تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     07-12-2025

ٹریفک جرمانے اور عوام

ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر ایک ہی روز میں مجموعی طور پر 13کروڑ 19لاکھ روپے جرمانے کے چالان کیے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک روز میں 40ہزار 636ٹریفک چالان کیے گئے جبکہ 15ہزار 428گاڑیاں تھانوں میں بند کی گئیں۔ 4388 گاڑیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ خبر یہ بھی بتاتی ہے کہ موٹر وہیکل آرڈیننس میں حالیہ ترامیم کے بعد اب تک مجموعی طور پر چار لاکھ چار ہزار 713 چالان کیے جا چکے ہیں۔ ان سے 49کروڑ 52 لاکھ روپے کے جرمانے وصول ہوئے جبکہ 63ہزار گاڑیاں تھانوں میں بند کی گئیں۔ ان اعداد و شمار میں سیف سٹیز اتھارٹی کے ای چالان شامل نہیں ہیں۔
ان دنوں ٹریفک جرمانوں کو لے کر پورے صوبے میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ جن کو بھی جرمانے ہوئے وہ حکومت سے شاکی نظر آتے ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم کے حکم پر اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کم عمر ڈرائیورز کی جانب سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتاریاں تو روک دی گئی ہیں لیکن باقی لوگ مسلسل ٹریفک پولیس کی نشانے پر ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ سی ٹی او لاہور کی طرف سے اہلکاروں کو ٹارگٹ دیا جاتا ہے کہ وہ ہر اہلکار سے 100یا اس سے زیادہ چالان وصول کرے گا۔ اس کے بعد پھر اہلکار 100چالان پورے ہونے تک ہر کسی کے چالان کرتا رہتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس میں قصوروار تو قابو آتے ہی ہیں‘ بے قصور بھی رگڑے جاتے ہیں۔ اب یہ 100چالانوں والی پابندی کس کھاتے میں ہے؟ یہ کسی ضابطے کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کی ٹریفک اس قوم کے کردار کی عکاس ہوتی ہے۔ اس بات کو پیمانہ مان لیا جائے تو بحیثیت قوم ہمارا کردار کوئی بہت اچھی تصویر پیش نہیں کرتا۔ پاکستانی فطرتاً گرم جوش‘ مہمان نواز اور ادب و آداب کا خیال رکھنے والے لوگ ہیں۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پاکستانی دنیا بھر میں سب سے زیادہ خیرات و صدقات دینے والی قوم ہیں یعنی انہیں کسی پریشانی میں مبتلا افراد کا اتنا دکھ اور اتنا احساس ہوتا ہے کہ وہ آؤٹ آف دی وے بھی ان کی مدد کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ بعض اوقات اپنی اہم ضروریات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن سڑک پر آتے ہی انہیں پتا نہیں کیا ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے وہ ایک وحشی اور بے دماغ مخلوق میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ پتا نہیں وہ کیا چیز ہے جو انہیں اتنا خود غرض ہونے پر اُکساتی ہے اور وہ ساتھی مسافروں کے لیے بھی صبر یا شائستگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ان پر شاید یہ دُھن سوار ہو جاتی ہے کہ کوئی ان سے آگے نکلے تو کیوں نکلے۔ پھر ہم میں ایک بھیڑ چال کی خوبی یا خامی بھی پائی جاتی ہے۔ اگر آپ سے آگے جاتے ہوئے موٹر سائیکل یا کار سوار نے ٹریفک سگنل توڑا ہے تو پیچھے آنے والے پر جیسے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے اور ایسا کرتے ہوئے بعض اوقات اتنی تیزی دکھائی جاتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے اگر اس نے بھی ٹریفک سگنل فوراً نہ توڑا تو شاید اسے جرمانہ ہو جائے گا۔
ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی یقینا ایک جرم ہے لیکن عوام یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کون سا قانون کسی اعلیٰ شخصیت کے گزرنے کی وجہ سے سڑک کو بلاک کرنے اور عوام کو اپنی گاڑیوں سمیت کھڑے ہو کر اس کے گزرنے کا انتظار کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ عوام کا وقت بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا حکمرانوں کا۔ تو پھر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ہی عوام کو سڑکوں پر انتظار کی زحمت میں کیوں مبتلا کرتے ہیں؟ عوام یہ بھی پوچھتے ہیں کہ روزانہ جو خبریں آتی ہیں کہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے فلاں محکمے میں اتنے کروڑ یا ارب روپے کی کرپشن ہوئی تو ان کی روک تھام کے لیے حکومت نے کون سی منصوبہ بندی کی ہے؟ 2023ء میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان میں کرپٹ اداروں کی جو فہرست جاری کی تھی اس میں پولیس کا پہلا نمبر تھا‘ ٹھیکے دینے والے شعبے کا دوسرا نمبر اور عدلیہ تیسرے نمبر پر کرپٹ قرار پائی تھی۔ تعلیم اور صحت چوتھے اور پانچویں نمبر پر کرپٹ ترین شعبے تھے جبکہ مقامی حکومتیں‘ لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ کسٹم‘ ایکسائز اور انکم ٹیکس چھٹے‘ ساتویں اور آٹھویں نمبر پر بدعنوان ترین ادارے قرار پائے تھے۔ عوام یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کرپشن کیا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے چھوٹے جرائم ہیں؟ جہاں بھی کرپشن ہوتی ہے وہاں کوئی قانون‘ کوئی اصول کوئی ضابطہ توڑا گیا ہوتا ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانوں کے مشورے دینے والوں کی نظر ان سنگین خلاف ورزیوں پر کیوں نہیں پڑتی؟
اس ساری بحث کا یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہیں کیا جانا چاہیے کہ میں سڑکوں پر ٹریفک کا نظم قائم ہونے اور ٹریفک قوانین کی پاسداری کے خلاف ہوں۔ بلا شبہ سڑکوں پر ٹریفک بغیر کسی رکاوٹ کے رواں دواں رہنی چاہیے اور گاڑی یا موٹر سائیکل حتیٰ کہ سائیکل پر سوار ہر فرد کو ٹریفک سینس ہونی چاہیے اور ان کی جانب سے ٹریفک قوانین پر پوری طرح عمل درآمد بھی کیا جانا چاہیے۔ میں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ سڑکوں پر نظم قائم کرنا اور قوانین کی پاسداری یقینی بنانا حکومت کا فرض ہے۔ اس حوالے سے اربابِ بست و کشاد سے صرف دو باتیں کہنا چاہوں گا۔ پہلی یہ کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے ضرور کریں لیکن اس سے پہلے لوگوں میں شعور اور آگہی پیدا کرنے اور بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں شرح تعلیم کیا ہے‘ اس سے شاید کوئی بھی ناواقف اور نہ آگاہ نہیں ہے۔ ایسی شرح تعلیم کے ساتھ یہ خواہش کرنا کہ لوگ قوانین پر سو فیصد عمل کریں گے شاید پورا ہونے والا خواب نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے لوگوں کے لیے آگہی مہمیں چلائی جائیں‘ انہیں واضح طور پر بتایا جائے کہ ٹریفک قوانین کی پاسداری نہ کرنے کے کیا منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس کے بعد بھی وہ اگر ٹریفک قوانین کو خاطر میں نہیں لاتے تو انہیں ضرور جرمانے ہونے چاہئیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ فیصلے کرنے والوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک میں عام آدمی کی مالی حالت کیا ہے اور روز افزوں مہنگائی نے ان کا کیا حشر کر دیا ہے۔ نہیں معلوم تو معلوم کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے مطابق جرمانے طے کیے جانے چاہئیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک غریب آدمی ڈیڑھ ہزار روپے کی دیہاڑی لگائے اور شام کے وقت اسے کسی چوراہے پر ٹریفک وارڈن روک کر دو ہزار روپے چالان کی پرچی تھما دے۔ پھر یہ جو خبریں سننے میں آتی ہیں کہ ٹریفک وارڈنز کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ اتنے چالان روزانہ ضرور کریں‘ تو میرے خیال میں یہ سب عوام کی بد دعائیں سمیٹنے کا طریقہ ہے ‘اور کچھ نہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک کے معاملات ضرور ٹھیک کیے جائیں لیکن عوام کے معاملات کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے کہ کل کو حکمرانوں نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے انہی کے پاس جانا ہے۔ یہ نہ ہو کہ آپ کو دیکھتے ہی انہیں بھاری ٹریفک جرمانے یاد آ جائیں اور وہ منہ دوسری طرف پھیر لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved