ہماری سیاسی زندگی میں تماشے ہی لگے رہتے ہیں۔ تمام احتیاط کر لی گئی‘ قوانین میں ناقابلِ تصور تبدیلیاں کر دی گئیں‘ ایسے میں تو اعتماد بڑھنا چاہیے‘ چھوٹی موٹی چیزوں کا پریشر ذہن پر سوار نہیں رہنا چاہیے‘ لیکن یہاں صورتحال یہی ہے‘ ارتکازِ اختیار اتنا کہ ہماری تاریخ میں مثال نہیں ملتی‘ لیکن اعتماد یا فراخ دلی کے بجائے ایک عجیب سی گھبراہٹ نظر آتی ہے۔ جس کا مظہر اڈیالہ جیل کے مشہور قیدی سے ملاقاتوں پر پابندی ہے۔ یہ بات سمجھ آنے والی نہیں‘ تین ہفتے یا اس سے کچھ زائد عرصہ سے جو ملاقات پر پابندی رہی اس کا مقصد کیا تھا؟ اس سے حاصل کیا کرنا تھا؟
قید کو دو سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے۔ خوش فہمی کی پتنگیں جو اُڑائی جا رہی تھیں کہ جیل سہہ نہیں سکے گا‘ اندر سے ٹوٹ جائے گا‘ جیل سے آہ وپکار آنے لگے گی‘ یہ سب باتیں تو غلط ثابت ہوئیں۔ رانا ثنا اللہ جیسے آدمی کہہ چکے ہیں کہ جس طرح جیل کاٹ رہا ہے اس کی توقع نہ تھی۔ سو اَب تک نہیں ٹوٹا تو کیا ملاقاتوں پر پابندی سے گھائل ہونے لگے گا؟ لہٰذا سوائے خواہ مخواہ کی سیاسی ٹینشن کے اور کچھ بدنامی کے‘ حکومت کو ان پابندیوں سے کیا حاصل ہو ا؟ من گھڑت قتل کیس میں ذوالفقار علی بھٹو قید تھے‘ ملاقاتوں پر ایسی پابندی تب نہ لگی تھی۔ ہفتے میں ایک بار بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو پرانی پنڈی جیل میں ملاقاتیں کرتی تھیں اور یحییٰ بختیار جو بھٹو صاحب کے سینئر وکیل تھے اُن کو بھی حسبِ ضابطہ ملاقاتوں کی اجازت ہوتی۔ ضیا رجیم نے آخر میں جو کرنا تھا وہ کیا‘ دنیا بھر کی اپیلوں کو نظر انداز کیا اور جنرل ضیا یہی کہتے رہے کہ جو ہو گا قانون کے مطابق ہو گا‘ لیکن ملاقاتوں وغیرہ کے سلسلے میں کوئی روک ٹوک نہ ہوتی۔
یہاں پر علیمہ خان اور دوسری بہنیں شور مچا تی ر ہیں۔ پختونخوا کا وزیراعلیٰ سات آٹھ بار اڈیالہ کے سامنے پڑاؤ ڈال چکا‘ بیٹے باہر سے کہتے رہے کہ تین ہفتے سے ہمیں نہیں پتا کہ باپ کس حالت میں ہے‘ سوشل میڈیا پر طرح طرح کی خبریں چلتی ر ہیں۔ اس کا سدباب بڑا سادہ ہے کہ روٹین اور ضابطے کے مطابق ملاقات کرا دی جائے جیسا کہ اب عظمیٰ خان کی کرا دی گئی ہے۔بس اہتمام اتنا سا کہ ہر ہفتے ایسا بحران پیدا نہ ہو۔اور مسائل پاکستان کو اس وقت کم درپیش ہیں کہ خواہ مخواہ کے مسائل کھڑے کیے جا رہے ہیں؟ یہ اور بات ہے کہ مقصد خواہ مخواہ کا تنگ کرنا ہو۔ اگر ایسی بات ہے تو سرکار کو جچتی نہیں۔ سیاسی بحران اور اس کی نوعیت کیا ہے‘ اُسے حل کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیے‘ لیکن ملاقات نہ ہونے دینا‘ چیف منسٹر کے پی کو تنگ کرنا‘ یہ کوئی بات ہوئی؟ مسائل اور بہت ہیں اور توانائیاں ان کے حل پر صرف ہونی چاہئیں۔
یہ کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا لیکن حقیقت یہی ہے کہ عدالتوں سے اب کوئی ڈر رہا نہیں۔ خان کے بارے میں جو فیصلے آ سکتے تھے حالیہ ترمیمات کے بعد وہ خطرہ تو سرکار کے سر سے ٹل گیا۔ پھر فکر کس بات کی؟ سلمان اکرم راجہ اور دیگر وکلا خان سے مل لیتے ہیں‘ بہنیں مل لیتی ہیں‘ کوئی آسمان تو نہیں ٹوٹے گا۔ حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہی ہو گا کہ رقابت کے باوجود جو قانونی حق قیدی کا ہے‘ اُسے میسر ہو رہا ہے۔ یہاں عدالتیں حکم دیتی ہیں‘ اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم آتا ہے اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ یا تو سرکار ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ بہت طاقتور ہے اور اس کی طاقت کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا‘ پھر تو چلیں بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن جہاں اتنا ارتکازِ اختیار ہو‘ ہر چھید کو بند کیا جا چکا ہو‘ وہاں ثابت کرنے کے لیے کوئی چیز رہ تو نہیں جاتی۔
جس جماعت کی بات ہو رہی ہے زیر عتاب ہے‘ کئی طرح کے جبر کا اسے سامنا ہے۔ بہت سے قائدین جو اندر ہیں اور سزائیں کاٹ رہے ہیں‘ ان کے مقدمات کی نوعیت کا پتا ہی نہیں چلتا کہ اپیلیں کہاں ہوئی ہیں اور ان کا بننا کیا ہے۔ انگریزی میں جسے بلیک ہول کہتے ہیں‘ لگتا ہے اس میں وہ سارے قیدی بشمول قائدین گم ہو چکے ہیں۔ یا بلیک ہول انہیں کھا گیا ہے۔ حکومت مخالف آخری مؤثر احتجاج پچھلے سال 26 نومبر کو ہوا تھا۔ اس احتجاج کے ساتھ حکومتی ردِ عمل ایسا تھا کہ پھر اس قسم کا احتجاج کرنے کی پوزیشن میں جماعت نہ رہی۔ احتجاج کے اعلانات ہوتے ہیں لیکن حکومتی اقدامات کے سامنے زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔ لہٰذا یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ پلڑا حکومت کا بھاری ہے۔ سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ پھر خوف کس چیز کا؟اب کل عظمیٰ خان کی ملاقات بھائی سے ہو ہی گئی۔اچھی بات ہے ‘ دیر آید درست آید۔پہلے ہو جاتی تو بہتر تھا‘ پارہ اتنا نہ چڑھتا۔ آئندہ کے لیے بھی سرکار کچھ خیال کر لے تو بہتر ہو گا۔
اصل مسئلہ دراصل کچھ اور ہے۔ بے شک اختیارات اور طاقت ایک ہی جگہ اکٹھے کر دیے گئے ہوں لیکن آئین موجود ہے‘ بے شک لولا لنگڑا ہو گیا ہو‘ تو وقتِ مقررہ پر انتخابات کرانے پڑیں گے۔ اوپر قومی اسمبلی کے لیے اور نیچے صوبائی اسمبلیوں کے لیے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ 2023-24ء میں ہم نے دیکھ لیا کہ آئینی مدت سے تجاوز ہو چکا تھا لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو انتخابات کا حکم دینا پڑا۔ بے شک فارم 47 کے کرشمات نمودار ہوئے لیکن ایسا بار بار کرنے سے عالمی برادری کی نظروں میں پاکستان کی عزت میں کوئی اضافہ تو نہیں ہو گا۔ ویسے بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو ہماری موجودہ سرکار کے گاڈ فادر بنے ہوئے ہیں‘ کی مدتِ صدارت 2028ء میں ختم ہونی ہے اور ہماری اگلے انتخابات کی تاریخ کہیں 2029ء میں آنی ہے۔ یعنی صدر ٹرمپ جنہوں نے ہماری سرکار کو بہت تھپکیاں دی ہیں‘ اگلے انتخابات کے وقت اوول آفس میں نہیں ہوں گے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ حالات زیادہ نہیں تھوڑی حد تک تو بدلے ہوں گے۔ جو کچھ 2024ء میں چل گیا شاید اتنی آسانی سے 2029ء میں نہ چل سکے۔
ایک بہت بڑا فیکٹر اُکتاہٹ کا ہوتا ہے۔ مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی بڑی طاقتور وزیراعظم تھیں۔ کئی الیکشن جیتے لیکن 10سال اقتدار میں رہنے کے بعد ان کی اپنی کنزرویٹو پارٹی ان سے تنگ آ چکی تھی۔ چہرے کی تبدیلی کی آرزو سینوں میں پیدا ہو چکی تھی۔ ہمارے مردِ مومن کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا‘ گیارہ ساڑھے گیارہ سال بعد عوام الناس کو تو چھوڑیے ان کے دائیں بائیں کے لوگ ان سے تنگ آ گئے تھے کہ جان بھی چھوڑتا ہے کہ نہیں۔
لمبا عرصۂ اقتدار تو ہر ایک کی تمنا ہوتی ہے۔ ایوب خان نے 10سالہ ترقی کا جشن منایا کہ دل میں یہ بات تو نہیں تھی کہ ریٹائر ہو رہے ہیں۔ مزید لمبی صدارت کی آرزو دل میں لیے بیٹھے تھے۔ یہ تو حالات ایسے پیدا ہوئے‘ عوام سڑکوں پر نکل آئے اور جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو‘ جن میں گٹھ جوڑ تھا کا یہ ارادہ پکا ہوا کہ ایوب خان کو نکالیں‘ خود سے تو جائے گا نہیں۔ یوں ایوب خان نے مجبور ہو کر اقتدار یحییٰ خان کو منتقل کیا۔ بھٹو کی باری آئی‘ انہوں نے بھی پتا نہیں کتنی لمبی منصوبہ بندی بنائی ہوئی تھی۔ آخر فخرِ ایشیا اور قائد عوام تھے۔ ضیاالحق بھی خود سے نہ گئے‘ حادثے کی نذر ہوئے۔ لہٰذا دل تھوڑا کشادہ کرنا چاہیے اور چھوٹی چیزوں سے اجتناب ہی کریں تو حکمرا نوں کے لیے اچھا رہتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved