کوئی دو اڑھائی ہفتے قبل مجھے جی سی یونیورسٹی لاہور کی عریبک سوسائٹی کے مشیر ڈاکٹر خورشید احمد قادری نے اپنی سوسائٹی کے پروگرام میں آنے کی دعوت دی۔ اس سے اگلے روز عریبک سوسائٹی کی صدر نے فون پر پروگرام کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے ''امریکہ میں اسلام کی ترویج و اشاعت کے مختلف ادوار‘‘ کے بارے میں اپنے خیالات و مشاہدات پیش کرنا ہوں گے۔ عریبک سوسائٹی کی صدر نے ساتھ ہی مجھے یہ حیران کن خبر بھی سنائی کہ مجھے جی سی یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں آنا ہو گا۔ یہاں دو سال قبل کئی شعبے منتقل ہو چکے ہیں جن میں عریبک و اسلامیات بھی شامل ہیں۔ جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عمر چودھری نیو کیمپس کی تیزی سے آباد کاری اور یہاں سہولتوں کی فراوانی کیلئے بہت کوشاں ہیں۔ گوجرانوالہ جی ٹی روڈ پر اس نیو کیمپس کا مین کیمپس سے فاصلہ تقریباً 20کلو میٹر ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کیلئے مین کیمپس سے بسیں چلتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہم عریبک سوسائٹی کی طرف سے ارسال کردہ لوکیشن کی رہنمائی میں وقتِ مقررہ پر اپنی منزلِ مقصود پر جا پہنچے۔ جی سی یونیورسٹی نیو کیمپس کے راستے میں واقع جنگلوں کو دیکھ کر قدرے تعجب ضرور ہوا کہ یہ نیو کیمپس کہاں واقع ہے مگر جب کیمپس کے اندر داخل ہوئے تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ تو جنگل میں منگل بنا ہوا ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہور 1864ء میں قائم ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی تاریخی عظیم الشان عمارت اپنے جاذبِ نظر کلاک ٹاور کے ساتھ لاہور کے قلب میں تعمیر ہو گئی۔ مرشد اقبالؒ نے فرمایا تھا: کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا۔ تاہم سنگ و خشت کی اس تاریخی عمارت میں دیدہ ور لوگوں نے جہاں اپنا فیض عام کیا وہاں بڑے بڑے نامور لوگوں نے اکتسابِ فیض بھی کیا تھا۔ علامہ اقبالؒ بھی پہلے یہاں طالب علم اور پھر بحیثیت استاد علم و فضل کے موتی لٹاتے رہے۔ عریبک سوسائٹی گورنمنٹ کالج کی قدیم ترین سوسائٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر G.W Leitner شعبۂ عربی کے پروفیسر اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل تھے۔ انہوں نے اس سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ بعد کے ادوار میں اس شعبے میں پروفیسر ڈاکٹر صوفی ضیا الحق‘ ڈاکٹر ایس ایم زمان‘ ڈاکٹر خان محمد چاولہ اور پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی جیسی بڑی بڑی نابغۂ روزگار ہستیاں اپنا نورِ بصیرت و بصارت عام کرتی رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے اس پروگرام کی صدارت شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد فاروق حیدر نے کی۔ عریبک سوسائٹی کی صدر اور سیکرٹری جنرل نے اپنی ٹیم کے ساتھ پروگرام کو حسن و خوبی کے ساتھ ترتیب دیا تھا۔ میں نے امریکہ میں مسلمانوں کے مختلف ادوار کی وسیع تر معلومات کے دریا کو کوزے میں بند کر کے بیان کرنے کی کوشش کی اور طلبہ و طالبات کو بتایا کہ اگرچہ مشہور تو یہ ہے کہ کرسٹوفر کولمبس نے 1492ء میں امریکہ کو دریافت کیا تھا مگر اس سے دو تین صدیاں پہلے یہاں پر مسلمانوں کے چھوٹے بڑے وفود دعوت و تبلیغ اور تجارت کیلئے آ چکے تھے۔ کولمبس نے خود اعتراف کیا کہ وہاں اسے ایسے امریکی باشندے ملے کہ جن کی زبان میں عربی کے بکثرت الفاظ اور جملے شامل تھے۔ اس دور میں 1492ء سے 1600ء تک کا زمانہ شامل کیا جاتا ہے۔ دوسرا دور 1600ء سے 1800ء تک کا ہے۔ اس دور میں مغربی افریقہ سے زنجیریں پہنا کر ڈیڑھ کروڑ غلاموں کو حیوانوں کی طرح امریکہ لایا گیا۔ ان غلاموں میں 20سے 30فیصد مسلمان تھے جن میں سکالرز‘ امام اور تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل تھے۔ انہوں نے جان لیوا صورتحال کے باوجود نماز روزہ جیسی عبادات کو زندہ جاوید رکھا۔ مسلمانوں کا تیسرا دور وہ تھا جب 1863ء میں ابراہام لنکن نے بطور صدر امریکہ میں غلامی پر پابندی لگا دی۔ اگرچہ ان غلاموں کو برابری کے حقوق حاصل کرنے میں مزید ایک صدی سے زائد عرصہ لگ گیا۔ 1863ء سے 1970تک کے دور میں یہاں بہت سی مساجد تعمیر کی گئیں۔ 1920ء سے 2000ء تک کے دور میں عالیجاہ محمد اور محمد علی کلے جیسے لوگوں نے اسلام کی ترویج اور نشر و اشاعت کو بہت آگے بڑھایا۔ میں نے طلبہ کو بتایا کہ میں کئی بار امریکہ کے مشہور شہر لوئی ویل گیا ہوں مگر اس بار میں نے اپنے میزبان کو بتا رکھا تھا کہ میں بطورِ خاص محمد علی کلے کے مزار پر جاؤں گا۔ جب میں اپنی بیگم کے ہمراہ لوئی ویل کے ایئر پورٹ پر اترا تو اس کی پیشانی پر ''علی ایئر پورٹ‘‘ لکھا دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ اگلے روز جب ہم اس عظیم مسلمان باکسر کے مزار پر گئے تو یہ دیکھ کر دل اور بھی شاد ہوا کہ مسلم و غیرمسلم محمد علی کلے کے مزار پر آتے ہیں‘ مسلمان وہاں فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور امریکی و یورپی سیلوٹ کر کے اظہارِ عقیدت کرتے ہیں۔
1920ء سے 2000ء کے عرصے کو فروغِ اسلام کا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ سے بہت سے لوگ امریکہ آئے۔ اسی دور میں بہت سے پاکستانی بھی امریکہ گئے۔ اسی دور میں مسلمانوں کی بہت سی تنظیمیں امریکہ میں وجود میں آئیں جن میں ایم ایس اے‘ اکنا‘ اسنا اور کیئر وغیرہ شامل ہیں۔ مسلم سٹوڈنٹس آف امریکہ تو مسلمان طلبہ کی تنظیم ہے جبکہ باقی تنظیمیں عام مسلمانوں کیلئے ہیں جو مذہب سے ماورا ہو کر خدمتِ خلق کے کام بھی کرتی ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کیلئے ایک آزمائش کا دور اچانک آ گیا جو 2001ء سے 2015ء تک شدت سے جاری رہا۔ 11ستمبر 2001ء کو نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ ٹاورز سے جہازوں کو ٹکرانے کے واقعات رونما ہوئے جن میں بڑا جانی و مالی نقصان ہوا۔ القاعدہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ ان واقعات کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کے بارے میں اندازِ فکر یکسر بدل گیا۔ انہی واقعات کے فوراً بعد امریکہ نے وار آن ٹیرر شروع کر دی۔ اسلامو فوبیا کی بہت بڑی لہر امریکہ اور یورپ میں چلنا شروع ہو گئی۔ یہ لہر تقریباً دو دہائیوں تک جاری رہی۔ اسی دوران امریکہ کو احساس ہو گیا کہ دہشت گرد کا کسی دین و مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسلام تو کسی ایک انسان کے ناحق قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔بہرحال دو ہائیوں کے دوران امریکہ میں آباد مسلمانوں نے اپنی شناخت سے از سر نو شعوری طور پر اپنا رشتہ جوڑا اور قرآن و حدیث اور سیرت کا براہِ راست مطالعہ کیا۔ سیرت رسولﷺ کے اس پہلو کو کہ اللہ کے رسولﷺ تو سارے عالمِ انسانیت کیلئے رحمت للعالمین بنا کر بھیجے گئے تھے‘ بطورِ خاص اجاگر کیا گیا۔ ان دو دہائیوں میں امریکہ کے عام شہریوں میں سے بہت سے لوگوں نے اسلامی تعلیمات کا براہِ راست مطالعہ کیا تو تب انہیں معلوم ہوا کہ اسلام تو امن و سلامتی کا دین ہے۔ ان برسوں میں بہت سے امریکی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ میں آباد تقریباً 50لاکھ مسلمانوں نے 2700 مساجد اور اُن کے ساتھ ملحقہ اسلامک کمیونٹی سنٹرز قائم کیے ہیں جہاں دینی تعلیم و تدریس کے علاوہ فلاحی کام بھی انجام دیے جاتے ہیں۔ فضا کی اسی تبدیلی کے باعث 34سالہ مسلمان ظہران ممدانی امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیو یارک کے میئر منتخب ہو گئے ہیں۔
عریبک سوسائٹی جی سی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے نہایت انہماک سے میری ایک گھنٹہ طویل گفتگو سنی۔ اقبال کے الفاظ میں خاکسار نے طلبہ و طالبات کو بشارت دی کہ یہ مٹی بڑی زرخیز ہے اور نئی نسل سے ہماری اعلیٰ توقعات وابستہ ہیں۔ شعبۂ عربی اور علوم اسلامیہ کے سربراہ‘ شاذلی سنٹر کے ڈائریکٹر اور جی سی یونیورسٹی شعبۂ تاریخ کے ایک ذیلی ڈپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر صاحبہ کا شکوہ مجھ پر واجب ہے۔جی سی یو کے تاحد نگاہ وسیع و عریض جنگل میں منگل نیو کیمپس کے شعبۂ عربی و اسلامیات کی علمی و تحقیقی فضا نے مجھے بہت متاثر کیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved