یکم دسمبر 2025ء کو خیبر پختونخوا اسمبلی نے دو اہم قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لیں۔ ایک قرارداد سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو قومی شہید کا درجہ دینے کی وفاق کی سفارش اور دوسری ہزارہ کے نام سے علیحدہ صوبہ بنانے سے متعلق تھی۔ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر احمد کنڈی کی طرف سے پیش کی گئی پہلی قرارداد کے حق میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے علاوہ جے یو آئی ایف‘ اے این پی اور مسلم لیگ (ن) سمیت 42 اپوزیشن ارکان نے بھی ووٹ دیا۔ دوسری جانب حکومتی رکن نذیر عباسی کی طرف سے صوبہ ہزارہ کی قرارداد پر بھی ایوان کا مکمل اتفاقِ رائے سامنے آیا۔ صوبہ ہزارہ بنانے کا مطالبہ بابا حیدر زمان سمیت بہت سے مقامی رہنما کرتے آ رہے ہیں لیکن اس قرارداد میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ صوبہ ہزارہ ڈویژن کے موجودہ آٹھ اضلاع ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ ہری پور‘ بٹاگرام‘ اپر کوہستان‘ لوئر کوہستان اور تورغر پر مشتمل ہوگا یا اسکی جغرافیائی حدود پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کی سیاسی حکمت عملی کے تحت ہوں گی۔ اگر تو موجود ہزارہ ڈویژن کو ہی صوبہ کا درجہ دیا جاتا ہے تو پشاور کو تربیلا ڈیم کے 30ارب روپے سے زائد کے ہائیڈل پرافٹ سے ہاتھ دھونا پڑیں گے جو ضلع ہری پور میں واقع ہے۔ گو اس کی جھیل کا مغربی کنارہ ضلع صوابی کا حصہ ہے لیکن سپل وے اور پاور ہاؤس ہری پور میں ہے اس لیے بجلی کی پیداوار کی رائلٹی نئے صوبے کو ملے گی۔ دوسرا یہ کہ اس پاور ہاؤس کے بقایا جات کے70 ارب بھی نئے صوبے کا حق ٹھہریں گے۔ 4321 میگاواٹ کا نیا داسو بجلی گھر بھی ضلع اپر کوہستان میں بن رہا ہے جو پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے تربیلا سے بھی 1200 میگاواٹ بڑا ہے اور مستقبل میں اسکے کم از کم 50 ارب روپے بھی صوبہ ہزارہ کو جائیں گے۔ 884 میگاواٹ کا پن بجلی گھر سکی کناری منصوبہ سالانہ سوا تین ارب یونٹ بجلی پیدا کرے گا اور اس سے ریونیو جنریشن اندازاً آٹھ سے 10ارب روپے ہو گی۔ 17ہزار 64مربع کلومیٹر پر واقع ہزارہ ڈویژن سی پیک کا گیٹ وے ہونے کی وجہ سے تجارتی لحاظ سے بڑے ریونیو کی صلاحیت رکھتا ہے اور ناران‘ کاغان‘ گلیات‘ جھیل سیف الملوک‘ چھور ویلی اور لالوسر جیسے جنت نظیر قدرتی سیاحتی مقامات بھی ریونیو کا بڑا ذریعہ ہوں گے۔
ہزارہ صوبے سے متعلق ایک سیاسی نکتہ بھی بڑا اہم ہے جو دو روز قبل قومی مالیاتی کمیشن کی پہلی میٹنگ میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے اٹھایا‘ وہ یہ کہ 2018ء میں سابق فاٹا کے اضلاع 25ویں آئینی ترمیم کے تحت خیبر پختونخوا میں ضم کر دیے گئے لیکن ان کی 61 لاکھ آبادی کو قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبائی حصے میں شامل نہیں کیا گیا۔ اگر یہ آبادی کے پی میں شامل ہو جاتی تو خیبر پختونخوا کا ایوارڈ میں حصہ پانچ فیصد اضافے سے 19 فیصد ہو جاتا۔ کیا خوبصورت اتفاق ہے کہ ہزارہ ڈویژن کی آبادی بھی 61 لاکھ 90 ہزار کے لگ بھگ ہے‘ گویا جس اضافی حصے کا پشاور وفاق سے مطالبہ کر رہا ہے وہ صوبہ ہزارہ بنتے ہی اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ پانچ فیصد اضافے کا مطلب کیا ہے۔ اس وقت لاگو ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت چاروں صوبوں میں وفاقی قابلِ تقسیم محاصل کا 82 فیصد آبادی کی بنیاد پر بانٹا جا رہا ہے‘ باقی 18 فیصد غربت‘ پسماندگی‘ آبادی کے جغرافیائی پھیلائو اور محصولات کی وصولیوں کی بنا پر مل رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کو 2010ء سے‘ جب ساتواں مالیاتی ایوارڈ لاگو ہوا تھا‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد کیلئے پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان اپنے حصے سے نیٹ قابلِ تقسیم محاصل کا ایک فیصد اضافی دے رہے ہیں۔ بادی النظر میں یہ صرف ایک فیصد ہے لیکن جب بجٹ کے اعداد وشمار میں جائیں تو یہ رواں مالی سال میں 138 ارب روپے بنتے ہیں۔ جب وفاق یہ پوچھتا ہے کہ یہ رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے تو سندھ اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کہتے ہیں کہ یہ صوبائی معاملات میں غیر آئینی مداخلت ہے‘ اور وفاقی وزیر خزانہ کو ان کی یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے۔ اس سب کے باوجود تینوں صوبوں کے عوام خصوصاً سندھ اور خیبر پختونخوا یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں 2010ء سے اب تک 700 ارب روپے کے پی حکومتوں کو ادا کیے گئے تو خود کش اور دہشت گردانہ حملوں میں استعمال ہونے والے ساڑھے چار لاکھ نان کسٹمز پیڈ سمگل شدہ ڈالے اور گاڑیاں پشاور سے خیبر اور اٹک تک کیوں دندناتی پھر رہی ہیں؟ خیبر پختونخوا کے 96 ہزار پولیس اہلکار اور محکمہ ایکسائز کے اہلکار ان کو پکڑتے کیوں نہیں؟ گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے ایک نیوز بریفنگ میں یہ بھی انکشاف کیا کہ اس سال ملک میں دہشت گردی کے 4729 واقعات ہوئے‘ ان میں سے 71 فیصد (3357) خیبر پختونخوا میں ہوئے۔ سال رواں میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے 210 شہدا میں چند روز قبل شہید ہونے والے نوجوان اسسٹنٹ کمشنر تحصیل میرانشاہ شاہ ولی‘ تین پولیس اہلکار اور ایک سویلین شہری بھی شامل تھے۔ ان کے لواحقین کیا یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتے کہ وفاقی گرانٹس کے پیسے کہاں لگ رہے ہیں اور صوبے میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ اربوں روپے کا بجٹ تنخواہوں اور دیگر مدات میں کیوں لے رہا ہے؟
بات خیبر پختونخوا کے وفاق سے مالی مطالبات کی چل نکلی ہے تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ دعووں اور حقائق میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اسی ہفتے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بڑی اہم باتیں کیں۔ اسد قیصر نے کہا کہ 2018ء میں مرحوم سرتاج عزیر کمیٹی نے فاٹا کے اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ فاٹا کی ترقی کیلئے وفاقی حکومت اگلے دس برس تک سالانہ 100ارب روپے کے پی حکومت کو اپنے وفاقی ترقیاتی پروگرام سے نکال کر دے گی اور یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ ہم نے اس دعوے کی تحقیقات کیلئے جب کے پی حکومت اور وفاقی وزارتِ خزانہ کے دستاویزات سے تحقیقات کیں تو بڑے ہوشربا حقائق سامنے آئے۔ پہلا یہ کہ پاکستان تحریک انصاف جب 2018ء میں الیکشن جیتی اور عمران خان نے اگست میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو اُن کے وزیر خزانہ اسد عمر نے ستمبر میں سابق (ن) لیگ حکومت کا الیکشن سے قبل منظور کیا گیا بجٹ مسترد کرکے نیا بجٹ پیش کیا۔ اس وقت اسد قیصر صاحب سپیکر بن چکے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرتاج عزیز کے وعدے پر پہلا عمل درآمد اسی سال 100ارب روپے فاٹا کو دے کر کیا جاتا لیکن دستاویز میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال اس مد میں اخراجات صرف پانچ ارب روپے کے لگ بھگ رہے۔ اگلے سال یعنی 2019-20ء کا بجٹ مکمل طور پر پی ٹی آئی کا بجٹ تھا‘ اس سال سو ارب کے بجائے 25 ارب 27کروڑ روپے مختص کیے گئے‘ اس سے اگلے سال 2020-21ء میں یہ ایلوکیشن 48 ارب کر دی گئی اور جس سال تحریک عدم اعتماد کے تحت تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی یعنی مالی سال 2021-22ء‘ تب فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے بانی پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم 54 ارب روپے منظور کیے تھے۔ اسد قیصر صاحب اگر اپنے صوبائی محکمہ خزانہ سے مشورے کے بعد پریس کانفرنس کرتے تو ان کو زمینی حقائق کے تحت سیاست کا نادر موقع ملتا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کو موجودہ حکومت نے فاٹا کے اضلاع کو اس مد میں 70ارب روپے اور بجلی پر سبسڈی کی مد میں الگ سے 65 ارب روپے دیے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved