی جمہوری معاشرے میں حکومت اور نظام کی مقبولیت ووٹ ہوتا ہے‘ لیکن پاکستان میں عوام ووٹ کو طاقت سمجھنے کے شعور سے بہت دور ہیں۔ 23 نومبرکو ہوئے ضمنی انتخابات کو ہی دیکھ لیں‘ اپوزیشن کی بڑی جماعت تحریک انصاف نے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا لیکن جن دو حلقوں (این اے 18 ہری پور اور این 129 لاہور) میں عملاً بائیکاٹ نہیں تھا‘ وہاں بھی لوگ ووٹ دینے نہیں نکلے۔ ہری پور کے حلقے میں ووٹوں کی شرح 42.9 فیصد رہی‘ فروری 2024ء کے الیکشن میں یہ شرح 49.88 فیصد تھی۔ لاہور کے حلقے کا تو اور بھی برا حال تھا۔ فروری 2024ء میں جب مرحوم سابق گورنر میاں اظہر الیکشن لڑ رہے تھے تو ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 40.36 فیصد تھی لیکن 23 نومبر کو یہ رجحان 18.67 فیصد تک رہا۔ ایک اور حلقے کو بھی دیکھتے ہیں‘ جہاں ملک کی دو بڑی سیاسی مگر پارلیمانی اتحادی جماعتوں کا ٹاکرا تھا۔ یہ ڈیرہ غازی خان کا حلقہ این اے 185 ہے‘ جہاں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دوست محمد کھوسہ اور مسلم لیگ (ن) کے محمود قادر لغاری میں مقابلہ تھا۔ اس حلقے میں دونوں طرف سے پورا سیاسی‘ سرداری اور سرکاری زور لگانے کے باوجود ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 32.61 فیصد رہی۔ فروری 2024ء کے الیکشن میں یہ شرح 45.84 فیصد تھی۔ اس حلقے کے حوالے سے ایک دلچسپ حقیقت کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ پیپلز پارٹی کے امیداوار دوست کھوسہ نے 8 فروری کے الیکشن میں 26 ہزار 621 ووٹ لیے تھے‘ اس بار یہ ووٹ بڑھ کر 49 ہزار 266 ہو گئے‘ اُس وقت (ن) لیگ نے کسی کو اس حلقے سے ٹکٹ نہیں دیا تھا اور آزاد حیثیت میں محمود قادر خان 32 ہزار 929 ووٹ لے کر رنر اپ رہے تھے۔ پی ٹی آئی کی نااہل ہونے ہونے والی رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے فروری 2024ء میں اس حلقے سے 94 ہزار سے زائد ووٹ لے کر دونوں امیدواروں کو ہرایا تھا۔ البتہ اس بار محمود قادر خان نے 82 ہزار 419 ووٹ لے کر میدان مار لیا۔ ضمنی انتخابات میں فیصل آباد کے حلقوں میں ووٹروں کا اعتماد حقِ حکمرانی کی غلط فہمی سے دور ہی رہا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ووٹروں کا شرکتِ اقتدار پر کمزور یقین صرف موجودہ دور کی پیداوار ہے یا اس کی جڑیں گہری ہیں؟
پاکستان کی تاریخ میں سیاسی اور جمہوری بیداری کا دور ذوالفقارعلی بھٹو کے روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے سے شروع ہوا جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1970ء کے عام انتخابات میں جب لاہور جیسے صوبائی دارالحکومت کے کئی علاقوں میں بھی بجلی نہیں تھی اور حلقوں کا جغرافیہ بھی کہیں زیادہ بڑا تھا‘ اس وقت بھی ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 61 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔1970ء سے 2018ء تک 48 سالوں میں ہونے والے لگ بھگ دس انتخابات میں اوسط ووٹ کاسٹنگ شرح 47 فیصد رہی جبکہ 2024ء کے عام انتخابات میں یہ 47.7 فیصد تک محدود رہی۔ پی ٹی آئی کے وجود میں آنے کے بعد یہ تاثر تھا کہ بانی پی ٹی آئی مقبولیت میں سابقہ لیڈروں آگے نکل گئے ہیں لیکن الیکشن ریکارڈسے پتا چلتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کے دور میں پی ٹی آئی کے گڑھ‘ موجودہ خیبر پختونخوا میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 1970ء کے الیکشن میں 47 فیصد تھی اور 2018ء تک‘ جب پی ٹی آئی نے پورا ملک فتح کر لیا‘ ان 48 سالوں کی اوسط 36 فیصد رہی۔ 2024ء کے انتخابات میں کے پی میں صرف 40 فیصد ووٹر پولنگ بوتھ تک پہنچے۔ دیگر صوبوں کا ریکارڈ بھی یہی گواہی دے گا کہ گزشتہ 55 سال سے سیاستدان ووٹروں کا حق حکمرانی میں شراکت داری کا اعتماد حاصل نہیں کر پائے۔ پنجاب میں ڈالے گئے ووٹوں کی 48 سالہ اوسط 52 فیصد اور جنوبی پنجاب میں51 فیصد رہی ہے۔ کراچی سمیت سندھ میں یہ اوسط 44 فیصد لیکن اندورن سندھ میں 46 فیصد ہے۔ بلوچستان میں 48 سالہ اوسط 42 فیصد ہے مگر حیران کن طور پر صوبے کے اربن علاقوں پر مشتمل کوئٹہ ریجن میں شرح 31 فیصد ریکارڈ کی گئی اور مکران اور قلات ریجن میں31 فیصد۔
ان اعداد وشمار کو دیکھ کر دانشور یہ ضرور سوچیں گے کہ آخر یہ عوام چاہتے کیا ہیں؟ سبھی سیاستدان اور ایوب خان سے پرویز مشرف تک کے غیر سیاسی حکمران عوام کی خدمت اور ملکی ترقی کے ساتھ ان کا معیارِ زندگی بلند کرنے کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے کے دعویدار رہے ہیں مگر عوام ہیں کہ پولنگ سٹیشنوں تک سادہ اکثریت کی اوسط حد یعنی 51 فیصد تک بھی آنے کو تیار نہیں۔ دانشوروں اور سیاستدانوں‘ اور ان سے بھی جو دونوں کیٹیگریز میں تو شامل نہیں مگر ہر جگہ موجود ہیں‘ کی خدمت میں عرض ہے کہ حقیقی شرکت اقتدار کیلئے عوام کو اپنے لیڈروں سے آسان اور مسلسل براہ راست رسائی کا نظام قائم کرنا ہوگا جو آزمودہ اور متروک بلدیاتی نظام نہیں بلکہ ڈویژنل سطح کے صوبوں میں پنہاں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved