جس معاشرے سے مزاحمت کی روایت اٹھ جائے آپ اسے چلتے پھرتے انسانوں کا قبرستان بھی کہہ سکتے ہیں۔ انگریزی محاورے میں جسے Dead man walkingکہا جاتا ہے۔ اس کے دو معنی ہیں؛ ایک وہ فرد یا گروہ جو اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر موت سے لڑنے جا رہا ہو اور فیصلہ کر لے کہ اس راہ میں جان جاتی ہے تو جائے‘ کیونکہ یہ اجتماعی بقا کا راستہ ہے۔ اس کا دوسرا مطلب ہے سانس لینے والا ایک ایسا مردہ‘ جو بظاہر تو چلتا پھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہو مگر اس میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہ بچی ہو۔ فیض احمد فیض نے اسی نظریے سے متاثر ہوکر ''کتے‘‘ کے عنوان سے شاہکار تخلیق کیا۔ جس کا مطلع اور مقطع یہاں درج کر دینا موضوعِ سخن کو سیراب کرنے کیلئے کافی ہے۔
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی ریاست مخصوص زمین اور جغرافیے کے علاوہ دو مزید عناصر سے ترتیب پاتی ہے۔ ایک حاکم‘ دوسرے محکوم۔ طرزِ حکومت خواہ کوئی بھی ہو‘ ابتدائے آفرینش سے آج تک انسانی آبادی کی تقسیم 90 فیصد کیس سٹڈیز میں اسی طرح سے چلی آتی ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد اجتماعی تباہی اور ہلاکت کے جو نئے ٹُولز ایجاد ہوئے ان کی آمد نے حاکم کو مزید طاقتور اور محکوم طبقات کو پہلے سے زیادہ بے بس بنا دیا۔ ویسے بھی کچھ لوگ اتنے ''سپائن لیس‘‘ ہوتے ہیں کہ ان کو کھڑا کرنے کے لیے پیچھے پھٹّا جوڑنا پڑتا ہے‘ میخوں سمیت۔ مگر یہ بات طے ہے کہ کچھ دوسرے ہر دور میں اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر جینے کو فخرِ حیات سمجھتے ہیں۔ پولیٹکل سائنس میں ان کو مزاحمت کار کہا جاتا ہے۔ ایسے افراد اور گروہ اہلِ حَکم کے سامنے انکار اور تکرار کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ ساتھ ہی یہی مزاحمت کار جبر یا Status quoکے خلاف کھڑے ہونے کو شرفِ آدمیت بھی گردانتے ہیں۔ ان کے سکول آف تھاٹ اور ترقی پسند مزاحمت کار سوچ کو تھیوری آف ایمرجنسی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے‘ جس کے دوحصے ہیں۔ پہلا‘ If you allow the government to break the law for an emergency۔ دوسرا حصہ کہتا ہے They will create emergencies to break the law۔ یعنی جس سماج کے لوگ حکومت کو ''ایمرجنسی‘‘ کا ہَوّا دکھا کر قانون توڑنے کی اجازت دے دیتے ہیں وہاں ایمرجنسیاں تخلیق کرکے قانون توڑنے کا رواج سکہ رائج الوقت بن جاتا ہے۔ اس طرح کی ایمرجنسی اور قانون شکنی کی لاتعداد مثالیں آج بھی ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔
مزاحمت کے ذکر سے مجھے سربیائی نژاد یوگو سلاوین مزاحمت کار لڑکی Lepa Svetozara Radicیاد آتی ہے‘ جو نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھی۔ اسے 17 سال کی عمر میں جرمن فوجیوں پر گولی چلانے کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ یہ نومبر 1941ء کی بات ہے جب 15سالہ ریڈک کو اس کے خاندان کے دیگر ممبران کے ساتھ جرمن خفیہ اداروں نے گرفتار کیا۔ لیکن جرمن فوج میں اسے کچھ نظریاتی سپاہیوں کی مدد مل گئی؛ چنانچہ ریڈک اور اس کی بہن دارا‘ 23دسمبر 1941ء کو جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔ فرار کے بعد ریڈک نے مزاحمت کار گروپ کراجسکی میں شمولیت اختیار کر لی۔ گوریلا کارروائیوں میں ریڈک ایک فائر برانڈ‘ بے لوث اور انتہائی بے خوف گوریلا ثابت ہوئی۔ فروری 1943ء میں نیریٹوا کی لڑائی میں زخمی ہونے والے گوریلا اس کے حوالے تھے۔ اسی دوران اسے گرفتار کر کے پہلے غیر انسانی ظلم اور بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد ایک سمری فوجی ٹریبونل نے ریڈک کو پھانسی دے کر موت کی سزا سنا دی‘ کیونکہ اس نے اپنے گوریلا ساتھیوں‘ ان کے ٹھکانوں اور مزاحمت کاری کی تحریک کے بارے میں معلومات دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اسے بتایا گیا کہ ہم مذاق نہیں کر رہے‘ تمہیں پھندے سے لٹکا کر تھوڑی دیر میں پھانسی دے دی جائے گی۔ چنانچہ ریڈک کو پھانسی دینے کیلئے پول سے لٹکے ہوئے رسے کے نیچے لا کھڑا کیا گیا۔ ریڈک نے دار کی اس بلندی سے جرمن فوجیوں کو حقارت کے ساتھ دیکھا اور پھر اپنے قاتلوں سے پہلے اس نے پھندا خود پکڑ کر اپنے گلے میں ڈال لیا اور پھر جرمن فوجیوں کو للکار کر نعرہ لگایا 'کمیونسٹ پارٹی زندہ باد‘۔ ساتھ ہی چیخ مار کر کہا: آزادی کے مزاحمت کارو! لڑو۔ پھر حاضرین پر نگاہ ڈالی۔ ریڈک نے وہاں موجود لوگوں کو آواز دے کر کہا: اپنی آزادی کی جدوجہد میں کسی غلط دروازے کے سامنے ہتھیار مت ڈالنا‘ مجھے تھوڑی دیر میں ماردیا جائے گا‘ لیکن میرے لوگ ابھی زندہ ہیں۔ ریڈک نے دوسری بار اپنے قاتلوں کو مخاطب کر کے کہا: سنو! تم پوچھ رہے تھے وہ کون لوگ ہیں‘ اس کا تمہیں جلد ہی اس وقت پتا چلے گا جب میرے مزاحمت کار ساتھی‘ میرے دوست میرا بدلہ لینے آئیں گے۔ اس کے بعد بھی خفیہ پناہ گاہوں‘ مزاحمت کے لیڈروں اور پناہ گزیروں کے نام ظاہر کرنے کے بدلے ریڈک کو جان بچانے کی پیشکش کی گئی۔ لیکن اس نے ان تاریخ ساز لفظوں میں یہ ڈیل مسترد کر دی ''میں اپنے لوگوں کی غدار نہیں ہوں۔ جن کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو وہ سب اپنا آپ تمہارے سامنے ضرور ظاہر کریں گے۔ تب‘ جب وہ تم سے لڑ کر کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔ صرف 17 سال کی عمر میں اس سربیائی گوریلا مزاحمت کار کو پھانسی دے دی گئی۔ ریڈک کی پھانسی کے مقام پر اس کا مجسمہ اور جدوجہدِ آزادی کی داستان آج بھی جَلی لفظوں میں موجود ہے۔ ریڈک کو 1951ء میں آرڈر آف دی پیپلز ہیرو جیسے بڑے اعزار سے نوازا گیا۔
پھر ہم لہندے پنجاب کے ہیرو بھگت سنگھ کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ تاریخ کا یہ سبق یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مزاحمت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک آواز‘ احتجاج‘ اجتماع‘ جلسہ‘ جلوس اور ریلی کے ذریعے۔ یہ سارے بنیادی حقوق ہیں جو گلوبل ویلیج کے سارے شہریوں کو حاصل ہیں۔ تاریخ کا ایک دوسرا سبق بھی ہے‘ جہاں مزاحمت کے یہ سارے راستے بند کر دیے جائیں وہاں بھی لوگوں کی آواز نہ بند ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کی سوچ کو قید کیا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ بھی طے شدہ قانونِ فطرت ہے کہ ہوا‘ پانی اور انسانی سوچ اپنا راستہ تلاش کر کے رہتی ہے۔ تاریخ کا یہ سبق صلائے عام ہے۔ مزاحمت ایک عالمی استعارہ ہے۔ تاریخ کے اسی سبق کو ساحر لدھیانوی نے ''مگر ظلم کے خلاف‘‘ کے عنوان سے یوں بیان کیا:
پھلتی نہیں ہے شاخِ ستم اس زمین پر
تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے
کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے
جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے گی صبحِ امن لہو رنگ ہی سہی
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved