گزشتہ ماہ پاکستان سفارتی محاذ پر غیرمعمولی طور پر فعال رہا۔ وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کیلئے وزیراعظم شہباز شریف نے آذربائیجان کے وکٹری ڈے پر باکو کا دورہ کیا۔ اس دورے میں دونوں ملکوں میں تجارت اور سرمایہ کاری کے علاوہ دفاع اور سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر بات چیت ہوئی۔ نومبر ہی میں افغانستان کے ساتھ تنازع طے کرنے کیلئے ترکیہ کی دعوت پر استنبول میں طالبان کے وفد کے ساتھ مذاکرات کا تیسرا دور ہوا‘ جو بغیر کسی پیش رفت کے اختتام پذیر ہوا۔ نومبر کے اوائل میں جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ ممالک کے نمائندوں نے اسلام آباد میں وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری قیصر احمد شیخ سے ملاقات کی جس میں پاکستان اور سارک کے رکن ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کیلئے ضروری اقدامات پر بات چیت ہوئی۔ معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے پاکستان کے ان دونوں اہم خطوں کے ساتھ قریبی تعلقات اہم ہیں اور خطے میں امن اور سلامتی کے فروغ کیلئے بھی ان کے ساتھ مسلسل رابطہ ضروری ہے۔
نومبر میں پاکستان کی سفارتی سرگرمیوں کا محور مشرق وسطیٰ رہا ہے۔ مثلاً نومبر کے آغاز میں ترکیہ کی میزبانی میں استنبول میں مسلم ممالک جن میں قطر‘ سعودی عرب‘ یو اے ای‘ اردن‘ پاکستان‘ مصر اور انڈونیشیا شامل تھے‘ کی ایک اہم کانفرنس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔ اس کانفرنس کے پلیٹ فارم سے مطالبہ کیا گیا کہ صدر ٹرمپ کے 20نکاتی منصوبے میں غزہ میں امن و امان اور بحالی کے کام کی نگرانی کیلئے تجویز کردہ بین الاقوامی امن فورس کے مینڈیٹ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری لازمی ہونی چاہیے تاکہ اس فورس کو ایک قانونی بنیاد فراہم کی جا سکے۔ اس کے علاوہ اس مینڈیٹ کی تفصیلات طے کرتے وقت یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس کا مقصد امن کا قیام ہے نہ کہ امن کا نفاذ۔ ان آٹھ ملکوں کے دو ٹوک مؤقف کی وجہ سے امریکی صدر کو اپنے منصوبے کی قانونی حیثیت حاصل کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف رجوع کرنا پڑا‘ جس نے امریکی مسودے کو ایک قرارداد کی شکل میں 17 نومبر کو منظور کر لیا۔ اس قرارداد کو سلامتی کونسل کے دس غیرمستقل اور تین مستقل ممبران کی حمایت حاصل تھی۔ تاہم دو مستقل ارکان (روس اور چین) نے اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے تائید حاصل کرنے کے بعد غزہ میں مستقل جنگ بندی‘ امن‘ استحکام اور تعمیر نو کے خواہش مند تمام سٹیک ہولڈرز نے باہمی مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کو اس مشاورت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ نومبر کے وسط میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور ان کے بعد 24 نومبر کو ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی کی پاکستان میں آمد اور ملک کی اہم سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقات اور مشاورت اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس سے پہلے اگست میں ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ ایرانی مہمانوں کے ساتھ پاکستانی حکام کی بات چیت میں اگرچہ دوطرفہ تعلقات خصوصاً باہمی تجارت کے فروغ پر فوکس رہا‘ مگر مشرقِ وسطیٰ بشمول غزہ کی صورتحال پر بھی دونوں ملکوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر کو بیان کیا۔ ایران اُن آٹھ مسلم اور عرب ممالک میں شامل نہیں جنہوں نے صدر ٹرمپ کے غزہ کے بارے میں سمجھوتے کی حمایت کی ہے‘ مگر بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ کی وجہ سے ایران پاکستان کی حمایت کا خواہش مند ہے۔
مصری وزیر خارجہ نے 29اور 30نومبر کو ایسے وقت پر پاکستان کا دورہ کیا ہے‘ جب اقوام متحدہ کی طرف سے منظوری کے باوجود غزہ کے بارے میں صدر ٹرمپ کے منصوبے پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹیں موجود ہیں۔ ان رکاوٹوں کا تعلق غزہ میں امن و امان اور سکیورٹی کیلئے مجوزہ بین الاقوامی امن فورس کے مینڈیٹ سے ہے جس پر ایک طرف امریکہ اور اسرائیل اور دوسری طرف مسلم ملکوں میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے مطابق بین الاقوامی امن فورس کے مینڈیٹ میں حماس کو غیرمسلح کرنا بھی شامل ہے جبکہ مسلم ممالک کے گروپ میں شامل پاکستان اور دیگر اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایک بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنا امن فوج کا کام نہیں۔ امن فوج کا کام صرف غزہ کی سرحدوں کی حفاظت اور اندرونی امن و امان کا قیام ہے۔ اس خدشے کے پیشِ نظر کہ امریکہ اور اسرائیل بین الاقوامی امن فوج کے ذریعے حماس اور فلسطینیوں کو کچلنا چاہتے ہیں‘ قطر‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امن فوج میں اپنے دستے شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انڈونیشیا‘ جس نے ابتدا میں امن فوج میں 20 ہزار فوجی جوان شامل کرنے کی پیشکش کی تھی‘ اب صرف 1200 جوان بھیجنے پر راضی ہے۔ اسی طرح آذربائیجان نے بھی اپنی پیشکش واپس لے لی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق غزہ کے بارے میں صدر ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ بین الاقوامی امن فورس پر اختلافِ رائے کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ چونکہ منصوبے پر عمل درآمد میں مصر کو ایک کلیدی کردار دیا گیا ہے‘ اس لیے مصر کے وزیر خارجہ نے پاکستانی حکام سے صلاح مشورہ کرنا ضروری سمجھا اور ان کے حالیہ دورۂ پاکستان کا یہ سب سے بڑا مقصود تھا۔ پاکستان کے دورے کے آغاز پر مصر کے وزیر خارجہ نے ایک بیان میں اپنے ملک کے مؤقف کو واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ مصر کی نظر میں بھی بین الاقوامی امن فورس کا سب سے اہم مقصد جنگ بندی کی نگرانی ہے تاکہ منصوبے کے مطابق فریقین نے جن شرائط کو پورا کرنے کیلئے وعدہ کیا ہے‘ وہ پورا کر سکیں۔ ساتھ ہی انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ غزہ میں تعمیر نو اور بحالی کے کام میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کیلئے تیار رہے۔ پاکستان تحفظات کے باوجود بین الاقوامی امن فورس میں اپنے فوجی دستے بھیجنے کیلئے تیار ہے۔ اس کا اعلان وزیر خارجہ اسحاق ڈار کر چکے ہیں‘ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس گروپ میں شامل باقی ممالک اپنے فوجی دستوں کو بھیجنے سے بدستور گریزاں رہے تو پاکستان کا ردِعمل کیا ہو گا؟ کیا پاکستان اکیلا مصر کے ساتھ مل کر بین الاقوامی امن فورس کے فرائض سرانجام دے گا؟ مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کو ایک دفعہ پھر ایسی صورتحال کا سامنا ہے‘ جہاں اس کا فیصلہ نہ صرف اس کے اپنے سٹرٹیجک مفادات بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے پورے خطے کی سلامتی اور استحکام کیلئے دوررس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
آج سے 70برس قبل 1955ء میں امریکی سرپرستی میں قائم کردہ معاہدہ بغداد جس میں ترکی‘ ایران اور عراق کے علاوہ برطانیہ اور فرانس بھی شامل تھے‘ میں شمولیت کیلئے پاکستان کو دباؤ کا سامنا تھا۔ یہ معاہدہ جو 1958ء میں عراق سے نکل جانے کے بعد ''سینٹو‘‘ کے نام سے مشہور ہوا‘ عرب دنیا میں اتنا غیر مقبول تھا کہ عراق کے علاوہ کسی عرب ملک نے اس میں شمولیت کی ہامی نہیں بھری حالانکہ ان دنوں بھی اردن اور سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ انتہائی دوستانہ تعلقات تھے۔ خود امریکہ نے اس معاہدے کا روحِ رواں ہونے کے باوجود اس میں پوری طرح شرکت نہیں کی بلکہ اس نے اس کی ملٹری کمیٹی کا رکن بننے پر اکتفا کیا‘ مگر پاکستان‘ جو اس سے قبل ''سیٹو‘‘ (1954ء) میں شامل ہو کر سرد جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن چکا تھا‘ نے اس میں شمولیت اختیار کر لی‘ مگر عرب دنیا کی طرح پاکستان میں بھی یہ معاہدہ انتہائی غیر مقبول تھا۔ امریکہ نے یہ معاہدہ اسرائیل کے تحفظ کیلئے عرب قوم پرستی کی اُبھرتی ہوئی لہر کے آگے بند باندھنے کیلئے قائم کیا تھا۔ اس معاہدے میں شمولیت سے پاکستان نے 1947ء میں فلسطین کے مسئلے پر عرب دنیا میں جو مقام اور خیرسگالی حاصل کی تھی‘ وہ ختم ہو گئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved