تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     05-12-2025

افواہیں اور خدشات

افواہوں پر کوئی زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی پھیلائی جانی چاہئیں‘ مگر جب وہ خبریں بن کر اخباروں کی سرخیوں اور مضامین میں ڈھل جائیں تو ان کی طرف دھیان نہ دینا اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے کے مترادف ہو گا۔ یوں لگتا ہے کہ سیاسی دیگوں میں ہمیشہ کی طرح کچھ پک ضرور رہا ہے‘ مگر ابھی اس پر ڈھکن برقرار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کی ڈش تیار ہو رہی ہو‘ مگر ابھی شاید یہ طے کرنا باقی ہو کہ بڑی پلیٹ کس کے ہاتھ میں ہو گی۔ ایسے گورنر راجوں کی پوری ایک تاریخ ہے‘ کسی بھی صوبے کو استثنا حاصل نہیں‘ اور سب میں ایک قدر مشترک رہی ہے۔ وہ یہ کہ وفاق میں حکومت جس بھی پارٹی کی تھی‘ اس کے مخالفین کسی صوبے میں اقتدار کی گدی پر متمکن تھے۔ ہمارے تمام جمہوری حکمران سیاسی مخالفین کے جمہوری‘ آئینی اور قانونی حقوق تسلیم کرنے میں کبھی فراخ دل تھے اور نہ اب ہیں۔ اقتدار کی مرکزیت‘ بندر بانٹ کی روایت اور طاقت برائے طاقت کے نشے نے اتنا مدہوش کردیا کہ کبھی اس پر غور بھی گوارا نہ کیا کہ نتائج کیا نکلیں گے۔ جو بھی نکلے وہ صرف اس صوبے کے لوگوں‘ پولیس اور فوج کے جوانوں کیلئے تھے جنہیں ردِ عمل کے طور پر اٹھنے والی مزاحمت‘ جو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں پُر تشدد تھی‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ گردش کرتی افواہوں کے پیشِ نظر تاریخ کا ایک ورق آپ کی نذر کرتے ہیں‘ اس امید کے ساتھ کہ شاید ملک کے اس دردناک دور کی طرف موجودہ ٹولہ نظر دوڑا سکے‘ اور جو مبینہ سازش بُنی جا رہی ہے‘ اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرے۔
12 مئی 1973ء کا دن ہے‘ اور ا س کے بعد کے واقعات ہمیں اب بھی یاد ہیں۔ 10 فروری کو عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد کیا گیا اور اکلوتے ٹی وی چینل پر اور ہنگامی حالات کے پیشِ نظر اخباری پابندیوں کے جبر میں قوم کو بار بار بتایا گیا کہ یہ اسلحہ‘ جس میں کچھ بندوقیں تھیں‘ بلوچستان کی علیحدگی کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ اس واقعے کو بہانہ بنا کر ہمارے پہلے عوامی وزیراعظم نے‘ جنہیں جمہوری کارناموں کی بدولت ان کی اپنی پارٹی نے انہیں فخرِ ایشیا کا لقب دیا‘ بلوچستان کی پہلی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ خیبرپختونخوا‘ جو اس وقت صوبہ سرحد تھا‘ میں جمعیت علمائے اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی مخلوط حکومت تھی اور مفتی محمود صاحب وزیراعلیٰ تھے۔ وفاقی حکومت کے اس اقدام کے سبب احتجاجاً انہوں نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ دونوں صوبوں میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ صوبہ سرحد میں اسلم خٹک کو گورنری کا تاج پہنایا گیا اور بلوچستان میں اقتدار بطور گورنر نواب سردار اکبر بگٹی کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد نواب صاحب بھی سبکدوش کر دیے گئے‘ اور میں ان سے ملاقات کے لیے لاہور کے ایک ہوٹل میں‘ جہاں وہ اکثر قیام پذیر ہوا کرتے تھے‘ ان کے ایک قریبی ساتھی کے ہمراہ چلا گیا۔ سیاسی باتیں ہوتی رہیں کہ دونوں صوبوں کے حالات بگڑ چکے تھے اور وہاں نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لیے تھے۔ اس تناظر میں نہ جانے سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی نواب صاحب سے سوال کر دیا کہ کیا ایک منتخب حکومت کو اس طرح ہٹانے کا کوئی آئینی جواز بنتا ہے؟ اب سوچتا ہوں کہ سوال بالکل غیرمناسب تھا‘ کیونکہ وہ تو اس عمل سے مستفیض ہوئے تھے۔ اس سے قبل‘ شنید ہے کہ کوئٹہ میں گڑبڑ پھیلانے میں ان کا ہاتھ تھا۔ نواب صاحب نے دھیمے انداز میں اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بارے میں یہ بتائیں گے۔ بات وہیں ختم ہو گئی۔
دونوں صوبوں میں گورنر راج لگانے کے بعد جو حالات وہاں پیدا ہوئے‘ اس کے اثرات آج تک ہمارے ملک کے اس اہم مغربی حصے سے مٹ نہیں سکے۔ دانش مندی‘ حکمت اور سیاسی برداشت کے جمہوری تقاضے کچھ اور ہیں جو ہمارے جاگیرداری معاشرے کی سیاسی ثقافت کے رنگ میں رنگی سیاسی اشرافیہ آج تک سمجھنے سے قاصر ہے۔ اب کچھ صنعتی اور معاشی ترقی بھی اس مزاج میں شامل ہو چکی ہے‘ اور ایک وسیع تر اتحاد حکمران اشرافیہ کے مختلف طبقات میں پیدا ہو چکا ہے۔ دیکھا نہیں کہ اب کس محبت‘ روا داری اور بھائی چارے کے رشتوں میں نواب شاہ اور رائیونڈ کے سیاسی گھرانے‘ نوکر شاہی اور بڑا کاروبار ی طبقہ منسلک ہیں۔ خیر سنا ہے کہ یہ کسی کی سرپرستی کا نتیجہ ہے‘ مگر ان سب کے مفادات کا جبر اور ایک بہت بڑے خوف نے ماضی کے سیاسی حریفوں کو آج حلیف بنا دیا ہے۔ گورنر راج اگر خیبرپختونخوا میں لگایا گیا تو پھر کُنڈی صاحب رہیں گے یا کوئی اور‘ جو بھی منتخب وزیراعلیٰ اور کابینہ کی جگہ لے گا‘ ظاہر ہے کہ وہ بہت بہادر ہو گا۔ وہاں جو ممکنہ ردِعمل ہو سکتا ہے‘ اس کا سامنا کرنا بہت دل گردے کا کام ہو گا۔ اس وقت آئینی رخنوں اور قانونی رکاوٹوں اور پیچیدگیوں وغیرہ کو کھاتے میں ڈال کر ہم وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے‘ کہ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا‘ اس کا ادراک تو دور کی بات ہے‘ خیال بھی نہیں۔ آگے پیچھے پھرتے خوشامدی اور کچھ وہاں حکومت گرانے کے بعد فیض حاصل کرنے کے متمنی تو ماضی میں دہرائی گئی باتیں ہی کریں گے‘ کہ جناب فکر نہ کریں‘ ہم سنبھال لیں گے۔
آج جس دور سے ہم اور ہمارا ملک گزر رہا ہے‘ ہم ایک نئے بحران کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے‘ افغانستان کے ساتھ سرحد اور تجارت بند ہے‘ جس سے دونوں طرف لاکھوں لوگوں کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی اور وفاقی حکومت مل کر چلیں‘ افہام و تفہیم سے کام لیں‘ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نوجوان‘ غیر روایتی سیاستدان اور نئی اُبھرتی ہوئی قیادت کے نمائندے ہیں۔ ان کی قدر کرنے اور انہیں احترام دینے کے بجائے انہیں تنقید کے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ انہیں اپنی جماعت کے بانی سے ملاقات کی اجازت سے بار بار انکار حکومت کے ارادوں کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے؟ کئی بار گوش گزار کرنے کی کوشش کی ہے کہ ملک میں نوجوانوں کے اندر عدم وابستگی کا رجحان بہت زیادہ ہے‘ اور سرحدی قبائلی اضلاع میں‘ جہاں سے آفریدی صاحب کا تعلق ہے‘ یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔ پورے صوبے کے حالات بگڑیں گے تو کوئی بھی غیرمنتخب حکومت‘ چاہے اس کے ہاتھ کتنے ہی مضبوط کیوں نہ کر دیے جائیں‘ استحکام پیدا نہیں کر سکے گی۔ اس صوبے کے حالات اگر سیاسی سازشوں کے نتیجے میں مزید بگڑے تو آپ خود ہی سوچیں‘ فائدہ دہشت گرد تنظیموں کو ہو گا جن کا مقابلہ صرف سیاسی یکجہتی سے بہتر طور پر کیا جا سکتا ہے۔ افواہیں بے شک افواہیں ہی ہوں‘ ملک میں بے چینی پیدا کرتی ہیں۔ اگر ایسی کوئی کھچڑی نہیں پک رہی اور چڑھی دیگوں کے اندر کچھ نہیں تو افواہوں کی آگ کا الاؤ وفاقی حکومت کو خود ہی بجھا دینا چاہیے۔ پتا نہیں ہم اپنے ماضی کے تلخ تجربوں سے کب سیکھیں گے کہ جہاں جس کی اکثریت ہے‘ وہاں اسے حکومت کرنے کا حق ہے‘ اور یہ حق انتخابات میں صرف عوام ہی واپس لے سکتے ہیں۔ جعلی فارموں والی بات ابھی ہم دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں کہ پھر تو سب کچھ جعلی ہو جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved