دنیا کا اور اپنا مستقبل غیر مرئی قوتوں اور نادیدہ آسمانی مخلوق پر ڈالنے والے ہوا میں اڑتے پتوں سے زیادہ طاقت نہیں رکھتے۔ وہ اس لیے کہ اڑنے‘ گرنے اور کہاں جا کر وہ آسودۂ خاک ہوں گے‘ اس کا تعین ہوا ہی کرے گی۔ بے جان پتوں کے بس میں تو کچھ نہیں ہوتا۔ جنگل میں اکثر رہائش کے دوران ایسا ہی دیکھا ہے۔ پتا زرد ہو کر جب ہلکا ہو جاتا ہے تو تن آور درخت کی ٹہنی اُسے مزید سہارا دینے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ وہ دم توڑ کر زمین پر آ رہتا ہے۔ آج کل سردیوں کے اس خشک موسم میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں جب ماحول میں ایسی گھٹن ہو۔ قانون کی گرفت غریب کی گردن پر ہے۔ بے بسی سے دیکھ رہے ہیں کہ بار بار حکومتیں بننے‘ بگڑنے سے لے کر بڑے ایوانوں کی زینت بننے والوں کا اصل چنائو کہیں اور ہو تو ہمارے لے کیا رہ گیا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ درویش ان حالات کے جبر کے پیش نظر پند ونصائح کا دفتر کھول کر نوجوانون کو کسی سیاسی و غیر سیاسی راہ پر ڈالنے کے لیے قلم برداشتہ ہے تو ایسی بات نہیں۔ یہ گمان بعید ازحقیقت ہے۔ ایسے کام ہم نے دیگر احباب کے لیے چھوڑے ہوئے ہیں۔ ہم ایک عرصہ سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ نوجوانو ں میں عدم وابستگی بڑھ رہی ہے۔ اب آپ سوال نہ کرنا شروع کر دیں کہ یہ نظام سے‘ سیاست سے یا کسی اور چیز سے لاتعلقی ہے۔ فی الحال تو اتنا ہی کہنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ یہ رجحان بڑھ رہا ہے اور خطرے کے آخری نشان کے قریب ہے۔ فطرت اور سائنس کا اصول عالمگیر حیثیت رکھتا ہے کہ کسی سبب کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ ایک بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ دس پندرہ سال پہلے ایسی حالت نہ تھی۔ خطرے کی گھنٹی جہاں جہاں یہ لگی ہے اور اس کے اندر کے سیل دم نہیں توڑ گئے تو بڑے بڑے ایوانوں تک اس کے بجنے کی آواز جانی چاہیے تھی۔ لیکن طاقت کے نشے میں بھلا کسی کو کیا سجھائی دیتا ہے۔ پتا تو اس وقت چلتا ہے جب بھاگنے والے دل میں کئی دبی امیدیں لیے محفوظ ٹھکانوں کا رخ کر رہے ہوتے ہیں۔
ہماری مثال تاریخ کے دھارے کو دیکھنے والے تماشائیوں سے زیادہ نہیں۔ یہ بھی اس درویش نے دریائے سندھ کے کنارے آنکھ کھولنے سے لے کر آج تک‘ جب بھی اس کی زیارت کرنے اور اس کے کنارے وقت گزارنے کا موقع ملتا ہے‘ دیکھا ہے کہ پانی رواں دواں رہتا ہے اور کٹائو کے ساتھ بہنے والے خس وخاشاک بھی ڈوبتے تیرتے اس کی لہروں کے دوش پر نہ جانے کون سی منزلوں کی طرف بہتے‘ ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ وقت کی روانی بھی کچھ اس طرح ہے۔ ایک فلم جو کسی زمانے میں دیکھی ''فِڈلر آن دی رُوف‘‘ اس میں چھت پر سارنگی نواز کا سین دل پر نقش ہو چکا ہے کہ ہمارے دیہات کے گلی کوچوں میں جو کچھ ہوتا ہے‘ سارنگی نواز اپنی دھن بجانے میں مگن‘ اپنی طرز میں رہ کر اپنا وقت پورا کر لیتا ہے۔ ہم بھی شاید ایسا ہی کر رہے ہیں۔ سب کچھ دیکھ رہے ہیں مگر خاموش ہیں۔ سارنگی تو ہاتھ میں نہیں‘ تاریخ اور کچھ دیگر علوم کی چند کتابیں ہیں جنہیں پڑھ کر جگر پاش پاش تو اب ہونے سے رہا‘ کہ اس میں اتنی سکت بھی نہیں مگر اپنی بے بسی اور معاشرے کی بے حسی پر رونا آتا ہے۔ اب چونکہ رونے کی عادت نہیں اور نہ ہی کبھی جی چاہا ہے‘ سوائے مظلوموں کی حالتِ زار دیکھ کر‘ اس لیے آپ بھی اس لفاظی کو محاورے سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔
حالات بہت بدل گئے ہیں۔ یہ صرف کہنے اور لکھنے کی حد تک نہیں! قابلِ غور اور قابلِ تشویش بات خاص طور پر نوجوانوں کی بیگانگی ہے۔ کسی جامعہ میں کسی سے ملنے کی غرض سے تیز تیز قدم اٹھاتے‘ اپنے خیالوں میں گم‘ منزل تک پہنچنے کی کوشش میں تھا کہ اچانک کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر زوردار آواز کانوں سے ٹکرائی۔ مڑ کر دیکھا تو ایک نوجوان‘ جس کی شباہت پر ابھی بلوغت کے آثار نمودار ہو رہے تھے‘ کہہ رہا تھا کہ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ سوال بہت مختصر تھا کہ وہ‘ جن کا اب نام لینا روا نہیں‘ کیا وہ کبھی ایوان میں آ سکیں گے؟ اس ایوان میں جہاں دیگر کا آنا جانا ایسا ہی ہے جیسا آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ لگتا تھا کہ بہت دور سے دوڑ کر آیا ہے۔ ہم کسی سے مایوسی کی بات نہیں کرتے اور نہ ہی کرنی چاہیے۔ لوگوں کی امیدوں کے ساتھ اپنی امیدیں بھی ہری بھری ہو جاتی ہیں۔ آپ سے اس کی خوشی کا وہ لمحہ بیان کرنے کے لیے میرے اس کمزور قلم میں ہمت نہیں۔ ابھی جو آبادی کے بارے میں تازہ رپورٹیں تیار ہو رہی ہیں اور کچھ منظرِ عام پر بھی آئی ہیں‘ وہ اس بار بھی تائید کر رہی ہیں کہ نوجوان ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں۔ آپ ذرا خود سوچیں! اگر اتنا بڑا حصہ ہماری سیاست اور نظام‘ جو عرفِ عام میں تو بندوبستی کہا جاتا ہے مگر شجر سے پیوستہ رہ کر جو بے موسمی بہاروں کے مزے لوٹتے ہیں‘ وہ اسے پاک وصاف‘ شفاف اور بااصول اور کھری جمہوریت کہتے ہیں‘ آپ اسے جو بھی نام دے لیں‘ اگر نوجوان اس سے نہیں جڑتے تو اس میں ان کی کوئی شراکت دار ی نہیں ہو گی۔ آپ جتنے بھی مفت میں کھلونے ان کی جھولی میں ڈال دیں‘ ان کے دل اور دماغ شاید آپ کبھی جیت نہ پائیں۔ کچھ ہی دن تو ہوئے ہیں کہ پنجاب میں ایک بہت بڑا انتخابی معرکہ ہوا اور جب نتائج آئے تو وزیراعلیٰ نے گونج دار آواز میں کہاکہ ہم نے گھر میں گھس کر مارا ہے۔ باقی باتیں تو بعد میں‘ ان کی تقریر لکھنے والوں سے اتنی گزارش ہے کہ بیان بازی میں کچھ تو نیا پن تخلیق کریں کہ یہ زبان تو مشرقی سرحد کے پار‘ ہمارا دشمن ہمارے لیے استعمال کرتا ہے۔ جیتنے کی مبارک باد ہم کب کی دے چکے مگر ایک بات واضح ہے کہ جہاں پرچیاں پڑتی تھیں‘ وہاں سارا دن الو بولتے رہے اور پولنگ کا عملہ سارا دن انتہائی بوریت کے عالم میں الوئوں کی آوازیں سنتا‘ میٹھی دودھ پتی پر گزارہ کرتا رہا۔ کچھ رائے دہندگان آئے بھی ضرور لیکن ان کی تعداد کشمیری چائے کی بڑی کیتلی میں نمک کے دانوں سے زیادہ نہ تھی۔
اگر کسی کو احساسِ زیاں ہو تو بتا سکیں کہ کسی معاشرے میں عام لوگ اور نوجوان نظام مملکت سے اگر برگشتہ ہو جائیں تو نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں ۔ رسہ گیر اپنے قدموں کے نشانات مٹانے میں مہارت رکھتے ہیں لیکن کھوجی پھر بھی ان کے گھروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ اگر بندوبستی ہے تو پورا انتظام کر لیا گیا ہوگا کہ نظام محفوظ رہے۔ اور اس کے اندر باہر‘ اردگرد اتنا مضبوط اور توانا حصار ضرور ہو کہ وہ کسی خطرے کو خاطر میں نہ لائے۔ ہم دعا ہی کر سکتے ہیں۔ ہمارا کردار بلند دیوار پر بیٹھے سارنگی نوازکا سا ہو تو اس سے زیادہ اور کیا کر سکتے ہیں۔ دیگر ممالک کی مثالیں اپنی جگہ پر‘ جہاں معاشرے کی راکھ سے نوجوانوں نے احتجاج کی چنگاریاں دہکائیں‘ لیکن ہمارے حکمرانوں کے خیر خواہ کہتے ہیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہم اپنی ترکیب میں بہت مختلف ہیں۔ یہاں کے لوگ آسودہ حال ہیں‘ ترقی ہو نہیں رہی‘ ہو چکی ہے۔ روٹی سستی ہے‘ دن رات تنوروں پر رش رہتا ہے۔ لوگ سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر کسی شر پسند نے امن وامان کی صورت حال کو بگاڑنے کی کوشش کی تواس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ یہ دھمکی میرے کانوں میں اس وقت بھی پڑی تھی جب ہم ایوب خان کے خلاف پہلے جلوس میں نکلے تھے۔ لیکن پھر ''شر پسندوں‘‘ کی تعداد اتنی بڑھ گئی اور وہ ہر شہر کی گلیوں سے نکل آنے لگے کہ مزید دھمکانا ممکن نہ رہا۔ اونچے ٹیلے پر بیٹھا یہ سارنگی نواز بہت کچھ دیکھ چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved