جادو گھر یعنی اشاعتی دنیا میں باقاعدہ قدم رکھے چالیس سال سے زیادہ ہو گئے۔ یہ پوری عمر ہوتی ہے اور میں نے بھی بدلتی دنیائیں بہت قریب سے دیکھیں۔ آبائی پیشہ‘ کتاب سے عشق‘ ایک دھن‘ کچھ کر دکھانے کی امنگ اور روزگار کی ضرورت‘ سب مل کر ان دنیائوں میں لائے تھے۔ بنیادی سبب بہرحال پیسہ کمانا نہیں تھا۔ یہ اس وقت بھی پتا تھا کہ اگر پیسے کمانے ہیں تو جوتے بیچنے چاہئیں‘ کپڑوں کا کام کرنا چاہیے یا کھانے پینے کی دکان کھولنی چاہیے کہ یہ سدا بہار روزگار ہر دور اور ہر موسم میں چلتے ہیں۔ سو فیصد لوگوں کو بہرحال یہ چیزیں چاہئیں۔ کتاب کی ضرورت کتنے فیصد لوگوں کو ہوتی ہے؟ جب کتاب کا دورِ عروج تھا اس وقت بھی کتاب بنیادی ضروریات اور حاجات میں شمار نہیں ہوتی تھی‘ اور آج کے دور میں تو کتاب کا ذکر ہی چھوڑ دینا بہتر ہے‘ ورنہ دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ میں نے جب اسی دکھ سے چھلک کر یہ شعر کہا تھا:
کاغذ کی یہ مہک‘ یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
تو یہ دکھ دنیا بھر کے کتابوں سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں بھی اترا تھا۔ اس لیے کہ یہ خطرہ بالکل حقیقی اور سامنے ہے اور کاغذی کتاب سے عشق کرنے والوں کی بڑی تعداد ابھی موجود ہے۔ مجھ سے کسی نے ایک بار پوچھا کہ یہ بڑے بڑے کتاب میلے سجتے ہیں اور کتابیں بھی فروخت ہوتی ہیں‘ ان کی موجودگی میں آپ کا یہ خطرہ محض وہم لگتا ہے۔ میں نے کہا: آپ کے منہ میں گھی شکر! خدا کرے کہ یہ وہم ہو لیکن یہ بھی ضرور دیکھیے کہ کتاب میلے میں میلہ کتنا ہے اور کتاب کتنی۔ اس بات سے بھی اندازہ کیا جا سکتا کہ اشاعتی دنیا میں کتنے نئے نام شامل ہوئے اور کتنے نام چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ بھی جو نسل درنسل اسی کام سے وابستہ تھے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ جانے والے زیادہ ہیں۔ ایک اور بات بھی ضرور سمجھنی چاہیے۔ کتابوں کی دکانوں میں دو طرح کے گاہک آتے ہیں؛ ایک وہ جنہیں کسی خاص کتاب کی تلاش ہوتی ہے۔ کتاب پوچھتے ہیں‘ خریدتے ہیں اور چند منٹ میں چلے جاتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو کسی خاص کتاب کی تلاش میں نہیں‘ اپنی پسند کی کتابیں منتخب کرنے آتے ہیں۔ وہ کئی گھنٹے دکان میں ٹھہرتے ہیں۔ شیلفوں اور الماریوں میں گھومتے پھرتے‘ کتابیں نکالتے‘ الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں۔ چند صفحات پڑھتے ہیں پھر خریدنے یا نہ خریدنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو آدھا آدھا دن دکانوں میں گزارا کرتے تھے۔ یہ لوگ اب ختم ہو چکے۔ اب کسی کے پاس گھنٹوں کتابوں کے بیچ گزارنے کا وقت نہیں۔ وہ لوگ بھی ختم ہو گئے جو ماہانہ بجٹ میں ایک حصہ کتاب کیلئے الگ کر لیا کرتے تھے۔ ہم بچے تھے تو ہمارا جیب خرچ تھا ہی کتنا لیکن اس وقت بھی بچوں کے رسالے خریدنے کیلئے ہم پیسے بچاتے تھے اور رسالہ خرید کر لگتا تھا کہ دنیا ہاتھ میں آ گئی ہے۔ اب گرد وپیش میں دیکھیے‘ کتنے لوگ‘ کتنے مرد و خواتین‘ کتنے بچے اب ماہانہ خرچ میں یہ مد رکھتے ہیں۔ بدلتی دنیا نے کاغذی کتاب کو پچھاڑ دیا ہے اور ڈیجیٹل کتاب کا دور ہے۔ چھپا ہوا لفظ برقی حروف میں منتقل ہو گیا ہے۔ کتاب ٹیبلٹ اور کِنڈل کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ الگ بات کہ کاغذی کتاب کی خوبصورتی سکرین پر روشن کالے حروف میں نہیں ہے۔ آپ کاغذی کتاب کھولتے ہیں اور کاغذ کی مہک سیدھی آپ کے اندر اتر جاتی ہے۔ کتاب کا لمس‘ اس کی جلد کی مضبوطی‘ اس کی کاغذی یا چمڑے یا ریکسین کی جلد کی ریشمی ملائمت یا کھردرا پن آپ کی ذوقی طمانیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ کاغذ کی سفیدی‘ مخملی نرمی‘ سفید رنگ پر سیاہ حروف‘ صفحات کے درمیان نشانی کیلئے ریشمی ڈوری‘ یہ پیرہن اس محبوبہ کو حسین تر بناتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اصل حسن تو لفظوں میں چھپا ہوتا ہے۔ وہی اصل فیصلہ کرتے ہیں کہ کتاب کتنی قیمتی یا کتنی ردی ہے۔ رونقِ پیرہن اپنی جگہ‘ خوبیٔ جسمِ نازنیں اپنی جگہ! کسی کسی کتاب میں تو آپ عمر گزار سکتے ہیں۔ رات سوئیں توکتاب آپ کے سینے پر سر رکھ کر سو جائے اور صبح آپ کے ساتھ جاگ اٹھے۔ ظاہر ہے کہ ہر کتاب اس قابل نہیں ہو سکتی کہ آپ سب کام چھوڑ کر اسے پڑھنے کیلئے بے چین ہو جائیں لیکن جو اس کی اہل ہو وہ آپ کی بھوک‘ پیاس اور نیند کی طلب ختم کر کے رکھ دیتی ہے۔ مجھے بہت سی کتابیں یاد ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے بھوک‘ پیاس اور تھکن محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ایک طرف کوشش ہوتی تھی کہ ایک ہی نشست میں پوری کتاب پڑھ لوں‘ دوسری طرف یہ خطرہ کہ کتاب ختم ہو گئی تو کیا کروں گا۔
اشاعتی دنیا تین اور دنیائوں سے جڑ ی ہوئی ہے؛ چھپائی یعنی پرنٹنگ کی دنیا‘ کاغذ کی دنیا اور جلد سازی کی دنیا۔ ممکن نہیں کہ آپ کتاب سے جڑیں اور ان سے بے تعلق رہ سکیں۔ انقلاب صرف کتاب کی دنیا میں نہیں آیا‘ یہ دو دنیائیں بھی الٹ پلٹ کر رہ گئی ہیں۔ لیتھو پرنٹنگ (Lithography) تو ہم سے پہلے کی نسلوں نے دیکھی بھی اور برتی بھی۔ میں نے ایک دو جگہ لیتھو مشینیں دیکھیں ضرور لیکن اس وقت آفسٹ پرنٹنگ کا دور آ چکا تھا؛ البتہ چھوٹی مشینوں میں بلاک پرنٹنگ (Xylography) اس وقت لاہور بلکہ پور ے ملک میں بہت زیادہ تھی۔ زنک کے حروف لکڑی کے بلاک پر جڑے جاتے تھے اور انہی بلاکس سے رنگین چھپائی بھی ہوا کرتی تھی اور یک رنگی بھی۔ میں نے بیشمار ٹائٹل اسی پر چھپوائے۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی متروک ہوا۔ پہلے مشینیں اور کاریگر کم ہوئے پھر بالکل ختم ہو گئے اور سارا کام روٹر اور سولنا مشینوں پر منتقل ہو گیا۔ دو تین عشرے اسی طرح گزرے اور اب روٹر یعنی Rotary پرنٹنگ پریس بھی لگ بھگ ختم ہو چکے۔ یہی حال نیگیٹو‘ پازیٹو‘ برومائیڈز اور بلاک بنانے والوں کا ہوا جو ایک زمانے میں بہت تھے اور اب ڈھونڈے سے کوئی نہیں مل سکتا۔ اب پرنٹنگ میں ان چیزوں کا نام جاننے والے بھی کم ہوں گے۔ سکینرز نے آکر کیمروں اور پازیٹوز کی دکان بند کرائی اور اب ڈیجیٹل پرنٹنگ یہی حال سولنا مشینوں کا کر رہی ہے۔ اب کمپیوٹر مشینوں کا دور ہے جو ہاتھ سے کام کرنے والے پریسوں کو شاید ہی اگلے عشروں کی مہلت دیں۔ جلد سازی بھی مسلسل انقلابی تبدیلیوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ہاتھ سے کام کرنے والے‘ اڈوں پر بیٹھ کر چھپے ہوئے فارم موڑنے والے یعنی فولڈرز‘ ہاتھ سے کتاب کی سلائی کرنے والے جو پہلے پوچھتے تھے کہ ٹیس کی سلائی چاہیے یا جزو بندی کی سلائی؟ آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔ مشینی فولڈرز کام جلدی بھی کرتے ہیں اور کاریگروں کے نخروں سے بھی آزادی مل جاتی ہے۔ اسی طرح عام سلائی مشینیں موجود ہیں جو مشینی سلائی کافی کم وقت میں کر دیتی ہیں۔ کتاب کی سلائی ایک باقاعدہ فن تھا‘ نسل درنسل جلد ساز یہ فن سیکھتے اور اس میں مہارت حاصل کرتے تھے۔ مجھے انبالہ سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے بے سہارا بشیر صاحب یاد آتے ہیں۔ میرے والد نے انہیں اپنی دکان کے ایک گوشے میں جگہ دی تھی۔ بتاتے تھے کہ مجھے زکی صاحب نے پہلی جلد بنانے کیلئے دی تو میں نے اپنی قمیص پھاڑ کر اس کے کپڑے سے جلد بنائی تھی۔ اب ان کی اولاد کا جلد سازی کا معروف کارخانہ ہے لیکن ہر فن کی طرح یہ بھی اب وقت کے سیلاب کی نذر ہو چکا۔ مغرب کی بڑی مشینوں میں ایک طرف سے سادہ کاغذ ڈالیے اور دوسری طرف سے سلائی شدہ کتاب نکال لیجیے۔ انسانی ہاتھ لگتے ہی نہیں۔ رہ گئی کاغذ کی دنیا تو اس کیلئے ایک تحریر کافی نہیں۔
یہ دنیا اپنی وسعت اور گہرائی کے ساتھ اتنی بڑی ہے کہ اس کا احاطہ بھی مشکل ہے۔ دوسری اقسام چھوڑ دیں‘ صرف کتابی کاغذ کی بات کریں تب بھی بہت وقت چاہیے۔ لیکن اس پر پھر کبھی بات کرنی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ آج کی لکھی ہوئی یہ تحریر‘ یہ معلومات شاید چند ہی سالوں میں عجائبات میں شمار ہونے لگیں گی۔ لیکن ہم تو اس عجائب خانے کا حصہ تھے‘ ہیں اور رہیں گے۔ یہ ایسا جادو گھر ہے کہ اس سے نکلنے کی آرزو نہیں کی جا سکتی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved