تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-12-2025

اجازت دیجئے!

میں بحیثیت مسلمان ہر اُس انسانی آزادی اور حق پر یقینِ کامل رکھتا ہوں جو انسان کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے عطا کیا ہے۔ مصر میں ایک مقامی مصری (قبطی) نے دوڑ میں مصر کے گورنر حضرت عمروؓ بن العاص کے بیٹے کو ہرا دیا‘ جس پر غصے میں آکر عمرو بن العاص کے بیٹے نے اس مصری نوجوان کو کوڑا دے مارا۔ وہ مصری فریاد لے کر خلیفہ وقت حضرت عمرؓ بن خطاب کے روبرو پیش ہوا۔ انہوں نے فریقین کو بلایا‘ تحقیق کی اور پھر قبطی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ اپنا بدلہ لے۔ پھر حضرت عمرؓ نے عمروؓ بن العاص کے صاحبزادے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا‘ حالانکہ ان کی مائوں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا۔
اس ایک جملے میں انسانی حرمت‘ شرفِ انسانی اور طبقاتی مساوات کے بارے میں ایک ایسا واضح حکم موجود ہے جس سے ہم مکمل طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ ملکِ عزیز میں جزا اور سزا کا تصور مکمل طور پر طبقاتی تقسیم کے زیر اثر ہے۔ قانون باقاعدہ آنکھیں رکھتا ہے اور دیکھ بھال کر اونچ نیچ‘ امیر غریب‘ کمزور طاقتور اور ماڑا یا تگڑا دیکھ کر حرکت میں آتا ہے۔ اس ملک میں قانون کی لگامیں تھامنے والے عادل شہسواروں نے مجبور‘ مقہور‘ غریب‘ لاوارث اور خاک نشین طبقے کو اپنے گھوڑے کی ٹاپوں تلے روند کر رکھ دیا ہے۔ ہماری مائوں نے ہمیں آزاد پیدا کیا تھا مگر اس ملک میں نظام نے ہمیں صرف غلام ہی نہیں بلکہ غلام ابن غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت انسانی حقوق کی آزادی کا غلغلہ ہے اور اس حوالے سے امریکہ میں رہنے والے پاکستانی آج کل ایک خاص حوالے سے ملک عزیز میں انسانی حقوق کی پامالی بارے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ میں نے ان سے کہا کہ پاکستان میں بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو ادھر امریکہ میں ہو رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان میں ہم پاکستانیوں کے ساتھ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر اور امریکہ میں نسلی اختلاف کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں ریاست کے نام پر اپنی حکومت کو دوام بخشنے کیلئے ظلم وستم ہو رہا ہے تو یہاں بھی سب کچھ ریاست کے نام پر ہی ہو رہا ہے۔ ایک دوست کہنے لگا: پاکستان کے معاملات میں امریکہ کہاں سے آ گیا؟ میں نے کہا: بھلا میں امریکہ کو درمیان میں کب لایا ہوں؟ امریکہ کو ویسے ہی دنیا بھر کے ہر معاملے میں چوہدری بننے کا شوق ہے اور وہ خواہ مخواہ ہمارے ہر معاملے میں کود پڑتا ہے۔ بفرض ِمحال اگر وہ خود نہ کودے تو ہم اسے کودنے کی دعوت دے دیتے ہیں۔ ہمارا کون سا سیاسی معاملہ ہے جس میں امریکہ کسی نہ کسی صورت دخیل نہ ہوا ہو؟ اول تو اسے خود ہر معاملے میں کودنے کی عادت ہے‘ بلکہ عادت ہی کیا‘ وہ دنیا کے ہر کمزور ملک کے معاملات میں دخل اندازی اور ہدایت جاری کرنا اپنا حق اور فرض سمجھتا ہے اور خیر سے ہم تیسری دنیا والے اپنے ہر معاملے کو سلجھانے کیلئے امریکہ کو دعوت دینا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہم ہر اس خرابی کو سلجھانے کیلئے بھی امریکہ ہی کی طرف دیکھتے اور پکارتے ہیں جو خود اس نے ہی پیدا کی ہوتی ہیں۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ مجھے انسانی حقوق‘ عام آدمی کے قانونی تحفظ اور آئین میں فرد کو حاصل آزادی کی پاکستان میں کسمپرسی کا خوب اندازہ ہے کہ میں اس سارے نظام میں اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک سے بخوبی آگاہ ہوں لیکن جن لوگوں سے ہم اپنے لیے مدد کے طلبگار ہیں وہ از خود ایک اور قسم کی کمینگی اور بے ایمانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اسرائیل میں جنگ بندی کے باوجود فلسطینیوں کا قتلِ عام جاری ہے۔ معصوم بچے‘ خواتین اور بے گناہ نوجوان روزانہ کی بنیاد پر شہید ہو رہے ہیں مگر اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اقوام متحدہ زبانی کلامی مذمت سے بڑھ کر کچھ نہیں کر رہا۔ دنیا بھر کو انسانی حقوق کا بھاشن دینے والا امریکی صدر ٹرمپ اسرائیل کے ظلم وستم اور قتلِ عام پر مزے سے بیٹھا ہے ۔دوسرے ملکوں کی اقلیتوں بارے حرفِ دشنام کہنے والے اور ایران وغیرہ میں جمہوری نظام کے بارے میں فکر سے دبلے ہونے والے امریکہ کا اپنا یہ حال ہے کہ یہاں کے اصل باشندے محدود اور مخصوص علاقوں‘ جو تقریباً تقریباً وسیع اور کھلی جیلوں جیسے ہیں‘ میں رہائش پذیر ہیں۔
دنیا بھر کو جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ شخصی آزادی اور اسی قسم کی دیگر سنہری چیزوں کا سبق دینے والے امریکہ کا اپنا یہ حال ہے کہ قابض مہاجرین خود تو 1788ء سے اپنے ووٹ کا استعمال کر رہے ہیں مگر امریکہ کے اصل اور قدیمی باشندوں کو یہ حق پورے 136 سال بعد 1924ء میں دیا گیا۔ ووٹ کی بات تو چھوڑیں‘ وہ تو امریکن انڈین سٹیزن ایکٹ 1921ء لاگو ہونے سے قبل امریکہ کے شہری ہی نہیں تھے۔ امریکہ میں ہزاروں سال گزارنے کے بعد انہیں امریکی شہری ہونے کا حق‘ محض تین سو سال قبل 1620ء میں آنے والے مہاجرین نے بخشا‘ وگرنہ وہ صدیوں سے اپنی ہی سرزمین پر بے شناخت تھے۔ سات اکتوبر 1885ء کو جرمنی میں تین سالہ لازمی فوجی ٹریننگ سے فرار حاصل کرنے کے غرض سے ون وے ٹکٹ لے کر نیویارک پہنچنے والا فریڈرک ٹرمپ نامی سولہ سالہ حجام خود تو امریکہ پہنچنے کے سات سال بعد 1892ء میں وہاں کا قانونی شہری بن گیا؛ البتہ امریکہ کے اصل باشندے ہزاروں سال اس سرزمین پر بسر کرنے کے باوجود اس کے 32 سال بعد 1924ء میں قانونی طور پر امریکہ کے شہری قرار پائے۔ تاہم امریکہ کی کئی ریاستوں نے انڈین سٹیزن ایکٹ کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے مقامی امریکیوں کو ووٹ کے حق سے اس بنا پر محروم رکھا کہ یہ چونکہ ریزرویشنز یعنی مخصوص پابند علاقے میں رہتے ہیں جو ریاست کے تابع نہیں‘ اس لیے وہ ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ اس دوران امریکی عدالتیں بھی وہی کچھ کرتی رہیں جو ہماری آجکل کر رہی ہیں۔
امریکی تاریخ کے سب سے معزز‘ نامور‘ مشہور اور نابغہ چیف جسٹس جان مارشل نے مقامی امریکی انڈینز کی زمین پر گوروں کے زبردستی قبضے کو جائز قرار دیتے ہوئے جو فیصلہ دیا وہ تاریخِ عالم میں اپنی نوعیت کا سب سے مضحکہ خیز‘ مبنی بر ناانصافی اور ظلم کی عکاسی کرتا ہے۔ جسٹس جان مارشل نے اپنے 1823ء کے تاریخی مقدمے Johnson v. Mcintosh میں یہ اصول طے کر دیا کہ یورپ (اور ان کے جانشین امریکہ) کو ''اعلیٰ حق ملکیت‘‘ (Ultimate title) حاصل ہے جبکہ مقامی انڈین قبائل کے پاس صرف حق قبضہ‘ حق رہائش (Right of occupancy) ہے۔ ریاست جب چاہے حقِ قبضہ ختم کروا سکتی ہے اور انڈین قبائل اپنی زمین کسی نجی شخص کو نہیں بیچ سکتے۔ اس فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ ریاست کا دعویٰ ملکیت مقامی انڈینز کے حق قبضہ پر حاوی ہے۔ مزید یہ کہ گوروں کا حق دریافت مقامی انڈینز کے حق ملکیت پر فائق ہے۔
مجھے پہلے جسٹس جان مارشل کے فیصلے پر حیرت ہوتی تھی کہ بھلا طے شدہ حقائق کے برخلاف اس قسم کے فیصلوں سے دنیا کی آنکھوں میں دھول کیسے جھونکی جا سکتی ہے لیکن پھر ان آنکھوں نے ایسے ایسے محیر العقول عدالتی فیصلے دیکھے کہ پردیس میں ہونے والے فیصلوں کی یاد بھی دل سے محو ہو گئی۔ ہمیں حقِ ووٹ تو 1947ء سے حاصل ہے لیکن ہمارے ووٹ نے شمار کہاں ہونا ہے‘ ہونا بھی ہے کہ نہیں‘ یہ فیصلہ بہرحال ہم نے نہیں کرنا۔ چلیں جان مارشل نے جو بھی اور جس قسم کا فیصلہ دیا‘ کم از کم فیصلہ تو دیا۔ ادھر یہ عالم ہے کہ گزشتہ ایک سال دس ماہ سے دھاندلی کے خلاف دائر عدالتی پٹیشنز کھوہ کھاتے پڑی ہوئی ہیں۔ کسی کو خبر نہیں کہ ان پر کارروائی ہو گی یا نہیں ہوگی‘ ہو گی تو کب ہو گی‘ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہو گی یا بعد میں ہو گی۔ اگر فیصلہ ہوا تو وہ غیر محفوظ ہوگا یا محفوظ ہوگا؟ اگر محفوظ ہوا تو کتنا عرصہ حفاظت میں پڑا رہے گا؟ سوال بہت سے ہیں اور کالم کا دائرہ تنگ ہے۔ اجازت دیجئے اللہ حافظ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved