تحریر : افتخار احمد سندھو تاریخ اشاعت     06-12-2025

سسٹم کی خرابی کی جڑ

دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہم وہیں کھڑے ہیں بلکہ پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ اشرافیہ کا وسائل پر قبضہ پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے۔ اشرافیہ میں شامل طبقات اس ملک اور اس کے اداروں کو کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ یہ طبقات پیراسائٹ یعنی طفیلی ہیں جو عوام کے پیسوں پر پَل رہے ہیں۔ ان کے اپنے کام بالکل نہیں رکتے کیونکہ ان سب کا باہمی گٹھ جوڑ ہے جو ان کی اصل طاقت ہے۔ بیورو کریسی ان میں سے ایک اہم طبقہ ہے‘ جو اس سارے کھیل میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ صرف عوام کے کاموں میں روڑے اٹکاتی ہے‘ اشرافیہ میں شامل طبقات کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جاتی۔ ان کیلئے راستہ صاف اور ہموار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک کاروبار میں مسابقت کا ماحول ہی نہیں بن سکا جس کی وجہ سے عوام کوئی کاروبار یا کام کرنے کے قابل نہیں‘ اور جو ایک کروڑ کے لگ بھگ مقتدر طبقے کے لوگ ہیں وہ جو جی چاہے کریں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نظام تو کوئی ہے نہیں بلکہ سب کچھ ان مقتدر طبقات کی سہولت کاری کیلئے ترتیب دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں کیونکہ کوئی آدمی آسانی سے اپنا کاروبار چلا ہی نہیں سکتا۔ ایک عام کاروباری آدمی بڑی محنت اور مشکل سے اپنا کاروبار کھڑاکرتا ہے کہ لٹیرے آ دھمکتے ہیں۔ اگر کسی نے کام کرنا ہے تو مقتدر طبقات میں سے کسی کو اپنی پشت پر کھڑا کرنا ہو گا۔
راقم کی ان معروضات کو ایک معروف بزنس اور لاہور چیمبر آف کامرس کے سابق صدرنے بھی سند بخشی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کاروبار وہی شخص کر سکتا ہے جو چھتیس محکموں کو رشوت دے سکتا ہے۔ جب چھتیس محکموں کے سیکرٹریوں کو رشوت دے کر ہی کاروبارکرنا ہے تو یہ ملک خاک ترقی کرے گا۔ جس ملک میں چھتیس سیکرٹری ایک انڈسٹری کے پیچھے پڑے ہوں تو کاروبار کس طرح چل سکتا ہے؟ ایک دن ایک انڈسٹری بند ہونے سے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ محکمہ ماحولیات کا ایک اہلکار آ کر کہتا ہے کہ آپ کی فیکٹری کی چمنی سے دھواں نکل رہا ہے اور فیکٹری کو سیل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے عقل کے اندھے افسر لگائے ہوئے ہیں‘ جن کو یہ تک معلوم نہیں کہ ایک فیکٹری بند ہونے سے ہزاروں مزدور بیروزگار ہو جاتے ہیں‘ سینکڑوں گھروں کے چولہے بجھ جاتے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ جب فیکٹری چلے گی تو اس کی چمنی سے دھواں نہیں نکلے گا تو کیا نکلے گا؟ سوال یہ ہے کہ فیکٹری سے دھواں نہیں نکلے گا تو فیکٹری چلے گی کیسے؟
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
پاکستان میں اگر کوئی عام کاروباری شخص یا سرمایہ کار صرف ایک درمیانے درجے کا صنعتی یونٹ لگانے کی کوشش کرے تو اسے درجنوں محکموں‘ بیسیوں قوانین اور بیورو کریسی کی درجنوں شرطوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک این او سی کے بعد دوسرا‘ پھر تیسرا‘جیسے یہ عمل کبھی مکمل نہ ہو۔ ملک میں ضابطوں کا ایک ایسا شیطانی جال بچھا دیا گیا ہے‘ جس سے بچ نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔ فائل غائب کر دینا‘ اعتراض لگا دینا یا کوئی قانونی سقم نکال کر تاخیر کرنا‘یہ سب بیورو کریسی کی روزمرہ کارکردگی کے نمونے ہیں۔
ہماری بیورو کریسی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ کام نہیں کرتی بلکہ یہ ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ میں سرگرم ہے۔ ان کیلئے ضروری ہے کہ تنخواہیں بڑھتی رہیں‘ گاڑیاں‘ بنگلے‘ پلاٹ‘ الاؤنس اور پروٹوکول کی نہ ختم ہونے والی فہرست جاری رہے۔ ان مراعات کے چشمے کبھی خشک نہ ہوں‘ چاہے ملکی معیشت نچوڑی جاتی رہے‘ عوام مہنگائی تلے دب جائیں یا سرمایہ کار راہِ فرار اختیار کریں۔ سرمایہ کاری کیلئے جو ماحول درکار ہوتا ہے‘ ہماری بیورو کریسی اس کے برعکس ماحول مہیا کرتی ہے۔ ایک سرمایہ کار کو درجنوں این او سیز‘ محکمہ جاتی اجازت نامے اور غیر ضروری قانونی موشگافیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ فائلیں مہینوں دفتروں میں گھومتی رہتی ہیں اور اگر سرمایہ کار ان فائلوں کو ''پہیے‘‘ نہ لگائے تو وہ فائلیں اکثر ''گم‘‘ ہو جاتی ہیں۔ بیورو کریسی نہ صرف سہولت کار نہیں بنتی بلکہ ضابطوں کی رکاوٹ ڈال کر داد بھی وصول کرتی ہے‘ جیسے ترقی کا عمل ان کی مرضی کے بغیر شروع ہی نہ ہو سکتا ہو۔
اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک ایسے ہی چلتا رہے گا؟ کیا ہر وہ شخص جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہے گا‘ وہ پہلے بیورو کریسی کی خوشنودی حاصل کرے؟ یہ رویہ نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو بھی مجروح کرتا ہے۔ جو سرمایہ کار آسانی چاہتا ہے‘ وہ بیورو کریسی کی سرخ فیتے بازی سے گھبرا کر دوسرے ممالک کا رُخ کر لیتا ہے جہاں کاروباری ماحول دوستانہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری میں شدید کمی کی ایک اہم وجہ بیورو کریسی کی غیر ضروری رکاوٹیں اور ریگولیٹری تقاضے ہیں جو دراصل سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور نئے منصوبوں کے آغاز کے علاوہ پرانے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب ہیں۔ مگر افسوس کہ ہمارے پالیسی ساز‘ وزرا اور افسران اس حقیقت کو یا تو سمجھنا نہیں چاہتے یا جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نظام کی خرابی ہے۔ اس نظام میں عوام کے مسائل‘ معیشت کی بہتری‘ پالیسی کے تسلسل یا گڈ گورننس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اصل توجہ مراعات کے حصول‘ پروٹوکول کے تحفظ اور ریٹائرمنٹ کے بعد پلاٹوں کی بندر بانٹ پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ سب کچھ صرف ایک وجہ سے ہوتا ہے کہ اس نظام میں احتساب کا کوئی مؤثر میکانزم موجود نہیں۔ اختیارات بیشمار ہیں مگر جوابدہی کا کوئی تصور نہیں۔ ہر وزارت میں ایک نیا سیکرٹری ایک نیا سفر شروع کرتا ہے اور چند مہینوں بعد اس کا تبادلہ ہو جاتا ہے۔ فائلیں‘ منصوبے‘ پالیسیاں اور اصلاحات‘ سب کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔
بیوروکریسی کو بے پناہ اختیارات‘ سرکاری وسائل اور تحفظ حاصل ہے مگر اس کے احتساب کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ یہی غیر جوابدہی بیورو کریسی کے اس مزاج کو جنم دیتی ہے جو عوام سے دور اور مقامی معیشت سے بے تعلق ہے۔ اس ادارے کو شفاف‘ معیشت دوست اور سہولت کار بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ قانون کو آسان اور یکساں بنانا ہو گا اور سرمایہ کار کو تحفظ‘ سہولت اور عزت دینا ہو گی۔ بیورو کریسی کا کام عوامی فلاح اور معاشی استحکام ہے نہ کہ اختیار کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کرنا۔ اگر ہم ایک ترقی یافتہ پاکستان کا خواب دیکھتے ہیں تو بیورو کریسی کو نوآبادیاتی خول سے نکال کر جدید‘ عوام دوست اور سرمایہ کاری نواز نظام میں بدلنا ہو گا۔ بیورو کریسی کو مراعات کی فہرستوں سے نکال کر جوابدہی‘ کارکردگی اور عوامی مفاد کے دائرے میں لانا ہو گا۔ ضابطے آسان کیے جائیں‘ فائلوں کو روکے رکھنے کا کلچر ختم کیا جائے اور سرمایہ کاروں کو شک وشبہ کے بجائے اعتماد دیا جائے۔ صرف اسی صورت میں بیورو کریسی معیشت کی سچی حلیف بن سکتی ہے۔
دنیا بدل رہی ہے۔ آج کی ریاستیں جدید مہارت کی بنیاد پر پالیسیاں بناتی ہیں‘ وزارتوں میں تکنیکی ماہرین کی ٹیمیں موجود ہوتی ہیں اور بیورو کریسی سہولت کار کے طور پر کام کرتی ہے نہ کہ حکمران طبقے کے طور پر۔ ہمیں بھی اس راستے پر چلنا ہو گا۔ ہمیں اپنی بیورو کریسی کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔ اس میں مہارت‘ تسلسل‘ میرٹ اور سب سے بڑھ کر جوابدہی کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے اس فرسودہ بیورو کریسی سسٹم کو جوں کا توں رکھا تو پھر ترقی کے خواب بس خواب ہی رہیں گے کیونکہ غلامی کے دور کا یہ نظام آزادی کی ریاست میں بیکار ہے۔ بقول شکیل بدایونی:
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved