حضرت عطا بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: جب حج کا زمانہ قریب آتا تو حضرت عمرؓ اپنے تمام گورنروں کو مکہ معظمہ میں جمع ہونے کا حکم دیتے‘ پس جب وہ جمع ہو جاتے تو آپؓ لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرماتے: ''اے لوگو! میں نے اپنے عاملوں کو تم پر اس لیے مقرر نہیں کیا کہ وہ تمہاری کھالیں اُتاریں اور تمہارا مال چھینیں‘ میں نے اُن کا تقرر اس لیے کیا ہے تاکہ وہ تمہارے اختلافات ختم کریں اور تمہارے درمیان مالِ غنیمت کو (منصفانہ طور پر) تقسیم کریں‘ اگر کسی شخص کے ساتھ میرے کسی عامل نے ناانصافی کی ہے تو وہ کھڑا ہوکر اپنی شکایت بیان کرے۔ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اورکہا: امیر المومنین! آپ کے فلاں عامل نے مجھے سو کوڑے مارے ہیں‘ حضرت عمرؓ نے اُسے طلب کیا اور پوچھا: اسے سوکوڑے کس جرم میں لگائے ہیں‘ وہ کوئی معقول وجہ بیان نہ کر سکا۔ حضرت عمرؓ نے اُس شخص کو دُرَّہ حوالے کیا اور فرمایا: اُٹھو اور اسے اسی طرح سو دُرّے لگائو جیسے اس نے تجھے لگائے تھے۔ یہ ماجرا دیکھ کر حضرت عمروؓ بن عاص کھڑے ہوئے اور عرض کی: امیر المومنین! اگر آپ نے ایسا کیا تو پھر لوگ بڑی کثرت کے ساتھ آپ کے پاس دعوے لائیں گے‘ یہ ایک شعار بن جائے گا اور آپ کے بعد بھی یہی سنت جاری رہے گی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: فقط میں ہی وہ شخص نہیں جو مظلوم سے بدلہ لینے کا کہہ رہا ہوں‘ بلاشبہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے: آپﷺ اپنی ذات کو بھی قصاص کیلئے پیش فرماتے تھے۔ حضرت عمروؓ بن عاص نے کہا: ہمیں کچھ وقت دیجیے تاکہ ہم اسے راضی کر لیں؛ چنانچہ انہوں نے اُس شخص کو دو سو دینار کے عوض راضی کر لیا‘‘۔ (کنزالعمال‘ ج: 5‘ ص: 659)۔
علامہ عبداللہ بن مسلم بن قُتَیبہ الدینوری لکھتے ہیں: ''عُتبِی نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو (بیرونِ ملک سے) کچھ چادریں بھیجی گئیں‘ آپؓ نے انہیں صحابہ میں تقسیم کیا اور ہر شخص کے حصے میں ایک چادر آئی۔ وہ منبر پر چڑھے اور انہوں نے جو لباس زیبِ تن کیا ہوا تھا‘ اس میں دو چادریں تھیں۔ آپؓ نے فرمایا: ''لوگو! تم نہیں سنو گے‘‘۔ سلیمان نے کہا: ''ہم نہیں سنیں گے‘‘۔ امیر المؤمنین نے فرمایا: ''کیوں نہیں سنو گے‘‘۔ انہوں نے کہا: ''آپ نے ہمیں ایک ایک چادر دی ہے اور آپ دو چادروں کا لباس زیبِ تن کیے ہوئے ہیں‘‘۔ امیر المؤمنین نے فرمایا: ''ابوعبداللہ! جلدی نہ کرو‘‘ پھر آپؓ نے پکارا: ''عبداللہ! تو کسی نے جواب نہ دیا‘ پھر آپؓ نے کہا: عبداللہ بن عمر! انہوں نے کہا: امیرالمؤمنین میں حاضر ہوں۔ امیر المؤمنین نے فرمایا: میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جو چادر میں نے پہن رکھی ہے‘ کیا وہ آپ کی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: ''جی ہاں! بالکل‘‘۔ سلیمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اب ہم آپ کی بات سنیں گے‘‘ (عیون الاخبار‘ ج: 1‘ ص: 118)۔ یہاں امیرالمومنین کا اُن کے عہدِ اقتدار میں مجمعِ عام کے سامنے احتساب ہو رہا ہے اور وہ اُسی مجمعے کے سامنے اپنی صفائی پیش کر رہے ہیں‘ یہاں کسی استثنا کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہمارے لبرل لوگوں اور موجودہ اہلِ اقتدار کے سیاسی مخالفین کا اعتراض تاحیات استثنا پر ہے‘ عہدِ اقتدار کے استثنا پر نہیں ہے‘ کیونکہ ہمارے ہاں جدید عالمی اقدار سے رہنمائی لی جاتی ہے اور جدید دساتیر میں سربراہِ مملکت کو عہدِ اقتدار تک کیلئے استثنا ملتا ہے۔ پس ہمارے ہاں اس سے تجاوز کرکے اسے تاحیات کر دیا گیا ہے‘ لہٰذا اس پر لبرل اور سیاسی مخالفین کو اعتراض ہے‘ لیکن اسلام میں عہدِ اقتدار میں بھی کسی کو استثنا حاصل نہیں ہے۔ دراصل ہمارے آئین میں بعض تضادات ہیں: مثلاً: ایک طرف لکھا ہے: قرآن وسنّت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا اور دوسری طرف استثنا یا ماورائے عدالت ہونے کا جو حق دیا گیا ہے‘ یہ دونوں باہم متضاد ہیں۔ ماضی میں جب صدر غلام اسحاق خان نے 1993ء میں نواز شریف کی حکومت کو معزول کیا اور سپریم کورٹ میں اس اقدام کے خلاف مقدمہ چلا تو بعض وکلا نے کہا: قرآن وحدیث کی رُو سے صدر احتساب سے ماورا نہیں ہے‘ تو اُس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا: آئین کی دفعات ایک دوسرے پر حاکم نہیں ہیں۔ یعنی آئین کی جو دفعات قرآن وحدیث کے خلاف ہیں‘ اُن پر قرآن وحدیث کی حاکمیت والی دفعہ حاکم نہیں ہے۔
حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں: مصر کا ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور عرض کی: امیر المومنین! میرے ساتھ ظلم ہوا ہے‘ میں آپکے پاس انصاف لینے آیا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا: تمہارے ساتھ کیا ظلم ہوا‘ اُس نے کہا: میں نے مصرکے گورنر عمرو بن عاص کے بیٹے کیساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا اور میں اُس سے آگے نکل گیا‘ اُسے یہ بات ناگوار گزری اور اُس نے مجھے یہ کہتے ہوئے کوڑے مارنا شروع کر دیے: ہم بڑے اور عزت دار لوگوں کی اولاد ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اُسی وقت عمرو بن عاص کو پیغام بھجوایا اور بیٹے سمیت فوری طور پر مدینہ طیبہ حاضر ہونے کا حکم دیا‘ جب حضرت عمروؓ بن عاص اپنے بیٹے کے ہمراہ مدینہ طیبہ پہنچے تو آپؓ نے اس مصری باشندے کو طلب کیا‘ وہ حاضر ہوا تو آپ نے اُسے کوڑا دے کر فرمایا: اس کو مارو‘ وہ گورنر کے بیٹے کو کوڑے مارنے لگا‘ حضرت عمرؓ اس دوران فرماتے جاتے تھے: ''مار اس عزت دار کو‘‘۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: وہ مصری اس قدر برے طریقے سے پیٹنے لگا کہ ہم اس کے رکنے کی تمنا کرنے لگے‘ پس جب وہ رک گیا تو حضرت عمرؓ نے گورنر عمرو بن عاص کے متعلق حکم دیا کہ ان کے گنج پر بھی کوڑے مار‘ مصری نے کہا: امیر المومنین! مجھے انہوں نے نہیں‘ انکے بیٹے نے مارا ہے اور میں اس سے اپنا بدلہ لے چکا ہوں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے عمرو بن عاص کو مخاطَب کرکے فرمایا: ''ماؤں نے اپنے بچوں کو آزاد جنا ہے‘ تم نے کب سے اُنہیں اپنا غلام سمجھنا شروع کر دیا ہے‘‘۔ حضرت عمروؓ بن عاص نے عرض کی: امیر المومنین! نہ مجھے اس واقعے کا کوئی علم ہے اور نہ یہ میرے پاس شکایت لایا‘‘ (کنز العمال‘ ج: 12‘ ص: 660)۔
غسان کے حکمران جبلّہ بن الایہم کا واقعہ عدلِ فاروقی کی عظیم مثال ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ آپؓ کے نزدیک آقا وغلام اور شاہ وگدا میں کوئی فرق نہ تھا۔ جبلّہ نے طواف کے دوران ایک بَدو کو تھپڑ مارا‘ وہ امیرالمومنین سے انصاف طلب کرنے پہنچ گیا۔ آپؓ نے فرمایا: جبلّہ کو پکڑ کر بدو کے حوالے کرو کہ وہ اسکے منہ پر اسی طرح تھپڑ مارے جس طرح اس نے اسے مارا ہے۔ جبلہ نے کہا: میں ایک بدو کے آگے اپنا چہرہ پیش کروں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اسلام نے اُسے اور تجھے مساوی بنا دیا ہے‘ کسی کو اگر دوسرے پر کوئی فضیلت ہے تو صرف تقویٰ کی بناپر ہے‘ لہٰذا یا تو اسے راضی کرو‘ ورنہ خود کو قصاص کیلئے پیش کرو‘ اُس نے کہا: پھر میں نصرانی ہو جاؤں گا‘ آپؓ نے فرمایا: اگر تو نصرانی ہو گیا تو میں ارتداد کے جرم میں تیری گردن اُتار دوں گا؛ پس جب اُس نے حضرت عمرؓ کی سختی دیکھی تو کہا: مجھے آج کی رات غور وفکرکی مہلت دیدیں‘ پھر وہ رات کے اندھیرے میں فرار ہو گیا‘‘ (المنتظم فی تاریخ الملوک والامم‘ج: 5‘ ص: 257)۔ ''حضرت عبداللہؓ بن عباس بیان کرتے ہیں: ایک باندی نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں اپنے مالک کی شکایت کی اور کہا: میرے مالک نے مجھ پر بدکاری کا الزام کر مجھے آگ پر بٹھایا‘ جس کی وجہ سے میری شرمگاہ جل گئی۔ حضرت عمرؓ نے اُسکے مالک کو طلب کیا اور فرمایا: تجھے اللہ جیسا عذاب دیتے ہوئے حیا نہیں آئی‘ کیا تو نے اسے بدکاری کرتے ہوئے دیکھا تھا؟ اُس نے کہا: نہیں! فرمایا: اس نے تیرے سامنے خود اقرار کیا تھا؟ اُس نے کہا: نہیں! حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے‘ اگر میں نے رسول اللہﷺ کا یہ فرمان نہ سنا ہوتا کہ بیٹے کے قصاص میں باپ کو اور غلام کے قصاص میں آقا کو قتل نہ کیا جائے تو میں ضرور تجھ سے اسکا بدلہ لیتا‘ پھر آپؓ نے اُس شخص کو سو کوڑے لگوائے اور کنیز سے کہا: جاؤ تم اللہ کیلئے آزاد ہو‘ اب تم اللہ اور اس کے رسول کی باندی ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے: ''جس شخص کو آگ میں جلایاگیا یا جس کی صورت بگاڑی گئی تو وہ آزاد ہے اور وہ اللہ اور اسکے رسول کا آزاد کردہ غلام ہے‘‘ (معجم الاوسط: 8657)۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved