تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     01-12-2025

شوگر ملز‘ بیروزگاری اور برآمدات

گورنر سٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ ملک کا موجودہ معاشی نمو کا ماڈل 25 کروڑ آبادی کے لیے پائیدار نہیں ہے‘ پاکستان کو فوری طور پر قلیل مدت کے استحکام کی پالیسیوں سے نکل کر دیرپا‘ پائیدار اور بیرونی دنیا کو متاثر کرنے والے ترقیاتی ماڈل کی جانب بڑھنا ہو گا۔ وزیر خزانہ کا بیان ہے کہ اب عارضی گروتھ بڑھا کر ملک چلانے کی حکمت عملی پرانی ہو چکی‘ اس کا معیشت کو نقصان ہوا ہے۔ اس لیے ترقی کی منازل آہستہ آہستہ طے کی جائیں گی تاکہ مضبوط نظام کی بنیاد رکھی جا سکے۔ یہ بیانات سننے کی حد تک بہت اچھے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے عملی میدان میں کارکردگی کب دکھائی جائے گی؟
دنیا کو متاثر کرنے والے ترقیاتی ماڈل میں برآمدات بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ جب کم قیمت اور اعلیٰ معیار کی اشیا تیار کی جائیں گی تو دنیا ضرور پاکستان کی مصنوعات میں دلچسپی لے گی۔ مہنگی بجلی نے پاکستان کو ہمسایہ ممالک کی نسبت برآمدات کی دوڑ میں کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دوسرا اہم پہلو بڑھتی ہوئی درآمدات ہیں۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ 12 ارب 58 کروڑ ڈالرز سے بڑھ چکا ہے۔ صرف چار ماہ میں اس میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک سے تجارتی سر پلس تجارتی خسارے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ مالی سال 2025ء میں پانچ وسط ایشیائی ممالک سے درآمدات تقریباً 411 فیصد بڑھی ہیں۔ چین کے ساتھ پاکستان کی تجارت پہلے ہی خسارے کا شکار ہے لیکن گزشتہ ایک سال میں یہ تجارتی خسارہ مزید بڑھ گیا ہے۔ درآمدات 13 ارب ڈالر سے بڑھ کر تقریباً 16 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور برآمدات دو ارب 70 کروڑ ڈالر سے کم ہو کر دو کروڑ 47 لاکھ ڈالر رہ گئی ہیں۔ جب تیار شدہ اشیا چین اور وسطی ایشیائی ممالک سے سستے داموں درآمد کرنے کی اجازت دی جائے اور ملک میں بجلی اور توانائی کے دیگر ذرائع مہنگے کر دیے جائیں اور اس کے بعد حکومتی عہدیدار ملک میں معاشی استحکام لانے اور برآمدات بڑھانے کے لیے پُرامید ہوں تو ان دعوؤں اور نعروں پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے۔ حکومتی دعوے اور اعلانات عملی میدان میں رائج پالیسیوں سے مطابقت رکھیں تو ہی ان پر یقین کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت پہلے ہی برآمدات میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہو رہا ہے اور بیرونی سرمایہ کاری بھی مسلسل کم ہو رہی ہے ۔
آئی ایم ایف نے حالیہ رپورٹ میں 5300 ارب روپے کی کرپشن اور شوگر ملوں کے گٹھ جوڑ کا جو ذکر کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا تسلسل شاید اب بھی جاری ہے۔ پاکستان کی دس بڑی شوگر ملوں نے ایک مرتبہ پھر گٹھ جوڑ کر کے گنے کی خریداری میں تاخیر کی ہے اور گنے کی خریداری کی قیمت بھی اپنی مرضی سے فکس کی ہے جو کمپٹیشن ایکٹ 2010ء کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی ہے۔ پنجاب شوگر کین کمشنر کی طرف سے کٹائی کی تاریخ 15نومبر مقرر کی گئی تھی جبکہ دس بڑی شوگر ملوں نے ایک خفیہ میٹنگ کر کے تاریخ 15 کے بجائے 28 نومبر طے کر لی اور اوپن مارکیٹ اصولوں کے تحت خریداری کرنے کے بجائے 40 کلوگرام کا ریٹ 400 روپے مقرر کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں صورتوں میں فائدہ مل مالکان کو پہنچنے کے امکانات ہیں اور کسان ایک مرتبہ پھر رُلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اصول کے مطابق گنے کی قیمت مارکیٹ کی طلب اور رسد کے مطابق انفرادی مذاکرات کے تحت طے کی جا سکتی ہے لیکن شوگر ملوں نے گٹھ جوڑ کر کے ریٹ خود ہی طے کر لیا۔ مسابقتی کمیشن نے دس شوگر ملوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے ہیں اور معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ مسابقتی کمیشن ماضی میں بھی اس طرح کی کارروائیاں کرتا رہا ہے لیکن ملک کے شوگر مافیا کی جڑیں ایوان کے اندر تک موجود ہیں۔ اس بار بھی تھوڑا بہت جرمانہ کرکے معاملہ فائلوں کی نذر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر جرم ثابت ہو جائے تو تاخیر سے کٹائی اور قیمت کے تعین سے کسانوں کو جس قدر نقصان ہوا‘ اتنی ہی رقم بطور جرمانہ مل مالکان سے وصول کر کے کسانوں کو دی جائے‘ تا کہ کسانوں کو ریلیف مل سکے اور پاکستان میں کرپشن کی شرح میں بھی کمی آ سکے۔ پاکستان میں شوگر سکینڈل کوئی نئی بات نہیں ہے‘ یہ ایک مسلسل کہانی ہے‘ جو ہر حکومت کے دور میں نئے ناموں‘ نئے چہروں اور نئی تفصیلات کے ساتھ سامنے آتی رہی ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا جا سکا تو ملک میں شوگر کے علاوہ دیگر مافیاز بھی مضبوط ہو سکتے ہیں۔
اس وقت اگرچہ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر ایکسپورٹ کی وجہ سے نہیں بڑھے بلکہ قرض اور ترسیلاتِ زر میں اضافے کی وجہ سے بڑھے ہیں۔ آئی ایم ایف ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 8 دسمبر کو شیڈول ہے‘ اگر قسط کی منظوری مل جاتی ہے تو زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ پچھلے ایک سال میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریباً تین ارب 47 کروڑ 65 لاکھ ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے چار ماہ میں ترسیلاتِ زر میں تقریباً نو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اعداد وشمار کے اعتبار سے یہ خبر مثبت ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ ترسیلاتِ زر میں اضافہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں ملک سے باہر جا رہے ہیں اور ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری کا مسئلہ شدید ہو چکا ہے۔ مہنگائی چھ فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے اور اگلے ماہ سات فیصد تک جا سکتی ہے۔ بیروزگاری کی شرح بھی بڑھ کر 7.1 فیصد ہو چکی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں تقریباً 29 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر گئے ہیں۔ ترسیلاتِ زر میں اضافہ ایک مثبت معاشی اشاریہ مگر یہ ملکی معاشی ترقی کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ برین ڈرین سے ہمیں قلیل مدت میں تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن لانگ ٹرم میں اس کا نقصان زیادہ ہو گا اور ملک کئی دہائیاں پیچھے جا سکتا ہے۔
ان حالات میں ایک اچھی خبر بھی ہے۔ پاکستان کی فرنس آئل کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ مالی سال میں اب تک تقریباً 14 لاکھ ٹن فرنس آئل برآمد کیا جا چکا ہے‘جو گزشتہ سال (2024ء) کی نسبت تقریباً 16 فیصد زیادہ ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ملک میں بجلی کی پیداوار کے لیے فرنس آئل کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہے اور اس کے استعمال اور مقامی فروخت پر ٹیکسز بڑھا دیے گئے ہیں۔ ملک میں سولر انرجی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی ایک بڑی وجہ ہو سکتا ہے۔ گو کہ سرکار صارفین کی جانب سے سولر انرجی سے پیدا ہونے والی بجلی کی خریداری میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے لیکن سولر کی امپورٹ پر ابھی زیادہ سختیاں نہیں ہیں۔ سولر کے استعمال کا صحیح معنوں میں فائدہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب امپورٹ کے بجائے اس کی مقامی سطح پر پیداوار بڑھائی جائے۔ مالی سال کے پہلے چار ماہ میں سولر سے حاصل ہونے والی بجلی کا تناسب مجموعی پیداوار کا تقریباً 25 فیصد رہا ہے۔ وزراتِ توانائی کے مطابق 2026ء تک مجموعی پیداوار میں سولر کا حصہ تقریباً آٹھ ہزار میگا واٹ سے تجاوز کر سکتا ہے۔ اس وقت کئی حکومتی منصوبے بھی کوئلے اور سولر پر انحصار بڑھا رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے فرنس آئل کا مقامی سطح پر استعمال کم ہوا ہے۔ پاکستان شپنگ کمپنیوں کو فرنس آئل بیچ رہا ہے کیونکہ اس کا بڑا استعمال بحری جہازوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کی ریفائنریز اس وقت ہائی سلفر فرنس آئل بنا رہی ہیں‘ اگر کم سلفر والا آئل تیار کر لیا جائے تو یہ ریفائنریز کو بھی بیچا جا سکتا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بڑی ریفائنریز اس پر کام کر رہی ہیں اور اگلے سال کم سلفر والا فرنس آئل بھی فروخت کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے‘ جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی توقع ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved