تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     30-11-2025

ایک پاکستانی کا سلوک

پاکستانی سیاست اپنے انداز اور اپنی روایتی رفتار سے آگے پیچھے ہو رہی ہے۔ اس کی کون سی کل کب سیدھی ہو جائے گی اور کون سی کب ٹیڑھی ہو گی‘ اس کے بارے میں کوئی سیاسی پنڈت کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بڑے بڑوں کے زائچے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں‘ کبھی رائی پہاڑ بنتی نظر آتی ہے تو کبھی پہاڑ کو رائی سمجھ لیا جاتا ہے۔ چند ہی ماہ پہلے بھارت سے جو معرکہ درپیش ہوا اُس میں پاکستانی قیادت نے کمال کر دکھایا‘ فوجی اور سفارتی دونوں محاذوں پر محیر العقول کامیابیاں حاصل کیں۔ حملہ آور کو ناکوں چنے چبوائے‘ پوری دنیا نے اس کا اعتراف کیا‘ ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ گرین پاسپورٹ کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہوا۔ دوستوں کی دوستی مزید گہری ہوئی تو دشمنوں کی ہوائیاں اُڑ گئیں۔ سب کو پتا چل گیا کہ پاکستانی ریاست ریت کی دیوار نہیں ہے۔ واشنگٹن سے بیجنگ تک اور انقرہ سے ریاض تک‘ پاکستان کا اعتراف کیا جا رہا ہے اور اس سے تعلق پر اظہارِ فخر وانبساط جاری ہے۔ اس کامیابی وکامرانی کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ہماری سیاست بھی اپنے گریبان میں نظر ڈالتی۔ سب اہلِ سیاست سجدۂ شکر بجا لانے کے بعد اپنی کوتاہیوں کا احساس کرتے‘ ایک دوسرے کا اعتراف کرتے اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مستقبل کو روشن تر کرنے کے منصوبے بناتے لیکن چند روز کے لیے زبانیں بند ہوئیں‘ ایک دوسرے کے خلاف زہر اُگلنے والے خاموش ہوئے‘ اتحاد کے نعرے لگائے گئے‘ دشمن کو زیر کرنے کے لیے یک زبانی کے مظاہرے کئے تاہم جونہی کامرانی نے قدم چھوئے‘ بے ڈھنگی چال پھر اپنے آپ پر اترانے لگی۔
دنیا میں کوئی جمہوری ملک ایسا نہیں ہے جس میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان وہ فاصلہ ہو جو ہمارے یہاں ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو حریف تو سمجھتی ہیں لیکن دشمن نہیں۔ انتخابی عمل میں پورے جوش وخروش سے حصہ لیا جاتا ہے لیکن جونہی نتائج سامنے آتے ہیں‘ اقتدار کے لیے منتخب اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیتے ہیں اور جن کے حصے میں حزبِ اختلاف کے بینچ آئے ہوں‘ وہ اپنا کردار ادا کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ حکومت پر نظر رکھتے ہیں‘ احتساب کرتے ہیں‘ تنقید کا حق ادا کرتے ہیں لیکن تمیز اور تہذیب کے دائرے میں۔ آئین اور قانون کی حدود میں رہ کر مکالمہ جاری رہتا ہے‘ ایک دوسرے سے مصافحہ کیا معانقہ بھی دیکھنے میں آ جاتا ہے۔ ہر ایک کو اس کا احساس ہوتا ہے کہ آج کی اپوزیشن کل حکومت میں آ سکتی ہے اور آج کی حکومت کو اپوزیشن میں بھی بیٹھنا پڑ سکتا ہے۔ اقتدار پر کسی کا حق دائمی نہیں۔ اپوزیشن کو ''گورنمنٹ اِن ویٹنگ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی البتہ دنیا نرالی ہے۔ اقتدار حاصل کرنے والے اور اس سے محروم رہ جانے والے ایک دوسرے کے خلاف زور آزمانے لگتے ہیں۔ اہلِ اقتدار اہلِ ِاختلاف پر زمین تنگ کر دینے اور اہلِ اختلاف اہلِ اقتدار کا جینا حرام کر دینے کو کمال سمجھتے ہیں۔
شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کی لڑائی نے پاکستان کو دولخت کیا تو ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے مخالفین کی فری سٹائل ریسلنگ نے ملک کو طویل ترین مارشل لاء کی آغوش میں دھکیل دیا۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو ایک دوسرے کو ناکوں چنے چبوانے میں لگے تو ملک ایک بار پھر مارشل لاء کی لپیٹ میں آ گیا۔ بعد از خرابیٔ بسیار دونوں نے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی ٹھانی‘ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر ''میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کئے تو جناب عمران خان میدان میں آ کودے۔ تبدیلی کا ایسا پُرزور نعرہ لگایا کہ فرش تو کیا عرش بھی نوٹس لینے پر مجبور ہو گیا۔ پرانی سیاست گری کو خوار کرنے کے نام پر نئی سیاست کی شروعات کی گئی لیکن جوں جوں آگے بڑھے‘ معاملات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ تحریک انصاف کو اقتدار نصیب ہوا‘ عمران خان وزیراعظم بنے لیکن سیاست اُجلی نہ ہو سکی۔ وہ اپنے مخالفوں کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے‘ اُن کے خلاف جو بھی ستم توڑے جا سکتے تھے‘ اُن کے عہد میں توڑے گئے‘ یہاں تک کہ اُن کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا‘ اُن کی سیاست لیکن ختم نہیں ہوئی۔ اب وہ حوالۂ زنداں ہیں اور اُن کے ساتھ وہی کچھ (بلکہ اُس سے بڑھ کر) ہو رہا ہے جو وہ اپنے مخالفوں کے ساتھ کرتے رہے تھے یا کرنا چاہتے تھے۔ مقدمات تو عدالتوں میں چل ہی رہے ہیں لیکن کم وبیش تین ہفتوں سے اُن سے کسی عزیز‘ وکیل یا دوست کی ملاقات نہیں ہو پا رہی۔ کبھی اُن کی بہنیں جیل کے باہر دھرنا دیتی نظر آتی ہیں تو کبھی جیالے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی چوکڑی مار کر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ مطالبہ سب کا ایک ہی ہے کہ ہمارے بھائی سے‘ ہمارے لیڈر سے‘ ہمارے رہنما سے ہماری ملاقات کرا دو‘ اُن سے ملنے کی اجازت دو لیکن جیل حکام ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ جیل مینوئل کے مطابق معاملات آگے نہیں بڑھتے اور اضطراب پھیلتا چلا جاتا ہے۔ طرح طرح کی افواہیں اُڑائی جا رہی ہیں‘ بدخبریاں عام کی جا رہی ہیں‘ بھارتی اور افغان سوشل میڈیا پر خان صاحب کی (خاکم بدہن) موت کی خبریں تک پھیلا دی گئیں۔ مقصد یہی ہے کہ اشتعال پیدا ہو‘ پاکستانی ایک دوسرے سے اُلجھ جائیں۔ دفاعی اور سفارتی محاذ پر جو کامیابی نصیب ہوئی ہے اُس پر پانی پھر جائے۔ پاکستان کو ایک اُلجھی ریاست کے طور پر دیکھا اور دکھایا جائے۔
اہلِ اقتدار کی توجہ جب خان صاحب کی طرف دلائی جاتی ہے وہ اُن کے دور کی کچی پکّی کہانیاں سنانے میں لگ جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کی سیاست اور اُن کی جماعت آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ متضاد فیصلوں سے اپنی طاقت میں کمی کی جا رہی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا گیا لیکن لاہور اور ہری پور میں اُمیدوار بھی میدان میں اُتار دیے گئے‘ دونوں جگہ ناکامی ہوئی۔ ہری پور میں تو عمر ایوب کی اہلیہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سے ہار گئیں اور اب دھاندلی کے الزامات کی آڑ میں پناہ مانگی جا رہی ہے لیکن جو نقصان پہنچنا تھا پہنچ گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنی جیت کا جشن منا رہی ہے۔ نواز شریف کا لب ولہجہ تبدیل ہو چکا ہے‘ مریم بی بی کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کی اُلجھنیں کم نہیں ہو رہیں۔ اُسے اگر اُس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو بھی یہ مطالبہ تو کیا جا سکتا ہے‘ بلکہ کیا جاتا ہے کہ عمران خان سے فراخدلانہ نہیں منصفانہ سلوک تو کیا جائے۔ ایک قیدی کے طور پر اُن کے حقوق تسلیم کیے جائیں‘ اُن کی ملاقاتوں پر پابندی ختم کی جائے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر بات چیت کے دروازے کھولے جائیں۔ خان صاحب اور صاحبانِ اقتدار دونوں اپنے آپ کو بدلیں۔ ایک دوسرے کو پاکستانی سمجھ کر ایک دوسرے سے وہ سلوک کریں جو ایک پاکستانی دوسرے سے کر سکتا ہے یا اُس کی توقع رکھتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved