جج صاحب نے اپنے فیصلے میں ایک مقدمے کے سماجی پہلو پر کیوں کلام کیا؟ بحث کا بازار گرم ہے اور حسبِ روایت لوگ دو گروہوں میں منقسم ہیں۔
شہروں کا ماحول بدل رہا ہے۔ مجھ جیسے گوشہ نشینوں کو‘ جو سورج ڈھلنے کے ساتھ گھر کا رخ کرتے ہیں‘ اس کا پوری طرح ادراک نہیں ہے۔ لوگ کہانیاں سناتے ہیں تو ہم انگلیاں دانتوں میں داب لیتے ہیں۔ کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پردہ کچھ دیر کیلئے اُٹھ جاتا ہے۔ جیسے اسلام آباد میں نور مقدم کا قتل۔ جیسے ڈیفنس لاہور میں احمد جاوید نام کے ایک نوجوان کا قتل۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے شہری کلچر کے رنگ ڈھنگ کیا ہیں۔ ہم جیسوں کیلئے ایسا واقعہ ایک خبر ہوتی ہے اور ہم چونک اٹھتے ہیں۔ دوستوں کی مجلس میں ذکر ہو تو انہیں اس حیرت پر حیرت ہوتی ہے۔ وہ عینی شہادتوں پر مبنی مزید واقعات سنا دیتے ہیں۔ ہماری انگلیاں دانتوں میں دبی رہ جاتی ہیں۔
کچھ دیر سوچا تو اندازہ ہوا کہ ہماری حیرت کا باعث ہماری لاعلمی ہے۔ ہم نے شہروں کی تاریخ اور ماحول پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ شہروں کا کلچرعام طور پر روایتی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے زمانے کے لحاظ سے ہمیشہ 'جدید‘ رہا ہے۔ لوگ پچاس برس پہلے کے کراچی کو یاد کرتے اور اشک بہاتے ہیں۔ کراچی اُس دور کا جدید شہر تھا۔ صدیوں پہلے بغداد بھی جدید تھا اور پھر قرطبہ بھی۔ بغدادکی سڑکیں اور قرطبہ کے حمام آج بھی اس عہد کے ترقی یافتہ کلچر کی جھلکیاں دکھا رہے ہیں۔ قرطبہ کی مسجد بھی اس کلچر کی نمائندہ ہے۔ پھر بادشاہوں کے محلات بھی ہیں۔ بغداد کے تعلیمی ادارے بھی اس دور کی ترقی کو بیان کر رہے ہیں۔
کراچی اپنے دور میں ویسا ہی تھا جیسے دنیا کا کوئی ترقی یافتہ شہر ہوتا ہے۔ 'ترقی‘ کیا ہے؟ اس کی تعریف وہی ہوتی ہے جو غالب نظامِ اقدارکرتا ہے۔ جب ہماری تہذیب غالب تھی تو ترقی اس عمل کو کہتے تھے جو ہمارے نزدیک ترقی ہوتی تھی۔ جب مغربی تہذیب غالب آئی تو پھر ترقی کی وہی تعریف رائج ہو گئی جسے مغرب ترقی کہتا ہے۔ کراچی کی ترقی کا معیار یہ تھا کہ وہ لندن اور پیرس سے کتنا قریب ہے۔ تیونس میں شہر کی سب سے خوبصورت شاہراہ‘ پیرس کی شانزے لیزے کی نقل ہے۔ یہاں لوگ جس کراچی کا ذکر حسرت آمیز لہجے میں کرتے ہیں‘ اس کراچی میں اور بمبئی میں کوئی فرق نہ تھا۔ آج کا استنبول اور کوالالمپور بھی اسی طرح کے ہیں۔ گلوبلائزیشن کی وجہ سے اب غالب تہذیب کی اثر پذیری میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
شہر ہمیشہ دیہات سے مختلف رہے ہیں۔ شہر اگر 'جدیدیت‘ کی نمائندگی کرتے تھے تو دیہات روایت کی علامت تھے۔ صنعتی انقلاب کے بعد شہروں کا کلچر بالکل بدل گیا۔ اس سے پہلے بھی شہر تجارت کے بڑے مراکز ہوتے تھے اور اسی نسبت سے سہولتوں سے بھی آراستہ ہوتے تھے۔ اگر ہوٹل نہ تھے تو سرائے تھے۔ اسی طرح قحبہ خانے بھی تھے اور شراب خانے بھی۔ یہ سب اس لیے تھا کہ تاجروں کیلئے باعثِ کشش ہو۔ ان کی ضرویات پوری ہوتی رہیں۔ فقہ میں بعض لوگوں نے نکاح کی ایک اور صورت متعارف کرائی جو مسافروں کیلئے خاص ہے۔ صنعتی انقلاب نے سہولتوں میں نہ صرف اضافہ کیا بلکہ ان کے خدوخال بھی بدل ڈالے۔ باہر سے آنے والے اپنے کلچر کے ساتھ آئے۔ یوں میٹرو پولیٹن کلچر پیدا ہوا۔ اب مغربی شہروں میں مشرق کے کھانے میسر آ گئے۔ شہروں کو زیادہ آراستہ کیا جانے لگا تاکہ باہر سے امرا اور صاحبانِ وسائل کو متوجہ کریں اور وہ زیادہ سرمایہ خرچ کریں۔ صنعتی انقلاب چونکہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کا حصہ ہے اس لیے یہ تمام تر سرمایے کا کھیل بن گیا۔
شہروں کا کلچر اب عالمگیر کلچر ہے۔ دنیا کے تمام بڑے شہر دیکھنے میں ایک جیسے ہیں۔ ترقی کا جدید تصور‘ ترقی یافتہ انفراسٹرکچر کے بغیر واقعہ نہیں بن سکتا۔ ترقی یافتہ شہر اس کی ناگزیر ضرورت ہیں جس کے بغیر سرمایے کو متوجہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آپ کے پاس تمام سہولتوں کے حامل جدید سات ستارہ ہوٹل نہیں ہیں تو دنیا کی نظر میں آپ اس قابل نہیں ہیں کہ کسی بین الاقوامی تقریب کی میزبانی کر سکیں۔ قطر نے عالمی فٹ بال کپ کا اہتمام کیا تو اربوں روپے لگا کر ایک انفراسٹرکچر بنایا۔ 1974ء میں جب لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس ہوئی تو ہمارے پاس کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں مہمانوں کو ٹھیرایا جا سکے۔ شاہ فیصل کے قیام کیلئے معروف اداکار محمد علی کی کوٹھی مستعار لی گئی جو اس وقت لاہور میں اعلیٰ رہائش گاہ شمار ہوتی تھی۔
شہری کلچر کے بعض لوازم ایسے ہیں‘ ہمارا نظامِ اقدار جنہیں قبول نہیں کرتا۔ ہمارے ملک کا طبقہ امرا جدید آسائشوں سے لطف اٹھانے کیلئے دوسرے ممالک کا رخ کرتا ہے۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ اسے یہ سب کچھ یہاں بھی میسر ہو۔ یوں عالمگیرکلچر کا حصہ ہونے کی بنا پر جن ضروریات نے جنم لیا‘ مقامی لوگوں کی خواہشات بھی ان میں شامل ہو گئیں۔ ہماری حکومتوں کے پاس اب دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ اعلانیہ اس کلچر کو قبول کر لیں۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ لوگ صدائے احتجاج بلند کرتے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ پسِ پردہ ان سرگرمیوں کو گوارا کیا جائے جو اس کلچر کا حصہ ہیں۔ اس راستے کو اختیار کر لیا گیا۔ اب بڑے شہرں میں ایسے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں وہ سب کچھ روا ہے‘ قانون یا ہماری اخلاقی روایات جس کی اجازت نہیں دیتے۔ قانون دانستہ ان سرگرمیوں سے صرفِ نظر کرتا ہے۔ اگر کبھی حرکت میں آئے تو یہاں ایسا فعال طبقہ موجود ہے جو اس کا اعلانیہ دفاع کرتا ہے۔
اشرافیہ نے اس کلچر کو شعوری سطح پر قبول کر لیا ہے۔ اب نجی سطح پر وہ سب کچھ ہوتا ہے جو کسی دور میں کراچی کے ہوٹلوں میں ہوتا تھا۔ ہوٹل کی جگہ فارم ہاؤسز اور ذاتی گھروں نے لے لی ہے۔ جب نور مقدم جیسا کوئی حادثہ ہوتا ہے تو مجھ جیسے بے خبروں کو بھی اس کلچر کی بھنک پڑ جاتی ہے۔ اب یہ کلچر خواص تک محدود نہیں رہا۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ متوسط اور اس سے کم تر طبقات کے لڑکے اور لڑکیاں اس کا ایندھن بنتے جا رہے ہیں۔ شہروں کے موجودہ سماجی نظام میں ایسے چور دروازے موجود ہیں جو ان طبقات کے نوجوانوں کیلئے کھول دیے گئے ہیں۔ ٹی وی ڈراموں اور سوشل میڈیا نے اس سارے عمل کو بہت سہل بنا دیا ہے۔
تجربہ یہ ہے کہ جس برائی کو اعلانیہ واقعہ بننے سے روکا گیا‘ اس نے اپنے لیے خفیہ ٹھکانے تلاش کر لیے۔ سوشل میڈیا نے اب شہری اور دیہی کلچر کا فرق بھی کم کر دیا ہے۔ اس لیے اس معاملے کی سنگینی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جج صاحب نے جو بات کہی ہے‘ اس پر اس پہلو سے تو بات ہو سکتی ہے کہ عدالتی فیصلے اس کے متحمل ہو سکتے ہیں یا نہیں‘ ہمیں اُس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے جو انہوں نے اٹھائی۔ فرض کیجیے کہ یہ بات کسی ایسے فرد نے کہی ہے جو عدالت کا جج نہیں ہے۔ اس پر ہمارا ردِعمل کیا ہو گا؟ اصل سوال یہ ہے کہ یہ کلچر ہمارے نظامِ اقدار کے لیے کیا چیلنج بن گیا ہے؟ کیا اسے بالقوت روکا جا سکتا ہے؟ ایسے مسائل کا حل شعوری تربیت ہے یا طاقت کا استعمال؟
یہ آسان سوالات نہیں ہیں۔ ریاست کا جبر اور قانون سازی بے نتیجہ رہی۔ ملک کو پولیس سٹیٹ بھی نہیں بنایا جا سکتا۔ اور اگر اخلاقی اعتبار سے غیر تربیت یافتہ پولیس کے ساتھ کوئی کوشش کی گئی تو وہ کرپشن کے نئے دروازے کھول دے گی۔ جج صاحب پر تنقید ضرور کی جائے لیکن ساتھ ہی ان سوالات کے جواب بھی تلاش کیے جائیں۔ شہر تو شہر اب دیہات بھی ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved