تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     04-12-2025

نظام اور عوام

میں نجومی نہیں ہوں مگر پیش گوئی کر سکتا ہوں کہ اسلام آباد کی ایک شاہراہ پر کچلی جانے والی پاکستان کی دو بیٹیوں کو انصاف نہیں ملے گا۔ کراچی کے ابراہیم کو بھی نہیں جو دیکھتے دیکھتے موت کے آغوش میں چلا گیا۔ اس نظامِ عدل و حکومت میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ یہ انصاف جیسی اعلیٰ اخلاقی قدروں کی حفاطت کر سکے۔
یہاں قاتلوں کو وکیل مل جاتے ہیں۔ ان کے پاس اخلاقیات کا اپنا فلسفہ ہے۔ آئین شکنی سے لے کر عہد شکنی تک‘ یہاں ہر جرم کے مرتکب کے لیے وکیل موجود ہیں۔ قانون بھی اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب موقع ملے اور شک کا فائدہ ملزم کو دے۔ سول سوسائٹی بھی ہے جو سنگین جرائم کے مرتکب کو سزائے موت دینے کے خلاف ہر وقت جھنڈا بردار رہتی ہے۔ رہی حکومت تو عام شہری کو انصاف کی فراہمی‘ اس کی پہلی ترجیح نہیں بن سکی۔ اقتدار پر حرف آ رہا ہو تو حکومتیں آئین کو بازیچۂ اطفال بنا دیتی ہیں۔ حسبِ منشا ترمیم کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہیں۔ عام شہری کو انصاف دلانے کے لیے یہ گرم جوشی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
قتل سنگین ترین جرم ہے۔ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اس واقعے میں انسانیت دو بار قتل ہوئی۔ مکرر عرض ہے کہ ایسے واقعات حادثہ نہیں ہوتے۔ لازم ہے کہ انہیں قتلِ عمد قرار دیا جائے۔ اس واقعے میں‘ ایک نوجوان‘ جو قانون کی رُو سے گاڑی چلانے کا مجاز نہیں‘ نہ صرف قانون شکنی کرتے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا بلکہ اس کے ساتھ خرمستیاں بھی کر رہا تھا‘ جیسا کہ بیان کیا گیا کہ حادثے سے پہلے وڈیو بنا رہا تھا۔ ایسے واقعات میں اصل مجرم باپ یا سرپرست ہوتا ہے جس نے گاڑی دی‘ چلانے کا اذن دیا اور یوں اس دہرے قتل کے لیے اسباب فراہم کیے۔ اگر یہ جرم کسی قانون کے رکھوالے سے سرزد ہو تو اس کی سنگینی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ انصاف یہ ہے کہ سزا بھی جرم کی سنگینی کے مطابق ہو۔
ایسے جرائم میں حکومت بھی بالواسطہ شریک ہوتی ہے۔ یہاں اقتدار کسی پر مسلط نہیں کیا جاتا۔ سب اپنی خواہش سے حکمران بنتے ہیں۔ نہ صرف خواہش سے بلکہ اس کے حصول کے لیے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کرتے ہیں۔ اپنی مرضی سے پچیس کروڑ نفوس کے جان و مال کے تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں۔ وہ کل خدا کی عدالت میں یہ عذر پیش نہیں کر سکتے کہ وہ اس پر قادر نہ تھے کہ سب کی حفاظت کرتے۔ جواباً ان سے سوال ہو گا کہ جب قدرت نہیں تھی تو یہ ذمہ داری اٹھائی کیوں؟ یا یہ کہ عام آدمی کے جان و مال کو تحفظ دینے کے لیے کیا تم نے مقدور بھر کوشش کی؟ آخرت کا انحصار نتیجے پر نہیں‘ کوشش پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں باز پرس بھی اسی پر ہو گی۔ ایسی کوشش ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ لاپروائی ہے جو ہمارے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔
کراچی کے ابراہیم کا قاتل بھی یہ نظام ہے۔ آج نہیں‘ برسوں سے مین ہولز میں بچے گر رہے ہیں۔ اکثر جان سے جاتے ہیں۔ آپ نے وڈیو دیکھی ہوگی۔ دل ہلا دیتی ہے۔ کیسے ایک ہنستا کھیلتا بچہ‘ ہماری نظروں کے سامنے موت کی وادی میں اُتر جاتا ہے۔ یہ رانی پور کی فاطمہ ہو‘ اسلام آباد میں قتل ہونے والی ثمرین اور تابندہ ہوں‘ کراچی میں مارا جانے والا ابراہیم ہو یا آئے دن ڈمپر کے نیچے آ کر کچلے جانے والے شہری ہوں‘ ان سب کا خون اس نظام اور اس کے چلانے والوں پر ہے جنہوں نے اپنی ذمہ داری ادا کر نے میں کوتاہی برتی۔ انسانی قتل معمولی واقعہ نہیں۔ آسمان پر خدا اس کو معاف کرتا ہے نہ زمین پر خلقِ خدا کا ضمیر۔
اربابِ اقتدار کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ عوامی نفسیات پر ایسے واقعات گہرے نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ عام آدمی میں بے بسی کا احساس بڑھ جاتا ہے‘ یہاں تک کہ وہ قانون کی اہمیت کا انکار کر دیتا ہے۔ اسے وہ کردار پسند آتے ہیں جو قانون سے بے نیاز ظالموں کو للکارتے ہیں۔ سلطان راہی جیسے کرداروں کی پسندیدگی کے پس منظر میں عوام کی وہ بے بسی ہے جو اُن کی نظر میں قانون کے باغیوں کو ہیرو بناتی ہے۔ اگر انہیں یہ معلوم ہو کہ نظام ان کے حقوق کا محافظ ہے تو اس کے بارے میں ان کے جذبات بالکل مختلف ہوں۔ انقلاب کے تصور نے بھی اسی بے بسی سے جنم لیا۔ جمہوریت نے قانون کی حکمرانی کا تصور دیا۔ عام آدمی میں یہ یقین پیدا کیا کہ نظام انصاف دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی سبب سے ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب کو رد کیا گیا اور جمہوریت کو سیاسی اخلاقیات کا حصہ بنا لیا گیا۔ جہاں نظام انصاف نہیں دے سکتا وہاں لاقانونیت کو لائسنس مل جاتا ہے۔
نظام کی کامیابی کا ایک حد تک انحصار عوام پر بھی ہے۔ عوام کو سماجی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ نظام میں خرابیاں زیادہ ہوں تو عوام کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اسی ابراہیم کے معاملے کو دیکھ لیجئے۔ والدین ساتھ تھے مگر انہوں نے بچے کا ہاتھ نہیں تھاما۔ آپ کو معلوم ہے کہ شہر میں جگہ جگہ گٹر کھلے ہیں۔ اس ماحول میں تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح پولیس موٹر سائیکل والوں کو روک روک کر ہیلمٹ پہننے کی تلقین کرتی ہے مگر اس پر بھی پولیس ہی کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ انسانی جان خدا کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ اس کی حفاظت اگر نظام نہیں کرتا تو شہری خود کریں۔ ثمرین اور تابندہ کے المیے میں ڈرائیور کے والدین کی غفلت شامل ہے۔ وہ اس حادثے کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے بیٹے کو گاڑی تو لے دی مگر چلانے کے آداب نہیں سکھائے۔ جہاں تک ثمرین اور تابندہ کا معاملہ ہے تو ان کے قتل کی سو فیصد ذمہ داری نظام پر ہے۔
اس نظام کو عوام دوست بنانا‘ اربابِ اقتدار کی سب سے پہلی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ اس کے لیے جہاں بنیادی سہولتوں کی فراہمی ان کی پہلی ترجیح ہو وہاں قانون کی حکمرانی بھی ان کی ترجیحات میں سر فہرست ہو۔ عوام کے اعتماد کے لیے دونوں باتیں ایک جیسی اہمیت کی حامل ہیں۔ استحکام اسی وقت آئے گا جب لوگوں کا نظام پر اعتماد ہو گا۔ اگر کوئٹہ میں ٹریفک کانسٹیبل کو کچلنے والا کسی سزا کا مستحق نہ ٹھیرے‘ رانی پور کی فاطمہ کا قاتل اسی طرح آزاد پھرتا رہے‘ کراچی کے ابراہیم کی موت کے بعد بھی کراچی کے مین ہول کھلے رہیں اور اسلام آباد میں قتل کی جانے والی ثمرین اور تابندہ کے قاتل کو سزا نہ ملے تو پھر اربابِ اقتدار کو یہ گلہ نہیں کرنا چاہیے کہ عوام میں ہیجان کیوں ہے یا وہ قانون کا احترام کیوں نہیں کرتے۔ اس کے لیے سماج کے دیگر طبقات کو بھی حساس ہونا ہو گا کہ نظام کی کامیابی کا انحصار ان پر بھی ہے۔ اگر ظالموں کو وکیل میسر ہوں اور قانون انہیں شک کا فائدہ دے کر بے گناہ قرار دیتا رہے تو بھی نظام نہیں چل سکتا۔
اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔ اب تک انہوں نے صرف ریاست کو ترجیح بنایا ہے یا اپنے اقتدار کو۔ خدارا! عوام کو اپنی ترجیح بنائیں۔ پاکستان کو فلاحی مملکت بنائیں۔ فلاحی مملکت وہی ہوتی ہے جس میں پہلی ترجیح عوام ہوں۔ ثمرین اور تابندہ کا قتل ایک دفعہ پھر حکومت اور ریاست کو یہ موقع دے رہا ہے کہ وہ عوام میں اپنے لیے اعتماد پیدا کرے۔ عوام کو عمل سے یہ پیغام ملنا چاہیے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت اس کے نزدیک سب سے اہم ذمہ داری ہے۔ پھر میری طرح کا کالم نگار پیش گوئی کر سکے گا کہ مجرم کو ضرور سزا ملے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved