آج کل پارلیمنٹ ایک دلچسپ جگہ بن چکی ہے۔ دلچسپ تو ہمیشہ سے ہی رہی ہے لیکن آج کل کچھ زیادہ ہی ہو چکی ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے پچھلے سیشنز تک عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی کا ایشو بہت گرم ہو چکا تھا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی وزیراعظم شہباز شریف کو درخواست کرنے‘ اڈیالہ جیل کے سامنے دھرنا دینے اور مریم نواز صاحبہ کو خط لکھنے تک سب کام کر چکے تھے۔ اُس روز سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس آگے پیچھے تھے جس روز آفریدی صاحب اور ان کے ساتھی اڈیالہ جیل کے باہر انتظار میں بیٹھے تھے کہ شاید ان کی عمران خان سے ملاقات کرا دی جائے۔ جب سینیٹ کا سیشن شروع ہوا تو فیصل جاوید سمیت دیگر پی ٹی آئی سینیٹرز نے دھواں دھار تقریریں کیں‘ ہنگامہ کیا اور نعرے بازی کی کہ خان سے ملاقات کرائی جائے۔ سوشل میڈیا پر عمران خان سے متعلق بہت پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ سینیٹ سے زیادہ قومی اسمبلی کی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ ایک تو وہاں ممبران کی تعداد 336 ہے اور وہاں ممبران براہِ راست منتخب ہوتے ہیں لہٰذا ان کے پاس زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ وزیروں کی اکثریت بھی اس ہاؤس سے کابینہ میں آتی ہے‘ وزیراعظم بھی اسی ہاؤس سے منتخب ہوتا ہے۔ اس لیے میرا خیال تھا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی اراکین اس اہم ایشو کو ضرور اٹھائیں گے۔ تاہم وہاں صورتحال یکسر مختلف تھی‘ پی ٹی آئی کے ممبر قومی اسمبلی آفریدی صاحب نے دو دفعہ کوشش کی کہ ہاؤس کا اجلاس ہی نہ چل سکے۔ قانون کے تحت ہاؤس کی کارروائی کے دوران کم از کم 80 اراکین کا ہر وقت ہاؤس میں موجود رہنا ضروری ہے‘ ورنہ ہاؤس کی کارروائی نہیں چل سکتی اور اگر کارروائی چل رہی ہے تو کوئی بھی ایک ممبر کھڑا ہو کر کورم پوائنٹ آؤٹ کر سکتا ہے جس پر ممبر پورے نہ ہونے تک ہاؤس کی کارروائی روک دی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی ممبران کیلئے ضروری تھا کہ وہ اس اجلاس کو چلائیں تاکہ عمران خان کے ایشو پر گفتگو کی جا سکے جیسے سینیٹ اجلاس میں کیا گیا تھا لیکن آفریدی صاحب نے ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ کورم پوائنٹ آؤٹ کیا جس پر سپیکر نے کارروائی روک کر گنتی کرائی تو پتا چلا کہ ہاؤس میں مطلوبہ تعداد موجود تھی۔ اس دوران پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن ارکان ہال سے باہر نکل گئے تاکہ وہ شمار نہ ہوں۔ جب یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی تو وہ سب ہاؤس میں واپس آ گئے لیکن عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی پر کسی نے بات نہ کی۔ آفریدی صاحب کچھ دیر بعد دوبارہ کھڑے ہوئے اور پھر سپیکر سے کہا کہ ہاؤس میں مطلوبہ ممبران موجود نہیں۔ یہ کہہ کر پی ٹی آئی ارکان ہاؤس سے نکل گئے اور گنتی شروع ہو گئی۔ پانچ دس منٹ گنتی پر صرف کرنے کے بعد پتا چلا کہ ہاؤس میں نمبرز پورے تھے۔ اب کی دفعہ پی ٹی آئی والے ہاؤس میں واپس ہی نہیں آئے اور ان کے بغیر ہاؤس چلتا رہا۔ بعد ازاں پتا چلا کہ وہ سب یہ کرنے کے بعد اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے اور حاضری رجسٹر پر اپنی حاضری بھی لگا گئے تاکہ ان کا سیشن الاؤنس اگلے ماہ تنخواہ کے ساتھ ان کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو سکے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے‘ اسمبلی ممبران اپنی حاضری لگانا نہیں بھولتے‘ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی حاضری مینوئل ہوتی ہے۔ باقی پورے سیکرٹریٹ کے سینکڑوں ملازمین بائیو میٹرک سسٹم کے تحت حاضری لگاتے ہیں لیکن ممبران کی حاضری مینوئل لگتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس دن کوئی ممبر نہیں آتا‘ اس دن بھی اس کی حاضری لگا دی جاتی ہے‘ چاہے وہ ساتھی ممبر لگائے یا پھر اسمبلی سٹاف‘ جس کے پاس رجسٹر ہوتا ہے۔ یقینا سب ممبران ایسا نہیں کرتے لیکن اکثریت کے بارے یہی مشہور ہے کہ صرف پانچ دس ہزار الاؤنس کیلئے عوام کے نمائندے یہ کام کرتے ہیں اور اسمبلی کا سٹاف بھی اپنا کمیشن فی جعلی حاضری وصول کرتا ہے۔
آفریدی صاحب کی اس ناکام کارروائی سے پہلے ہاؤس میں پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر نے تقریریں کی تھیں جن میں ضمنی الیکشن کے نتائج پر شکوک کا اظہار کیا گیا تھا خصوصاً ہری پور میں عمر ایوب کی اہلیہ کی سیٹ پر ان کے بقول ہونے والی دھاندلی نے اس سسٹم پر ان کا رہا سہا اعتماد بھی ختم کر دیا۔ اسد قیصر اپنی تقریر میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیتے رہے۔ ان دونوں لیڈروں نے فلور پر ہر ایشو پر بات کی لیکن کسی نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کی بات نہ کی‘ جو ٹھیک اُس وقت اڈیالہ جیل کے باہر سڑک پر بیٹھے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو متعلقہ فورم ہے‘ جہاں وفاقی وزیر سے وزیراعظم تک سب موجود ہوتے ہیں‘ وہاں پی ٹی آئی کے لیڈران بات کرنے سے کیوں شرماتے ہیں۔ وہ وہاں اس ایشو کو کیوں نہیں اٹھاتے کہ عمران خان کو قیدِ تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور ان کی ملاقاتیں نہیں ہو رہیں۔ خیر وہ سیشن ختم ہوا۔ سوموار کے روز پھر سینیٹ اور قومی اسمبلی کا سیشن تھا۔ آفریدی صاحب نے ایک دفعہ پھر کوشش کی کہ ہاؤس نہ چلے۔ اس طرح بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر نے بھی تقریریں کیں لیکن عمران خان سے ان کی بہنوں کی ملاقات کا مسئلہ کسی نے نہیں اٹھایا۔ وہ دونوں صوبے میں گورنر راج کے حوالے سے دھمکیاں دیتے رہے۔ جواباً سپیکر نے بھی دھمکیاں دیں۔ یوں سپیکر اور پی ٹی آئی اراکین ایک دوسرے کو گھنٹوں تک دھمکیاں دیتے رہے اور آخر اس بات پر مک مکا ہوا کہ چیمبر میں چائے پر بات ہو گی۔
اس سے پہلے محمود اچکزئی کی دھمکی کا ذکر ہوا کہ وہ پارلیمنٹ پر پی ٹی آئی ارکان اور ورکرز کے ساتھ چڑھائی کریں گے اور ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔ اس پر سپیکر صاحب نے کہا کہ آپ لوگوں نے 2014ء میں یہ کام کرکے دیکھ لیا‘ اب کی دفعہ بھی آپ سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ تاہم اس دوران علی محمد خان نے عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی کا ایشو اٹھایا اور اچھے طریقے سے ہائی لائٹ کیا اور بتایا کہ کیسے بات چیت کے ذریعے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیسے ماضی میں مَیں جب سیاسی بات چیت کا کہتا تھا تو میری پارٹی کے اندر بھی مجھ پر تنقید ہوتی تھی لیکن میں پھر بھی بات چیت کے حق میں ہوں۔ اس دوران سپیکر قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی کی باتوں پر غصے میں تھے کہ وہ پارلیمنٹ پر حملے کی دھمکی دے رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ نے خاصی جذباتی گفتگو کی کہ اچکزئی صاحب کا احترام اپنی جگہ لیکن اگر وہ پارلیمنٹ پر حملے کی بات کریں گے تو پھر اس کا بھرپور جواب ملے گا اور ان پر سوالات بھی اٹھیں گے۔ تاہم اس دوران ملتان سے ایم این اے عامر ڈوگر اور سپیکر ایاز صادق کے درمیان مزے کا ڈائیلاگ ہوا۔ عامر ڈوگر نے اچھا ایشو اٹھایا کہ اسلام آباد سے ملتان تک کوئی ایئرلائن نہیں چلتی۔ بہاولپور‘ ڈیرہ غازی خان سے ملتان تک کروڑوں لوگوں کیلئے کوئی فضائی سروس نہیں ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ یہ اسمبلی جعلی ہے۔ جس پر سپیکر نے کہا کہ اگر اسمبلی جعلی ہے تو پھر آپ سب یہاں کیا کر رہے ہیں؟ عامر ڈوگر نے کوئی جواب نہ دیا لیکن اگر ان کی جگہ میں ہوتا تو یہ کہتا کہ ہر ماہ چھ سات لاکھ روپے تنخواہ‘ روزانہ ہزاروں کا سیشن الاؤنس‘ مفت میڈیکل‘ مفت سفر‘ دنیا بھر کے دورے‘ ساٹھ ملکوں میں سرکاری پاسپورٹ پر فیملی سمیت ویزا فری انٹری‘ اربوں کا ترقیاتی بجٹ اور پروٹوکول ملتا ہو تو کس کو برا لگتا ہے کہ جعلی اسمبلی چھوڑ دے؟
اس بات پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک میرے جیسے سرائیکی نے نہ رمضان کے روزے رکھے‘ نہ تراویح پڑھی‘ نہ ہی عید کی نماز۔ عید کے دن ماں نے سویّاں بنائیں تو فوراً اُٹھ بیٹھا کہ اماں عید دیاں سیویاں تے ڈے۔ ماں نے کہا کہ نہ تم نے روزے رکھے‘ نہ تراویح پڑھی‘ نہ عید نماز لیکن عید کی سویاں سب سے پہلے؟ وہ بولا کہ اماں میں عید دی سیویاں وی نہ کھاواں‘ ہن میں کافر مراں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved