زمین ظلم سے بھر گئی ہے۔ آسمان سے پتھر کیوں نہیں برس رہے؟
قانون کے یہ کیسے رکھوالے ہیں جو خود قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں! جن کے اپنے گھروں میں قانون کی حیثیت اُس چیتھڑے سے زیادہ نہیں جس سے جوتے صاف کیے جاتے ہیں‘ وہ خلق خدا کو کیا انصاف دیں گے۔ ایسے واقعات کی تعداد ہولناک رفتار سے بڑھ رہی ہے جن میں طاقتور افراد عام شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں اور قانون ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ ملک ایسی چراگاہ بن چکا ہے جہاں بھیڑوں کے رکھوالے بھیڑوں کو چیر پھاڑ رہے ہیں۔ ریاست ان کے سامنے بے بس ہے۔ قانون ان کے بوٹوں کا تسمہ ہے۔ پولیس چاہے بھی تو اس کے ہاتھ بندھے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ انصاف کی مسندوں پر براجمان ہیں۔
کچھ بھی نہیں ہو گا! کچھ بھی نہیں! پیر کی رات‘ وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر‘ اندھا دھند رفتار سے کروڑوں کی شاہانہ گاڑی چلانے والے سولہ سالہ چھوکرے نے جن دو بہنوں کو گاڑی کے نیچے دے کر ہلاک کیا ہے‘ ان دو بہنوں کو انصاف نہیں ملے گا۔ لکھ لیجیے کہ نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ آج تک یہاں کسی طاقتور کو سزا نہیں دی گئی۔ کیا مجرم کے والد محترم‘ جو خود بڑے عہدے پر فائز ہیں‘جانتے نہیں تھے کہ ان کا فرزند‘ اس کچی عمر میں گاڑی چلاتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سولہ سالہ لڑکا رات ایک بجے گھر سے باہر ہو اور اس کے والدین کو معلوم ہی نہ ہو کہ بیٹا گھر پر نہیں ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ سولہ سالہ لڑکا باپ کے علم کے بغیر گاڑی چلاتا ہو؟ جبکہ اس کی عمر میں ڈرائیونگ لائسنس بن ہی نہ سکتا ہو!
کچھ نہیں ہو گا۔ ثمرین حسین اور تابندہ بتول کی لاشیں دفن ہو جائیں گی۔ لاشوں کے ساتھ انصاف بھی دفن ہو جائے گا۔ ان کے والدین کی آرزوئیں بھی ان کی قبروں میں منوں مٹی کے نیچے دب جائیں گی۔ وہ ملازمت کر رہی تھیں۔ رزقِ حلال کما رہی تھیں۔ ذمہ داریاں نبھا رہی تھیں۔ ابھی تو ان کے والدین نے ان کے ہاتھ پیلے کرنا تھے۔ ابھی تو ان کے لیے براتیں آنا تھیں۔ انہوں نے جو خواب دیکھے تھے‘ ان کی تعبیروں سے ہم کنار ہونا تھا۔ ان کے صحنوں میں فرشتوں جیسے بچوں نے دوڑنا تھا۔ پھولوں کی طرح مہکنا تھا اور چڑیوں کی طرح چہکنا تھا۔ مگر اندھی قوت عفریت بن کر آئی اور انہیں نگل گئی! اس سے پہلے بھی ایک ایسی ہی طاقتور شخصیت کی دختر نیک اختر نے رات کی تاریکی میں دو نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ تو کون سا انصاف ہوا تھا۔ مقدمہ کرنے والے بے بس باپ نے کچھ عرصہ دھکے کھانے کے بعد مقدمہ واپس لے لیا تھا۔ اس ملک کے نظام انصاف کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ اگر کوئی بے حیثیت شہری کسی طاقتور‘ باحیثیت فرد کے خلاف انصاف مانگے تو ایک دن اچانک بے حیثیت مدعی کو معلوم ہوتا ہے کہ طاقتور مدّعا علیہ تو بے قصور ہے؛ چنانچہ وہ مقدمہ واپس لے لیتا ہے۔ یہ اور بات کہ مقدمہ واپس لیتے وقت اس کے چہرے پر موت کی زردی کھنڈی ہوتی ہے۔ گھر جا کر وہ ایک لاش کی طرح چارپائی پر گرتا ہے۔ مرنا چاہتا ہے مگر مر تا نہیں! اس کی بیوی‘ اس کے بچے‘ جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیتے ہیں۔ گھر میں ماتم برپا ہوتا ہے۔ ایک نوالہ تک حلق سے نہیں اترتا۔ دوسری طرف جس طاقتور فرد کا بیٹا یا بیٹی ''بے گناہ‘‘ ہونے کی وجہ سے بری ہوتا ہے اس کے گھر میں عید کا سماں ہوتا ہے۔ ماتحت اور اونچے طبقے کے افراد پھول‘ مٹھائیاں اور کیک لاتے ہیں۔ مبارک سلامت کی آوازیں تھمتیں نہیں!
فرات کے کنارے کتا بھی مر جاتا تو دنیا کے سب سے بڑے حکمران کو پوچھ گچھ کا خوف ہوتا تھا۔ یہ تو انسان ہیں! ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جہاں بظاہر‘ آئین کی حکومت ہے۔ جو بظاہر‘ جمہوری مملکت ہے۔ تو کیا ان بے بسوں‘ ان بے کسوں‘ ان مظلوموں‘ ان مقتولوں کا خون رائیگاں جائے گا؟ نہیں! ہرگز نہیں! آج کی عدالتوں میں بیشک چھوٹتے جا رہے ہیں مگر کوئی ان کی زندگیوں کی نگرانی کرے اور ان کے آخری وقت دیکھے تو اسے معلوم ہو گا کہ ان کا انجام برا ہو گا! بہت برا! اور لوگ یاد کریں گے کہ انہوں نے بے گناہوں کو ہلاک کیا تھا۔
یہ کیسا ملک ہے جو ایٹم بم بنا سکتا ہے‘ جو بھارت جیسے عظیم الجثہ ملک کو دھول چٹا سکتا ہے مگر اپنے شہریوں کی حفاظت نہیں کر سکتا۔ شاہراہیں قتل گاہیں بن چکی ہیں۔ وحشی جانور بسیں‘ ٹرک اور ویگنیں چلا رہے ہیں۔ درندے معصوم شہریوں کو ڈمپروں کے نیچے دے کر ہلاک کر رہے ہیں۔ ہر روز ہلاک کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں! کوئی قانون ہے نہ قانون سازی! جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں ان کے پاس جہازی سائز کی بڑی بڑی گاڑیاں ہیں جن کا حادثے میں بھی کچھ نہیں بگڑتا۔ انہیں غم ہے نہ فکر کہ ان کے ووٹروں پر کیا بیت رہی ہے۔ سفید فام ریمنڈ ڈیوس تو ایک تھا جو ہمارے شہریوں کو مار کر چلتا بنا‘ اس لیے کہ جو ریاست مقتول شہریوں کی وارث تھی‘ وہ ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ مل گئی تھی۔ مگر ان ریمنڈ ڈیوسوں کا کیا ہو گا جو سفید فام نہیں! جن کے رنگ گندمی ہیں۔ یہ تو آئے دن شہریوں کو کچل رہے ہیں۔ افسوس! یہ مقامی ریمنڈ ڈیوس‘ امریکی ریمنڈ ڈیوس سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہیں۔ اُس کی پشت پر تو امریکہ تھا مگر یہ اتنے طاقتور ہیں کہ کسی امریکہ کی پشت پناہی کے بغیر ہی صاف بچ جاتے ہیں۔ کبھی یہ کوئٹہ میں قتل کرتے ہیں اور دو انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے‘ پتلی گلی سے نہیں‘ شاہراہِ عام سے سب کے سامنے نکل جاتے ہیں۔ کبھی یہ کراچی میں کسی بہن کے بھائی کو قتل کرتے ہیں اور بچ جاتے ہیں کیونکہ مقتول کے ماں باپ کیس واپس لے لیتے ہیں‘ یہ کہتے ہوئے کہ ہم ساری زندگی خوف کے سائے تلے نہیں گزار سکتے! کبھی یہ ایبٹ آباد سے تلاش روزگار کیلئے آئے ہوئے چار نوجوانوں کو کچل دیتے ہیں اور بچ نکلتے ہیں۔ یہ وہ ریمنڈ ڈیوس ہیں جو صرف دو پاکستانیوں کو نہیں‘ بیشمار پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں اور اتار رہے ہیں۔ آج تک کسی مقامی‘ گندمی رنگ کے دیسی ریمنڈ ڈیوس کو سزا نہیں ہوئی۔
''تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں کہ جب ان کا کوئی بڑا امیر وکبیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی سا آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی‘‘۔ اگر یہ سچ ہے تو ہم بربادی کی طرف بگٹٹ بھاگ رہے ہیں۔ اور یہ یقینا سچ ہے کیونکہ یہ کائنات کی سب سے زیادہ سچی ہستی نے کہا تھا۔ جب جرمن طیارے لندن پر بموں کی بارش کر رہے تھے اور برطانیہ کی کشتی زندگی اور موت کے درمیان ہچکولے کھا رہی تھی‘ چرچل نے پوچھا تھا: کیا عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟ بتایا گیا: ہاں! عدالتیں انصاف کر رہی ہیں! تو چرچل نے کچھ اس طرح کی بات کی تھی کہ پھر سب ٹھیک ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ کی عدالتیں نہ صرف یہ کہ کام کر رہی تھیں‘ انصاف بھی کر رہی تھیں۔ انور مسعود بتاتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے منیر نیازی سے کہا ''منیر! انسانی جسم کے دو اعضا ایسے ہیں جنہیں کاٹا جائے تو خون نہیں نکلتا‘‘۔ منیر نے پوچھا: کون کون سے؟ انور مسعود نے کہا: بال اور ناخن! منیر نیازی نے کہا ''انور! پھر تم نے ہمارے گاؤں کا حجام نہیں دیکھا‘‘۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ اگر چرچل منیر نیازی کو بتاتا کہ برطانیہ کی عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو منیر نیازی جواب میں کیا کہتا؟؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved