ابھی افواجِ پاکستان کے پہلے سالارِ اعلیٰ (چیف آف ڈیفنس فورسز) کی تقرری کے نوٹیفکیشن کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ آئی ایس پی آر (انٹر سروسز پبلک ریلیشنز) کے ڈی جی‘لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس بریفنگ کی اطلاع موصول ہوئی۔دانت میں تکلیف کے باعث راولپنڈی جانا ممکن نہ ہو سکا لیکن محرومی کا احساس یوں نہ ہوا کہ بریفنگ براہِ راست ٹی وی چینلوں پر دکھا دی گئی۔جنرل صاحب کے الفاظ اور لہجہ من و عن آنکھوں اور کانوں تک پہنچ گئے۔اُنہوں نے جو کچھ کہا اُس پر بحث جاری ہے‘ مختلف سیاسی رہنما اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے اُس پر توثیقی دستخط ثبت کرنے کا اعلان کر دیا ہے تو وزیر مملکت برائے داخلہ بھی اُن سے پیچھے نہیں رہے۔اُن کا کہنا ہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف کو اُسی طرح اپنے بانی سے کنارا کشی کرنا ہو گی جس طرح ایم کیو ایم نے اپنے بانی سے کی ہے‘ مذاکرات کے دروازے بند کرنے کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف نے یہ بس مِس کر دی ہے۔ عمران خان سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی بند کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔اُن کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ خان نے ملنے کے بعد سیاسی گفتگو کی‘اس لیے اب دوبارہ انہیں یہ موقع نصیب نہیں ہو گا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ جیل کے قواعد و ضوابط کسی سزا یافتہ قیدی سے سیاسی گفتگو کی اجازت نہیں دیتے۔ نہ ہی اُس کے سیاسی پیغامات یا بیانات (ملاقاتیوں کے ذریعے) لوگوں تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔ وکلا حضرات بھی اپنے موکل سے قانونی مشاورت کیلئے مل سکتے ہیں‘اُس کے سیاسی ترجمان بن کر میڈیا میں چہک نہیں سکتے۔اس لیے جو وکیل ضابطے کی خلاف ورزی کریں گے‘ اُن کو بھی خان صاحب تک رسائی نہیں ہو گی۔ اعظم نذیر تارڑ نامور قانون دان ہیں‘جناب نواز شریف کی وکالت کے فرائض بھی ادا کرتے رہے ہیں‘انہوں نے بڑی شدت سے یاد دلایا کہ قیدی نواز شریف سے ملنے کے بعد انہوں نے کبھی اُن کی سیاسی ترجمانی نہیں کی‘ میڈیا کے ذریعے اُن کے خیالات نشر کرنے میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ عطاء اللہ تارڑ کا بھی اصرار ہے کہ وکلاء کا کام اپنے موکل کا مقدمہ عدالت میں لڑنا ہے‘وہ اُس کے ترجمان بن کر میڈیا پر تانیں نہیں اُڑا سکتے۔ تارڑ صاحبان نے ایک سو سال سے زائد نافذ العمل پریزنز ایکٹ (قانون برائے جیل خانہ جات) کی کئی شقیں پڑھ کر سنائیں جن میں صاف الفاظ میں درج ہے کہ سزا یافتہ قیدی کو سیاسی امور پر گفتگو کی اجازت نہیں ہو گی‘ مزید یہ کہ اُس کی ملاقاتوں کے دوران سپرنٹنڈنٹ جیل (یا اس کا نمائندہ) موجود رہے گا تاکہ سرکار آگاہ رہے کہ قیدی سے کیا کہا گیااور جواب میں اُس نے کیا کیا کچھ کہا۔جس قانون کا انہوں نے حوالہ دیا وہ کتابِ قانون کا آزادی سے پہلے کا حصہ ہے۔ پاکستان کی ساری حکومتیں اُس کی محافظ رہی ہیں‘ کسی نے سیاسی قیدیوں یا سیاستدان قیدیوں کو استثنیٰ(یا رعایت) دینے کیلئے اُس میں کوئی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی۔ جناب نواز شریف نے طویل عرصہ قید کاٹی‘ جناب آصف علی زرداری نے تو گیارہ‘ بارہ سال یہ لطف اٹھایا‘ یوسف رضا گیلانی نے بھی کئی برس جیل میں گزارے۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو اُن کے مخالفین کے ساتھ اسی ''پریزنز ایکٹ‘‘ کے مطابق سلوک ہوتا رہا۔ انہوں نے اس کی کسی ''ظالمانہ‘‘ شق میں ترمیم یا تخفیف کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اُن کا بس چلتا تو وہ اُس میں کئی مزید ایسی شقیں ڈال دیتے جو سیاستدان قیدیوں کی مشکیں کس سکیں۔ جناب نواز شریف‘ جناب آصف علی زرداری‘ جناب یوسف رضا گیلانی وغیرہ وغیرہ نے بھی پریزنز ایکٹ کو جوں کا توں رکھا۔ پاکستان میں چونکہ اقتدار اور جیل لازم و ملزوم ہو چکے ہیں‘ عام طور پر اقتدار میں رہنے والا جیل بھجوایا جاتا ہے جبکہ جیل میں رہنے والا اقتدار پر اپنا حق فائق سمجھ لیتا ہے اور اکثر اسے حاصل کر کے بھی دکھا دیتا ہے کہ حق بحق دار رسید۔ عمران خان سے ملنے والوں کو یہ 'سہولت‘ حاصل رہی ہے کہ وہ ان کے سیاسی خیالات و ارشادات عامتہ الناس تک پہنچائیں۔ اہلِ اقتدار نے اپنی آنکھیں مسلسل بند رکھی ہیں‘ جیل کے قواعد و ضوابط انہوں نے اس دوران پڑھ کر نہیں سنائے‘ اس لیے جناب خان کے وکیلوں‘ ساتھیوں اور بہنوں نے اسے اپنا حق سمجھ لیا۔ راوی کے پُلوں سے بہت سا پانی گزرنے کے بعد اب قواعد و ضوابط یاد آ چکے ہیں‘ سو پڑھ پڑھ کر سنائے جا رہے ہیں اور اُن پر عمل کرنے کو ''قومی فریضہ‘‘ سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے۔ اس شدت کے اثرات کیا مرتب ہوں گے‘ یہ آنے والا وقت بتائے گا‘ فی الحال تو عمران خان اپنے ملاقاتیوں کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کے ٹوئٹر ہینڈلر اُن کے ارشادات لوگوں تک مسلسل پہنچانے میں لگے ہیں۔ اُن کا لہجہ کڑوے سے کڑوا ہوتا جا رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو براہِ راست نشانہ بنا کر کلیجہ ٹھنڈا کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کی بہنوں نے بھی اسی طرزِ گفتگو کو اپنا رکھا ہے۔ بھارتی چینلوں پر گفتگو کرتے ہوئے بھی احتیاط ملحوظ نہیں رکھی جا رہی۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی بدستور سر پر کفن باندھ کر کھڑے ہیں اور اپنے ہم نواؤں کے ساتھ مل کر کچھ بھی کر گزرنے کے دعوے کرتے چلے جا رہے ہیں۔
اس سب کا نتیجہ آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ جناب ڈی جی نے بانی پی ٹی آئی کو ''ذہنی مریض‘‘ قرار دیتے ہوئے‘ اُن کے بیانیے کو شدت سے مسترد کر دیا ہے۔ واضح کیا ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کی انتہائی مذموم کوشش کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ جنابِ جنرل کے جذبات اور احساسات نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ فوج کو سیاسی مناقشوں اور تنازعوں سے الگ رکھا جائے۔ یہ ہمارا قومی اثاثہ ہے‘ اسے متنازعہ بنانا اور اس کی قیادت پر حملے کرنا کسی بھی طور پسندیدہ نہیں۔ پاکستان کی سلامتی مضبوط فوج کی مرہونِ منت ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں افواجِ پاکستان نے جو کارکردگی دکھائی اور اپنے سے کئی گنا بڑے حملہ آور کا منہ جس طرح موڑا بلکہ توڑا‘ اس نے پوری دنیا میں ان کا اور پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ اہلِ سیاست کو اپنی لڑائیاں آپ لڑنی چاہئیں‘ اپنے اختلافات کو آپس میں طے کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی زندگی اجیرن نہیں بنانی چاہیے۔ پوری شدت اور قوت سے افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے اگر یہ گزارش کی جائے تو بے جا نہیں ہو گی کہ جو پریس بریفنگ ڈی جی آئی ایس پی آر نے دی ہے وہ وزیر دفاع یا کوئی اور حکومتی ترجمان دیتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ فوج کا دفاع صرف فوج کی نہیں‘ پوری ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست اور فوج ایک دوسرے کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہیں گے تو دونوں سلامت رہیں گے۔ اہلِ سیاست جو بھی کہیں‘ جو بھی کریں‘ جتنا بھی اشتعال دلائیں‘ قومی اداروں کو اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ اہلِ سیاست کی پیدا کردہ آلودگی سے دامن بچانا ہے۔ قوم اور فوج کا ساتھ اٹل ہے‘ ناگزیر ہے‘ اُسے بہرحال برقرار رکھنا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved