بہنوں کے جذبات کو جو سمجھ نہ سکے وہ انسانی احساسات سے عاری ہے۔ بہنوں کو بھی مگر یہ سمجھنا ہو گا کہ سیاست انسانی جذبات کے تابع نہیں ہوتی۔ انہیں طے کرنا ہو گا کہ انہیں بھائی کو رہا کرانا ہے یا سیاست کرنی ہے۔ دونوں کے تقاضے مختلف ہیں۔ بھارتی میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز نے اس بات کو آخری درجے میں ثابت کر دیا ہے۔ کئی پہلوؤں سے یہ انٹرویوز تجزیہ طلب ہیں۔
اگر کسی کا خیال ہے کہ عمران خان صاحب سے محبت کرنے والوں پر اس کا کوئی منفی اثر پڑے گا تو اسے یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔ جو تعلق کسی دلیل پر کھڑا نہ ہو اسے کوئی استدلال متاثر نہیں کر سکتا۔ یہ نشہ وہ نہیں جسے تُرشی اتار دے۔ اس لیے اگر اس مہم سے کوئی سیاسی فائدہ کشید کرنا چاہتا ہے تو اسے ناکامی ہو گی۔ تاہم اس پہلو سے اس کا تجزیہ اہم ہے کہ اس انٹرویو سے خان صاحب کی رہائی کا امکان بڑھا ہے یا کم ہوا ہے؟
سیاست کی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ یہ امکان کم ہوا ہے۔ ریاست کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں ہے‘ بھارت کے بارے میں ان کی حساسیت کسی کے لیے ناقابلِ فہم نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے لیے بھارتی میڈیا سے مدد مانگنا بھارتی فوج سے مدد لینا ہے۔ پھر یہ گمان کرنا سادہ لوحی کی انتہا ہے کہ بھارتی میڈیا کو آپ سے کوئی ہمدردی ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت میں آزاد میڈیا پایا جا تا ہے انہیں بھی اپنی خوش فہمی دور کر لینی چاہیے۔ اس کو تو پاک بھارت جنگ ہی میں دور ہو جانا چاہیے تھا جب یہ میڈیا 'خبر‘ دے رہا تھا کہ بھارت نے لاہور کی بندرگاہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس لیے اپنا مؤقف بیان کرنے کے لیے بھارتی میڈیا کا انتخاب اُس سیاسی بصیرت سے بیگانگی کا ایک اور ثبوت ہے جس کی طرف تحریک انصاف کو بارہا توجہ دلائی گئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس انٹرویو سے عمران خان صاحب کی رہائی مزید مشکل ہو گئی ہے۔
اگر اس جماعت میں سیاسی دماغ ہوتا اور سیاسی حکمتِ عملی نام کی کوئی شے پائی جا تی تو بھارتی میڈیا کے ساتھ انٹرویو کو اس سے برعکس نتائج کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ بھارتی میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا جا سکتا تھا کہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے‘ ہم اسے خود حل کر لیں گے۔ اگر بھارت کا میڈیا بات کرنا چاہتا ہے تو ان مسائل کو زیر بحث لائے جن کا تعلق پاک بھارت تعلقات یا علاقائی سیاست سے ہے۔ اگر یہ جواب دیا جاتا تو اس سے عمران خان صاحب کے لیے ان حلقوں میں بھی نرم گوشہ پیدا ہوتا جو اس وقت ان کے خلاف شدید مؤقف رکھتے ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ایک مرتبہ‘ غالباً سعودی عرب کے دورے پر گئے۔ وہاں جب اخبار نویسوں نے پاکستان کی داخلی سیاست پر بات کرنا چاہی تو ان کا جواب تھا کہ پاکستان کی سیاست میں پاکستان میں چھوڑ آیا ہوں‘ آپ مجھے سے کوئی اور سوال کیجیے۔ مولانا کی یہ بات آج بھی ان کے کردار کے اجلے پن کی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ یہ بصیرت چونکہ ارزاں نہیں ہوتی اس لیے ہمشیرہ صاحبہ کے لیے زیادہ بہتر تھا کہ وہ انٹرویو نہ دیتیں۔
عالمی قوتیں اور دوست ملک پاکستان کی سیاست پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ عرب ممالک نے جماعت اسلامی اور ایوب خان مرحوم کے مابین صلح کی کوشش کی‘ جب مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اگر حکومت نے عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا تو اس میں ان کوششوں کا دخل تھا۔ پاکستان قومی اتحاد اور بھٹو صاحب کے درمیان نزاع بڑھا تو سعودی سفیر سب سے زیادہ متحرک رہے۔ نواز شریف صاحب اور پرویز مشرف صاحب کے معاملے میں بھی سعودی عرب نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ بینظیر بھٹو صاحبہ اور پرویز مشرف صاحب کے درمیان امریکہ نے معاہدہ کرایا۔ چونکہ امریکہ پاکستانی حکومت پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے وہاں کی انتظامیہ میں اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے ہماری سیاسی جماعتیں اچھا خاصا بجٹ خرچ کرتی ہیں۔ یہ کام پی ٹی آئی سمیت سب جماعتیں کرتی ہیں اور اسے سیاسی عمل کا حصہ مانا جاتا ہے۔ حال ہی میں جب امریکی کانگرس میں پی ٹی آئی کے حق میں آواز بلند ہوئی تو وہ پی ٹی آئی کی انہی کاوشوں کا ثمر تھا۔ اس حکمتِ عملی سے سیاسی فائدہ کشید کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہماری حکومتیں امریکہ‘ چین‘ سعودی عرب یا ترکیہ جیسے ممالک کی سفارش کو رد نہیں کر سکتیں۔ اس بات کو سیاسی اخلاقیات میں غلط نہیں سمجھا جاتا۔ بھارت کا معاملہ بالکل دوسرا ہے۔ اس سے کسی طرح کی مدد لینا ہماری ریاست کو گوارا ہے نہ عوام کو۔ یہ مخا لفین کے ہاتھ میں اپنے خلاف ہتھیار دینا ہے۔ یہ گناہِ بے لذت ہے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی بہنوں کا سیاسی عمل میں شریک ہونا‘ اس وقت تک پارٹی اور خود خان صاحب کے لیے سخت مضر ثابت ہوا ہے۔ بھائی کے لیے ان کی محبت اور اضطراب قابلِ فہم ہے۔ ان کی مایوسی بھی قابلِ فہم ہے جب وہ اس حوالے سے پارٹی قیادت کی کارکردگی دیکھتی ہیں۔ انہیں اگر کوئی جدوجہد کرنی ہے تو اس کے مؤثر ہونے کے لیے اس کا غیر سیاسی ہونا ضروری ہے۔ وہ اسے انسانی حقوق کی بنیاد پر اٹھائیں جس طرح عافیہ صدیقی کی بہن نے ان کا مقدمہ لڑا ہے۔ اگر انہیں وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ یا فوج کی قیادت سے بات کرنا پڑے تو وہ کریں اور کوئی اس کو برا بھی نہیں سمجھے گا۔ اس سے پارٹی کو کوئی نقصان ہو گا اور نہ عمران خان کو۔ وہ جب سیاسی حرکیات سے ناواقفیت کے ساتھ ان مسائل پر گفتگو کرتی ہیں تو خان صاحب کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں جیسے بھارتی میڈیا کو دیا گیا انٹرویو۔ انہیں کلثوم نواز صاحبہ کی مثال سامنے رکھنی چاہیے۔ جب مسلم لیگ نواز شریف صاحب کی مشکلات کم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی اور اس کی تمام قیادت‘ پی ٹی آئی کی طرح‘ چند مستثنیات کے سوا‘ نااہل اور کمزور ثابت ہوئی تو وہ میدان میں نکلیں۔ انہوں نے انتہائی باوقار انداز میں اپنی مہم چلائی اور خود کو سیاسی بحثوں سے الگ رکھا۔ خان صاحب کی بہنوں کے پاس بھی یہ راستہ تھا۔ اس طرح انہیں پارٹی کی حمایت حاصل رہتی‘ وہ متنازع نہ بنتیں اور اس کے سب دھڑے ان کے ساتھ ہوتے۔ اب ایسا نہیں ہے۔
اس کے ساتھ انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ان مشکلات میں عمران خان صاحب کے رویے کا کتنا ہاتھ ہے۔ وہ جب ان کو سمجھانے کے بجائے انہی کا لب ولہجہ اپناتی ہیں تو اپنی راستے کی مشکلات میں اضافہ کر لیتی ہیں۔ اگر وہ خان صاحب کی رہائی میں سنجیدہ ہیں تو انہیں پوری طرح غیر سیاسی ہو کر‘ محض انسانی حقوق کی بنیاد پر تمام سیاسی جماعتوں‘ سول سوسائٹی اور میڈیا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہیے۔ سیاست جانے اور پی ٹی آئی جانے۔ ان کے بیانات پارٹی راہنماؤں کو بھی مشکل میں ڈالتے ہیں۔ وہ ان کا دفاع کر سکتے ہیں نہ تائید۔ وہ یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ یہ بہن کے جذبات ہیں‘ پی ٹی آئی کا سیاسی مؤقف نہیں۔ اگر دونوں میں شعوری سطح پر فرق کر لیا جائے تو ایسے معذرت خواہانہ بیانات کی شاید ضرورت نہ رہے۔
میں جانتا ہوں خیر خواہی کے ساتھ لکھی گئی ان سطور کے جواب میں مجھے گالیاں ہی ملیں گی۔ میری آزمائش مگر یہی ہے کہ میں ان کو نظر انداز کر کے وہ بات لکھوں جو میرے نزدیک ان کے بھلے کی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved