تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     01-12-2025

کاروبار کے شرعی اصول

چند روز قبل میرے ایک عزیز نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنا آفس وزٹ کرنے کی دعوت دی۔ دفتر کے دورے کے دوران کچھ احباب نے تقاضا کیا کہ شرعی اعتبار سے کاروبار کے اصول و ضوابط کے حوالے سے کچھ گفتگو کی جائے۔ اس موقع پر میں نے جو گزارشات سامعین کے سامنے رکھیں‘ انہیں کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام نے جہاں عقائد اور عبادات کے حوالے سے انسانوں کی کامل رہنمائی کی ہے وہیں معاملاتِ زندگی کے حوالے سے بھی اس کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک ایسی قوم کا ذکر کیا جو کاروباری دھوکہ دہی اور بدعنوانیوں کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے غیظ وغضب کا نشانہ بنی۔ حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور اس کی بندگی کے ساتھ ساتھ کاروباری معاملات کی اصلاح کی بھی دعوت دیتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی ''قومِ مدین‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی دعوت‘ نصیحت اور قوم کی بدبختی کو نہایت واضح انداز میں بیان فرمایا ہے۔ اس سلسلے کا ایک اہم حصہ سورۂ ہود کی آیات 84 تا 86 ہیں‘ جن میں یوں مذکور ہے ''اور ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو‘ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم ناپ تول میں بھی کمی نہ کرو‘ میں تو تمہیں آسودہ حال دیکھ رہا ہوں اور مجھے تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف (بھی) ہے۔ اے میری قوم! ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو‘ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اور خرابی نہ مچائو۔ اللہ کی (دی ہوئی) بچت تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو‘ اور میں تم پر نگہبان نہیں ہوں‘‘۔
قومِ مدین نے حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوت کا سخت انکار کیا۔ انہوں نے حق بات کو سمجھنے سے انکار کیا، طعن وتمسخر سے کام لیا‘ اپنے باپ دادا کے باطل طریقوں پر اصرار کیا اور تجارت وکاروبار میں دھوکے اور ناپ تول میں کمی کو اپنا حق سمجھا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش کی‘ سابقہ امتوں کے انجام سے انہیں خبردار کیا اور توبہ واستغفار کی دعوت دی لیکن وہ قوم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور شعیب علیہ السلام کی کمزوری کا مذاق اُڑاتی رہی۔ ان کے اس مسلسل انکار اور سرکشی کا انجام سورۂ ہود ہی کی آیات: 94 تا 95 میں کچھ یوں بیان ہوا ''جب ہمارا حکم (عذاب) آ پہنچا ہم نے شعیب کو اور ان کے ساتھ (تمام) مومنوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات بخشی اور ظالموں کو سخت چنگھاڑ کے عذاب نے دھر دبوچا جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے ہو گئے۔ گویا کہ وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ آگاہ رہو مدین کے لیے بھی ویسی ہی دوری (پھٹکار) ہو جیسی دوری ثمود کو ہوئی‘‘۔ اس واقعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کاروباری بدعنوانی‘ کرپشن اور فراڈ کو شدید ناپسند کرتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر رزق حلال کمانے کی تلقین کی ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت: 168 میں ارشاد ہوا ''لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھائو‘ پیو اور شیطانی راہ پر نہ چلو‘ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ البقرہ ہی کی آیت: 172 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھائو‘ پیو اور اللہ کا شکر کرو‘ اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ رزق حلال کی اہمیت کو کس قدر اجاگر کرتے ہیں۔
زندگی کے تمام شعبوں اور دیگر معاملات میں کاروبار کے حوالے سے جو اہم اصول کتاب وسنت میں بیان کیے گئے ہیں‘ وہ یہ ہیں:
1۔ سچائی: ہر کاروبار کی بنیاد سچائی پر ہونی چاہیے۔ جھوٹ اور دھوکے بازی کی اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ کسی بھی چیز کے معیار اور اس کی میعاد کے حوالے سے حقیقت پسندانہ مؤقف اپنانا ہی ایک تاجر کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اپنے وعدوں کا پاس کرنا بھی تاجر کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ کئی لوگ جانتے بوجھتے ہوئے وعدہ خلافی کرتے ہیں حالانکہ وہ عہد کرتے ہوئے اس بات کو جانتے ہیں کہ کاروباری لین دین کے دوران کیے گئے اپنے وعدے کو پورا نہیں کر سکیں گے‘ اس کے باوجود وہ جھوٹ پر مبنی وعدے کر کے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں‘ جس کی وجہ سے لوگوں کے سرمایے اور وقت کا نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو ذہنی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ تاجر کو ہر لحاظ سے سچائی پر کاربند رہنا چاہیے اور ہمیشہ وہ عہد کرنا چاہیے جسے وہ من و عن پورا کر سکے۔
2۔ ناپ تول میں عدل: جس وقت ناپ تول کا وقت آئے‘ تاجر کو پورا ماپنا اور پورا تولنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے واقعے میں بھی پورا ماپنے اور پورا تولنے کی تلقین کی ہے۔ قوم مدین کے لوگ اس تلقین کو حماقت سے تعبیر کرتے اور گھاٹے کا سبب قرار دیتے تھے جبکہ حقیقت میں گھاٹا مستقل عذاب کی صورت میں ان کا اپنا مقدر بن گیا۔
3۔ ملاوٹ: کئی لوگ ملاوٹ کو معمولی عیب سمجھتے ہیں جبکہ اس کے بارے میں احادیث میں واضح تنبیہ ہے اور لوگوں کو اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ انہیں ملاوٹ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اعلیٰ درجے کی جنس کو کمتر جنس سے ملا کر اس کے بہتر ہونے کا تاثر دینا‘ دودھ میں پانی ملانا یا نمک کی اعلیٰ اور ادنیٰ کوالٹی کو ملا کر بیچنا‘ یہ تمام چیزیں کاروباری دیانت کے خلاف اور ملاوٹ کے زمرے میں آتی ہیں۔
4۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا حق ادا کرنا : کاروبار میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا حق ادا کرنا بھی تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا عام کاروبار میں حق زکوٰۃ جبکہ زرعی پیداوار میں عُشر ہے۔ بہت سے لوگ ان فرائض کی ادائیگی کو معمولی سمجھتے اور اس مسئلے میں غفلت‘ کوتاہی اور بے ضابطگی سے کام لیتے ہیں۔ اکثر یہ چیزیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کا سبب بن جاتی ہیں اور انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور برکت ورحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔
5۔ حرام اجناس کی تجارت سے گریز: حرام اجناس اور حرام اشیا کی تجارت سے گریز کرنا انتہائی ضروری ہے۔ مغربی ممالک میں کئی لوگ اپنے سٹور پر جہاں دیگر حلال اشیا بیچتے ہیں‘ وہیں شراب کو بھی ایک تجارتی جنس سمجھتے ہوئے بیچنا شروع کر دیتے ہیں اور اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اسلام میں حرام اشیا اور حرام اجناس کی تجارت کلی طور پر منع ہے۔ حرام اشیا کی تجارت کے نتیجے میں انسان کی اس کاروباری مرکز سے حاصل ہونے والی باقی ماندہ آمدن بھی حرام تجارت کا حصہ بن جاتی ہے۔
6۔ رشوت ستانی اور سود کی ممانعت :رشوت اور سود دو ایسی لعنتیں ہیں جو آج کے ہمارے معاشرے میں کاروباری معاملات کا حصہ بن چکی ہیں۔ حدیث پاک کے مطابق رشوت لینے اور دینے والا‘ دونوں جہنمی ہیں۔ اسی طرح سود کا لین دین کرنا اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ ان معاملات سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے۔ جب انسان ناجائز معاملات سے اجتناب کرتا ہے اور شرعی اصولوں پر کاربند رہتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کا فضل‘ اس کی رحمت اور برکت انسان کے شامل حال ہو جاتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنے معاشی معاملات میں شرعی اصولوں پر چلنے کی توفیق دے اور مشتبہ اور ناجائز معاملات سے ہم سب کو محفوظ رکھے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved