میرا ایک دوست اعداد و شمار کا بادشاہ ہے‘ پہلے کسی موضوع پر اعداد و شمار کا پورا خزانہ اکٹھا کرے گا اور پھر اپنا سارا جمع جتھا فریقِ ثانی پر انڈیل کر اسے لا جواب کر دے گا۔ وہ یہ کام کسی علمی حوالے سے نہیں کرتا‘ محض دوسروں کو اپنے اعداد و شمار سے بے دست و پا کرنے اور ان پر اپنے علم کا رعب ڈالنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے سامنے شکست خوردہ دیکھنے کے شوق میں کرتا ہے۔ میں پہلے پہل اس کے حسابی کتابی قسم کے علم کو اس کا شوق اور لگن سمجھتا تھا اور اس کا معترف ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے متاثر بھی تھا کہ وہ اس گئے گزرے دور میں کتاب سے نہ سہی انٹرنیٹ سے ہی سہی‘ کم از کم حرف و اعداد سے جڑا ہوا تو ہے۔ تاہم بعد میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ یہ کام اپنے علم میں اضافے کیلئے نہیں بلکہ دوسروں کو محفل میں اپنے اعداد و شمار سے لاجواب اور خوار کرنے کیلئے کرتا ہے۔جب اس نے اپنا یہی نسخہ دوچار بار مجھ پر آزمایا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ محض دوسرے کو خوار و خستہ کرنے کیلئے یہ حرکت کرتا ہے۔ پکڑا اس طرح گیا کہ پہلے اس نے ایک موضوع پر ایک دوست کو اپنے علم سے زیر کیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد ایک اور دوست کو پھنسایا اور اسے کسی نہ کسی طرح گھیر گھار کر اسی موضوع پر لے آیا۔ بظاہر اس موضوع کا جاری گفتگو سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر وہ بہرحال بات کو گھما پھرا کر بڑی چالاکی سے اسی طرف لے آیا اور پھر اپنے عددی توپ خانے سے فریقِ ثانی کی دھجیاں اڑائیں اور اگلے روز ایک اور محفل میں بھی یہی کیا۔ تب مجھے سمجھ آئی کہ ہمارے اس عالم و فاضل مہربان دوست کا طریقۂ واردات کیا ہے۔
میں کچھ عرصہ قبل اپنے ایک یونیورسٹی کے دوست کے بی خان کا واقعہ لکھ چکا ہوں کہ وہ کس طرح ڈکشنری سے کوئی انتہائی مشکل‘ عمومی طور پر غیرمستعمل اور متروک قسم کا انگریزی کا لفظ یاد کرکے آ جاتا اور اپنی ایک خاتون ٹیچر کو مشکل میں ڈال دیتا۔ اسی طرح یہ دوست بھی دوسروں کو کم علم بلکہ جاہل ثابت کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتا ہے۔ کسی مشکل سے موضوع پر تھوڑا بہت پڑھ کر آ جاتا اور آپ کو اس موضوع پر اپنے کچے پکے علم سے رگڑنا شروع کر دیتا۔ ایک روز تنگ آکر میں نے اس کا یہ حربہ اسی پر آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ایک روز فون پر گفتگو کے دوران اچانک ہی پوچھنے لگا کہ کیا آپ نے کبھی قدیم عرب شاعر ابو نواس کو پڑھا ہے؟ میں نے کہا: میں نے ابو نواس کا نام بھی سنا ہے اور اس سے منسوب ایک واقعہ اپنے کالم کی زینت بھی بنا چکا ہوں مگر بدقسمتی سے عربی زبان سے نابلد ہونے کی نالائقی نے کلاسیکی عربی شاعری کے اس نابغہ روزگار شاعر کے کلام سے محروم رکھا ہے۔ پھر وہ کہنے لگا کہ دراصل میں آج کل عصرِ جاہلیت سے لے کر عباسی دور تک کے عرب شعراء کو پڑھ رہا ہوں۔ ویسے آپ نے اگر عربی شاعری نہیں پڑھی تو سمجھیں آپ نے شاعری ہی نہیں پڑھی۔ آپ کو عربی شاعری ضرور پڑھنی چاہیے۔ اب مجھے خدا جانے کیا سوجھی کہ میں نے اپنے اس دوست سے کہا: جیسا کہ آپ کو علم ہے مجھے عربی نہیں آتی تاہم میں نے کل محی الدین المغربی کی شاعری کا ترجمہ پڑھا ہے۔ پڑھ کرواقعی اندازہ ہوا کہ قدیم عربی شاعری میں جو فصاحت و بلاغت ہے وہ اردو یا فارسی شاعری میں ناپید ہے۔ وہ دوست کہنے لگا: ہاں! آپ درست کہہ رہے ہیں‘ تاہم اگر آپ نے المغربی کی عربی شاعری اس کے اصل ٹیکسٹ میں پڑھی ہوتی تو آپ کو اور بھی مزہ آتا‘ میں نے خود اس کی عربی شاعری پڑھی ہے مگر آپ کو عربی نہیں آتی۔ آپ شاعری اور علم کے بہت بڑے خزانے سے محروم رہ گئے ہیں۔
جب اس نے اپنی گفتگو میں تھوڑا وقفہ لیا تو میں نے کہا: بندہ عموماً اپنی غلط بیانی اور جھوٹ پر شرمندہ ہوتا ہے تاہم میں اس سلسلے میں کسی شرمندگی یا معذرت کے بغیر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میرا بیان کردہ عربی شاعر محی الدین المغربی ہرگز عربی شاعر نہیں ہے اور نہ صرف یہ کہ یہ شاعر نہیں بلکہ سرے سے ادیب ہی نہیں ہے۔ یہ ہسپانیہ کا مسلمان ہیئت دان‘ منجم اور ریاضی دان تھا۔ جواباً میرے اس دوست نے فون بند کردیا۔ مجھے اس پر پطرس بخاری کا مضمون ''میبل اور میں‘‘ بڑی شدت سے یاد آیا۔
اگر آپ نے مطالعہ اپنے شوق کی تکمیل‘ اپنے علم میں اضافے اور مخلوقِ خدا کی بہتری اور رہنمائی کیلئے کیا ہے تو وہ باعثِ برکت بھی ہے اور بھلائی کا سبب بھی ہے۔ لیکن اگر آپ کا مطلق علم تکبر‘ بڑائی اور خودنمائی کیلئے ہے تو یہ سب نہ صرف بیکار ہے بلکہ محض دکھاوا اور کھوکھلا پن ہے۔ میں صاحبانِ علم کی بات نہیں کرتا مگر ہم جیسے کچے پکے علم کے مالک لوگ اپنے تھوڑے سے مطالعے اور ادھورے علم کو دوسروں کو شرمندہ کرنے اور بحث میں ہرانے کیلئے استعمال کرنے کے علاوہ اور کسی کام میں نہیں لاتے۔ کسی چیز کا علم ہو یا نہ ہو‘ ہم اس کے بارے میں اپنے تبحر علمی کا دعویٰ ضرور کریں گے جبکہ حقیقی علم رکھنے والے اپنے مطالعے اور علم کو تلوار بنا کر دوسروں کو مضروب کرنے کے بجائے اسے خیر اور بھلائی کا ذریعہ بناتے ہیں۔
ڈاکٹر خورشید رضوی‘ ڈاکٹر ریاض مجید اور ان جیسے دیگر لوگوں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھیں تو وہ آپ کو جہالت کی سند عطا کیے بغیر اپنے علم سے اس طرح مستفید کرتے ہیں کہ احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اس نشست کے علاوہ باقی سارا دن بیکار کاموں میں گزار دیا ہے۔ حضرت امام مالکؒ بن انس سے منقول ہے کہ انہوں نے بہت سے سوالات کے جواب میں فرمایا ''لا ادری‘‘ (میں نہیں جانتا) اور کہا کہ جو عالم ''لا ادری‘‘ کہنا سیکھ لیتا ہے وہ علم میں پختہ ہے۔ اسی طرح عامر بن شراحیل الشعبی کی نسبت سے ایک قول مشہور ہے کہ ''لا ادری نصف العلم‘‘ آدھا علم یہ ہے کہ میں نہیں جانتا۔ لیکن ہمارے معاشرے میں مستثنیات کے علاوہ ہر پڑھا لکھا عمومی طور پر اور سیاسی و غیرسیاسی اشرافیہ خاص طور پر اپنے علم مطلق کے زعم میں مبتلا ہے۔
ایک اور دوست ہیں۔ خاصے صاحبِ مطالعہ ہیں اور اپنا زیادہ تر وقت پڑھنے میں صرف کرتے ہیں لیکن اس مطالعے کے خنجر سے ہمہ وقت کسی نہ کسی کو زخمی کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ جب بھی ان سے ملنے گیا ان کے بستر کے سرہانے کتابوں کے علاوہ اور کوئی چیز کم ہی دکھائی دی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ یہ کتابیں اپنے سرہانے رکھتے ہی نہیں‘ پڑھتے بھی ہیں۔ لیکن وہ مجھ جیسے کم علم دوستوں کو اپنے علم کی زکوٰۃ سے بہرہ مند فرمانے کے بجائے انہیں اپنے مطالعے اور علم کی نوک پر چڑھائے رکھتے ہیں۔ ایک روز ملنے گیا تو ہر دو منٹ کی گفتگو کے بعد اپنے پسندیدہ جملے کا استعمال کرتے ہوئے پوچھتے کہ آپ فلاں کو جانتے ہیں؟ جواب دیا کہ نہیں۔ پھر چند منٹ گفتگو کے بعد پوچھنے لگے کہ آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے۔ جواب دیا کہ ابھی تک اتفاق نہیں ہوا۔ پھر تھوڑی دیر بعد پوچھنے لگے: فلاں عربی مفکر کا مطالعہ کیا ہے؟ میں نے تنگ آکر کہا کہ آپ مجھ پر اپنے علم کا دروازہ اگر میرے اعترافِ جہالت کے بغیر کھول دیں تو عنایت ہو گی۔ میری کم علمی کو آشکار کیے بغیر اگر اپنے علم کی ندی سے چند جرعے عطا کر دیں تو بڑی نوازش ہو گی وگرنہ میں بھی آپ سے پوچھنا شروع کر دوں گا کہ کیا آپ ایمل زٹویک کو جانتے ہیں؟ آپ کو پاوو جے نورمی کے متعلق کچھ علم ہے یا آپ ابیب بیکلا کے 1960ء اولمپک کارنامے سے واقف ہیں؟ جواباً وہ صاحب ایسے خاموش ہوئے کہ مجھے ان کی خجالت سے زیادہ اپنی کمینگی پر لطف آ گیا۔
گھر واپس آکر مالک سے معافی مانگی اور دعا کی کہ وہ اس کم علم پر اپنا کرم کرے اور پھر رسول اکرمﷺ کی علم بارے دعا یاد آ گئی۔ اے اللہ! جو علم تو نے مجھ کو دیا ہے اس سے مجھے نفع دے اور مجھے وہ علم سکھا جو میرے لیے نفع بخش ہو اور میرے علم میں اضافہ فرما۔ اس دعا میں نفع سے مراد بھلائی اور نیکی ہے۔ سورۃ طہٰ میں فرمان الٰہی ہے ''رب زدنی علما‘‘ اے رب! میرے علم میں اضافہ فرما دے۔ یہ واحد دعا ہے جو اللہ نے اپنے پیارے نبیﷺ کو حکم کے ساتھ سکھائی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved