تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     02-12-2025

حضرت عُروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ!… (4)

حضرت عُروہؓ کی شہادت کے افسوسناک واقعہ کے بعد بنو ثقیف کے لوگوں میں فکر پیدا ہو گئی تھی کہ اب ان پر کوئی نہ کوئی آسمانی یا زمینی آفت ضرور آئے گی۔ سبھی بڑے چھوٹے خود کو خطرے میں محسوس کررہے تھے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد سب لوگوں نے آپس میں مشاورت کی جس میں قبیلے کے سبھی سرداروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تمام سردارانِ قبیلہ کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ کفر اور بت پرستی ترک کر دی جائے۔ چنانچہ اس کی روشنی میں فیصلہ ہوا کہ مدینہ منورہ جا کر اسلام قبول کر لیا جائے۔ چند دنوں کے بعد وفد بنو ثقیف آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شروع میں انہوں نے کچھ شرائط پیش کیں جن میں سفر کے دوران بدکاری کی اجازت اور شراب کی حرمت سے استثنا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اسلام میں حرام کی ہوئی کوئی چیز کسی صورت حلال نہیں کی جا سکتی۔ اسلام میں مشروط داخلے کی بھی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ آخر انہوں نے تمام احکام بلا چوں چرا تسلیم کر لیے اور سب لوگ داخلِ اسلام ہو گئے۔
آنحضورﷺ نے اس قبیلے کے بت لات کو توڑنے کے لیے حضرت ابو سفیانؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو مدینہ سے طائف روانہ کیا۔ پھر یہ بت توڑا گیا۔ جو مسلمان نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ خوفزدہ تھے کہ بت کو توڑنے کے نتیجے میں نامعلوم کیا مصیبت آ پڑے گی۔ مگر کیا مصیبت پڑنی تھی‘ اب تو اللہ کی رحمتیں ہر اس قوم قبیلے پر نازل ہونے لگیں جہاں سے بت پرستی کا خاتمہ ہوا اور بتوں کو معدوم کر دیا گیا۔ بت شکنی کے اس واقعہ کا تذکرہ ہم نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ''رسولِ رحمت ‘‘ جلد چہارم میں کیا ہے۔ یہاں بھی اس کی مختصر روداد آگے آرہی ہے۔
حضرت عُروہؓ کے بیٹے ابوملیح بن عُروہؓ اور آپ کے بھتیجے قارب بن اسود بن مسعودؓبہت بہادر نوجوان تھے اور دونوں آپس میں بچپن سے گہرے دوست بھی تھے۔ جب اسلام میں داخل ہوئے تو ان کا جی چاہتا تھا کہ اپنے باپ کے قاتل کو تہِ تیغ کر دیں مگر اپنے والد کی نصیحت اور اسلام کا یہ اصول کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کو قتل نہیں کر سکتا‘ ان کا ہاتھ روک دیتا تھا۔دونوں ہجرت کرکے مدینہ آگئے اور آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپﷺ نے ان دونوں سے بڑی محبت و شفقت کا سلوک فرمایا۔حضرت ابوملیح نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺمیرے والد شہید ہو گئے اور ان پر قرض ہے۔ میرے پاس وسائل نہیں کہ میوہ قرض ادا کر سکوں۔ اسی طرح سے حضرت قارب بن اسودؓ نے بھی عرض کیا یا رسول اللہ ﷺمیرے والد کا بھی یہی معاملہ ہے۔ قبیلے کے سردار ہونے اور بہت زیادہ مہمان نوازی کی وجہ سے دونوں بھائی مقروض تھے۔
دونوں صحابہ کی بات سن کر آپﷺ نے فرمایا کہ عُروہ ؓاپنی شہادت سے قبل مسلمان ہو گئے تھے لہٰذا ان کا قرض تو ادا ہو سکتا ہے۔ مگر اسود بن مسعود تو حالت ِ کفر میں دنیا سے چلے گئے‘ان کا قرض کیسے ادا کریں۔ اس موقع پر صاحب فراست حضرت قاربؓ بن اسود نے عرض کیا ''یا رسول اللہﷺ میں تو مسلمان ہوں اور یہ قرض تو اب میرے ذمے ہے‘‘۔ اس پر آنحضورﷺ مسکرائے اور فرمایا اچھا اس کا بھی انتظام کر دیں گے۔ تاریخ میں منقول ہے جب حضرت ابو ملیح اور حضرت قارب مدینہ میں آئے تو آنحضورﷺ نے ان سے فرمایا کہ آپ مدینہ میں جس سے چاہیں اپنا دوستی کا تعلق قائم کرکے اس کے حلیف بن جائیں تو انہوں نے جواب میں کہا: ہم اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ دوستی کا فیصلہ کر چکے ہیں اور وہی ہمارے حلیف ہیں۔ یہ سن کر آنحضور ﷺ بہت خوش ہو گئے۔شروع میں یہ دونوں صحابی اپنے چچا زاد بھائی حضرت مغیرہ بن شعبہ کے گھر میں قیام پذیر رہے۔ بعد میں انہوں نے مدینہ میں اپنی رہائشیں بنا لیں مگر طائف اور مکہ کے آبائی گھر بھی ان کی ملکیت میں رہے۔ وہ دونوں صحابہ ان شہروں میں جاتے آتے اور قیام کرتے رہتے تھے۔
بنو ثقیف لات کے پجاری تھے۔ لات کا بت عربوں کے ہاں بہت بڑے مرتبے کا حامل سمجھا جاتا تھا۔ جب اسے گرانے کے لیے آنحضورﷺ نے حضرت عُروہ بن مسعودؓ شہید کے بھتیجے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ اور رئیس القریش حضرت ابو سفیانؓ بن حرب کی ڈیوٹی لگائی تو حضرت عُروہ بن مسعودؓ کے بیٹے ابو ملیح بن عُروہؓ اور بھتیجے قارب بن اسودؓ نے آنحضورﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمیں بھی اس کارِخیر میں شرکت کی اجازت دیجیے۔ آپﷺ نے انہیں بھی اس وفد میں شامل فرما دیا۔طائف پہنچ کر جب حضرت مغیرہ نے اعلان کیاکہ ہم لات کو منہدم کرنے کیلئے آئے ہیں تو بہت سے بوڑھے مرد اور خواتین بہت خوفزدہ ہوئے کہ لات کو منہدم کرنے کے نتیجے میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ حضرت مغیرہؓ نے بڑی حکمت کے ساتھ اس بت کو ضربیں لگا لگا کر تہس نہس کر دیا۔ اس میں سے سونے چاندی کی صورت میں جو مال برآمد ہوا اسی میں سے آنحضورﷺکے حکم کے مطابق حضرت عُروہ بن مسعودؓ اور ان کے بھائی اسود بن مسعودؓ کے قرضے ادا کیے گئے۔ باقی ماندہ رقم مدینہ میں لا کر بیت المال میں جمع کرا دی گئی۔
اسلام نے انسانیت کو عزت بھی دی ہے اور تحفظ بھی‘ باہمی محبت و اخوت بھی بخشی ہے اور احسان مندی کی صفت بھی لوگوں میں پیدا کی ہے۔ گویا ان کی دنیا بھی سنوار دی ہے اور آخرت میں بھی کامیابی کا سامان فراہم کر دیا ہے۔ آنحضورﷺ کی رحلت کے بعد ایک دن حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں ایک ثقفی مسلمان حاضر ہوا۔ اس نے بتایا کہ میرا نام اوس بن عوف ہے۔ میں نے آنحضورﷺ کی زندگی میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ قبولِ اسلام سے قبل مجھ سے ایک بڑا گناہ سرزد ہوا کہ میں نے اللہ کے عظیم بندے اور آنحضورﷺ کے محبوب صحابی عُروہ بن مسعودؓ کو شہید کیا تھا۔ میرے قبولِ اسلام کے بعد میرا وہ جرم تو اللہ نے معاف فرما دیا مگر مجھے ہر وقت یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ عُروہ بن مسعودؓ کا بیٹا ابوملیح اور بھتیجا قارب بن اسود کہیں مجھے قتل نہ کر دیں۔
اوس بن عوف کی بات سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان دونوں صحابہ کو بلایا اور پھر تینوں کو اپنے سامنے بٹھا کر نہایت مؤثر انداز میں تذکیر فرمائی کہ جاہلیت کے دور کی سب چیزیں اسلام نے ختم کر دی ہیں۔ اس دور میں کوئی غلطی اور جرم سرزد ہوا ہو تو اللہ نے اسے معاف فرما دیا ہے۔تم تینوں آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی کے دل میں بھی دوسرے کے بارے میں کوئی بغض اور عداوت نہ ہو۔ تینوں پر خلیفۂ رسول کی تذکیر کا بہت اثر ہوا اور وہ آپس میں گلے ملے اور باقی ماندہ زندگی باہمی محبت سے گزاری۔حضرت قارب اور ابو ملیح کے حالات ابن الاثیر الجزری نے اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ کی جلد دوم‘ حصہ ہفتم میں لکھے ہیں۔ (اردو ترجمہ صفحہ نمبر721-722)
حضرت عُروہ بن مسعود نے کئی شادیاں کی تھیں‘ آپ کی اولاد بھی کثیر تھی۔ اس کے باوجود ہمیں تاریخ میں ان کی اولاد کا تفصیلی تذکرہ نہیں مل سکا۔ بعض سیرت نگاروں نے چند نام لکھے ہیں جن کے مطابق آپ کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے نام ہماری نظر سے گزرے ہیں۔ بیٹی کا نام ام سعید بنت عُروہ ثقفیہ بیان ہوا ہے۔ جبکہ بیٹوں میں سے ایک بیٹے مسعود تھے جن کی نسبت سے آپ کو ابو مسعود کہا جاتا تھا۔ دوسرے بیٹے ابو ملیح تھے جن کا تذکرہ سیرت کی تمام مستند کتابوں میں کیا گیا ہے۔ ان تینوں کو آنحضورﷺکی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ (ختم شد)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved