تحریر : محمد حسن رضا تاریخ اشاعت     03-12-2025

دو ماڈل‘ دو راستے

اسلام آباد کے ایک سنسان سرکاری لاج کی بالائی منزل پر رات گئے سینئر سیاستدانوں کی ایک بیٹھک جاری تھی۔ روشنی مدھم تھی اور گفتگو اس قدر احتیاط سے ہو رہی تھی کہ جیسے ریاستی رازوں والی کوئی فائل کھل رہی ہو۔ کمرے کا دروازہ بند تھا اور پردے گرے ہوئے تھے مگر موضوع ایسا تھا کہ جب آواز دب جاتی تو معنی مزید گہرے ہو جاتے۔ ایک بزرگ سیاستدان نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا: دنیا میں ترقی صرف نعروں سے نہیں ہوتی‘ ملک سخت فیصلوں سے بنتے ہیں۔ کچھ ملکوں میں ترقی چین کی طرح ہوتی ہے اور کچھ میں استحکام مصر کی طرح آتا ہے۔ آج پاکستان بھی اسی دوراہے پر کھڑا ہے۔ سوال ہماری پسند کا نہیں‘ حالات کا ہے۔ حالات اس وقت کیا مانگ رہے ہیں؟ دوسرے سیاستدان نے کاغذات سنبھالتے ہوئے کہا: آج آپ کے سامنے دو ممالک کے ماڈل رکھتے ہیں؛ چین اور مصر! دونوں نے اپنے اپنے طریقے سے ترقی کی ہے۔ دونوں نے سختیاں برداشت کی ہیں۔ دونوں نے سیاسی میدان کو محدود رکھا ہے مگر دونوں کے نتائج مختلف آئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے لیے کون سا راستہ ممکن ہے اور کون سا ناگزیر؟
بات کا دھارا اب چین کی طرف بہہ رہا تھا۔ چین کی ترقی ایک ایسی تاریخ ہے جس کے پیچھے فولادی نظم‘ بے رحم فیصلے اور مرکزیت پر مبنی اختیار کا ماڈل کارفرما ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس کی فی کس آمدن 1980ء میں صرف 194 ڈالر تھی۔ یعنی یہ دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتا تھا۔ مگر آج 2025ء میں یہی آمدن بڑھ کر 13 ہزار 800 ڈالر سے اوپر جا چکی ہے۔ صرف چالیس سال میں چین نے 800 ملین (80 کروڑ) لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سوشل اور اکنامک اَپ لفٹ ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران دنیا سے جتنی غربت کم ہوئی ہے‘ اس کا 70 فیصد چین میں ہوا۔ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کرشمہ کیسے ہوا؟ یہ سب کچھ جمہوری احتجاجوں‘ حکومتی اتحاد ٹوٹنے اور روز روز کے سیاسی بحرانوں سے نہیں آیا۔ چین نے سختی کو اصول‘ نظم کو قانون اور منصوبہ بندی کو اپنا مقدر بنا کر یہ سب کچھ حاصل کیا ہے۔
2012ء کے بعد سے چین نے 41 لاکھ سرکاری افسران کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ 170 طاقتور وزارتی افسر گرفتار ہوئے ہیں۔ سینکڑوں اہلکاروں کو کرپشن پر سزائے موت ہوئی ہے۔ یہ کوئی وقتی شور نہیں تھا۔ یہ ریاست کا پیغام اور ایک مصمم عزم تھا کہ کرپشن کے لیے چین کی سرزمین پر کوئی جگہ نہیں۔ چین میں میڈیا پر بھی سخت کنٹرول ہے۔ سات لاکھ سے زائد سائبر پولیس اہلکار اختلافی بیانیے کو مانیٹر کرتے ہیں۔ لاکھوں ویب سائٹس بند کی گئی ہیں۔ ہزاروں ایپلی کیشنز کو ریگولیٹ کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں سیاسی مخالفت نہیں‘ مخالفت ہے مگر محدود ہے۔ حکومتی فیصلوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے مگر بے ہنگم نہیں‘ قانونی دائرے میں رہ کر۔ ہر فیصلہ ایک مرکز‘ ایک ڈھانچے اور ایک حکمتِ عملی سے جڑا ہوتا ہے۔ چین میں اب تک 13 پانچ سالہ معاشی منصوبے بنائے گئے‘ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہر پلان اپنی مدت پوری کرتا ہے۔ سیاست بدل جائے‘ لوگ بدل جائیں مگر پلان نہیں بدلتا۔ چین نے انفراسٹرکچر کو ایسی رفتار دی کہ آج دنیا کا سب سے بڑی ہائی سپیڈ ریل نیٹ ورک (42 ہزار کلومیٹر)‘ سب سے بڑا موٹروے نیٹ ورک (دو لاکھ 50 ہزار کلومیٹر)‘ 200 سے زائد سمارٹ سٹی‘ یہ سب چین کی ترقی کی پہچان بن چکا ہے۔ 1980ء میں چین کا عالمی برآمدات میں حصہ محض ایک فیصد تھا‘ جو آج 14 فیصد ہو چکا۔ یہ ترقی صرف ایک فارمولے پر ممکن ہوئی: آج سختی‘ کل خوشحالی۔ مگر سختی بھی ایسی کہ سیاسی شور نہیں‘ پارلیمانی بحران نہیں‘ لیڈرشپ کی تبدیلی سے پالیسی نہیں بدلتی۔ چین کے ماڈل میں سیاست نہ سہی‘ مگر منصوبہ بندی مضبوط ہے۔ آزادی محدود مگر ترقی زیادہ ہے۔ بیٹھک میں موجود ایک سیاستدان نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا: یہ راستہ آسان نہیں! مگر معاصر دنیا میں سب سے کامیاب ماڈل یہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس راستے پر چلنے کی سکت رکھتا ہے؟ ہمارا معاشرہ جو سیاسی آزادی کا عادی ہو چکا ہے‘ جب نظام اس سے قربانی مانگے گا‘ نظم چاہے گا‘ پابندیاں لگیں گی تو کیا عوام برداشت کر لیں گے؟ اب بات مصر کی طرف مڑ گئی۔
مصر کی تاریخ یکسر مختلف ہے۔ وہاں 2011ء کی بہارِ عرب کے بعد سیاسی انتشار نے ملک کو کمزور کر دیا۔ احتجاج‘ دھرنے‘ حکومتیں بدلنا‘ عدالتوں پر حملے‘ معاشی تباہی غرضیکہ ملک ٹوٹنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ پھر مصر نے فیصلہ کیا کہ سیاست جتنی آزادی لے چکی‘ اب مزید نہیں بلکہ اسے کچھ آزادی واپس کرنا ہو گی‘ ریاستی استحکام ضروری ہے اور نظم اولین ترجیح۔ مصر میں سیاسی حکومت کو بزور ہٹا دیا گیا۔ مقبول جماعت کو ختم کر دیا گیا۔ میڈیا پر سخت قوانین نافذ ہوئے۔ جلسے جلوسوں پر پابندیاں بڑھتی چلی گئیں۔ فوج نے فیصلہ سازی کی مسند سنبھال لی۔ صدارتی نظام مضبوط ہو گیا۔ سیاسی سرگرمیوں کی جگہ ریاستی ڈھانچہ اوپر آ گیا۔ اقتصادی سختیاں اس سے بھی زیادہ تھیں۔ 2016ء میں مصر نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور اس معاہدے کے تحت کرنسی 48 فیصد تک ڈی ویلیو ہو گئی۔ پٹرول 150 فیصد مہنگا ہوا‘ بجلی کے نرخ 500 فیصد تک بڑھے۔ سبسڈیاں تقریباً ختم‘ سینکڑوں ادارے نجی شعبے کو دے دیے گئے۔ عوام ان حالات پر چیخ اُٹھے۔ مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی اور غربت کا گراف تیزی سے بڑھا۔ مگر ریاست نے کہا ملک بچانا ہے تو یہ قربانی دینا ہو گی۔ مگرسوال یہ ہے کہ کیا مصر نے اس سے ترقی پائی؟ کچھ استحکام تو ملا مگر ترقی محدود رہی۔ مہنگائی 33 فیصد‘ قرض جی ڈی پی کا 96 فیصد‘ بیروزگاری 11 فیصد۔ یعنی ملک چل تو پڑا مگر دوڑ نہ سکا۔بیٹھک میں موجود ایک سیاستدان نے مصر کے ذکر کے بعد سر جھٹک کر کہا: یہ راستہ استحکام تو دیتا ہے مگر ترقی نہیں۔ سیاست بند ہو جائے مگر معیشت نہ اُٹھے تو یہ سختی فائدہ نہیں دیتی۔
اب گفتگو کا رخ پاکستان کی طرف مڑ گیا۔ پاکستان اس وقت انہی دو راہوں کے بیچ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف معیشت کا بحران ہے‘ خسارہ تاریخی بلند سطح پر‘ مہنگائی 22 فیصد سے زیادہ‘ سرکاری اداروں کا 900 ارب کا سالانہ خسارہ‘ کرنسی دباؤ میں‘ سرمایہ کاری رُکی ہوئی۔ دوسری طرف سیاست کمزور‘ سیاسی جماعتیں سکڑ رہیں‘ فیصلوں کا محور بدل رہا‘ اداروں کا حجم بڑھ رہا‘ بیانیے بدل رہے۔ پاکستان کو اگر ترقی چاہیے تو چین جیسی سختیوں سے گزرنا ہو گا۔ وہ سختیاں جن میں نجکاری ہو گی‘ سبسڈیاں ختم ہوں گی‘ ٹیکس سخت اور بجلی وگیس مہنگی ہو گی! سرکاری اخراجات میں کمی‘ اداروں میں اصلاحات۔ مگر یہ سب عوام کے لیے ایک کڑوا گھونٹ ہو گا۔ کیا ہمارا معاشرہ اتنی برداشت رکھتا ہے؟ چین نے یہ سختیاں عوامی نظم سے برداشت کیں۔ پاکستان میں ہر فیصلہ سیاسی تنازع بن جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر مصر والا راستہ اختیار کیا جائے یعنی سیاست کا محدود ہونا ‘ اختلاف کم کرنا تو یہ بھی ممکن ہے کہ بقا کو خطرہ نہ رہے مگر ترقی وہ رفتار نہ پکڑ سکے جو پاکستان کو چاہیے۔
ایک سیاستدان نے چائے کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے کہا: فیصلہ ابھی ہوا نہیں۔ نہ کسی نے چین کا نام لیا نہ کسی نے مصر کا۔ مگر ایک بات طے ہے کہ پاکستان کا موجودہ ماحول‘ فیصلوں کی رفتار‘ اداروں کی چال اور سیاست کی کمزوری‘ یہ سب عوامل اشارہ دے رہے ہیں کہ کچھ کبوتروں نے پرواز کا رخ چین کی طرف کر دیا ہے۔ تمام لوگ کھڑے ہوئے‘ فائلیں بغل میں دابیں اور دروازے کی جانب بڑھنے لگے۔ اب یہ کبوتر چین کی فلائٹ لیتے ہیں یا مصر کی چھت پر بیٹھ جاتے ہیں‘ یہ وقت بتائے گا۔ مگر سوال یہی ہے کہ کیا پاکستان ان دو راستوں میں سے کسی ایک کی طرف بڑھنے والا ہے؟ وقت کا انتظار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved