تحریر : سلمان غنی تاریخ اشاعت     09-12-2025

وفاق کی مالیاتی مضبوطی ناگزیر کیوں؟

گیارہویں این ایف سی کے اجلاس میں وسائل کی تقسیم پر ورکنگ گروپس بنانے کا فیصلہ تو کر لیا گیا لیکن فی الحال صوبے اپنے وسائل پر سمجھوتے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ وفاق کی جانب سے صوبوں سے اخراجات کی تفصیل مانگنے پر سندھ نے تفصیلات کی فراہمی سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ یہ فورم وسائل کی تقسیم کا ہے نہ کہ اخراجات پر جوابدہی کا۔ بظاہر تو اجلاس میں ابھی صوبوں کے وسائل پر کٹوتی کی بات نہیں ہوئی مگر ایف بی آر نے ٹیکس وصولیوں کا پانچ فیصد صوبوں کو دینے کی مخالفت کردی ہے‘ لہٰذا فی الحال وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بیلنسنگ ممکن نظر نہیں آتی‘ لیکن اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو اب وفاق کا وسائل میں اضافے کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ وفاق سمجھتا ہے کہ این ایف سی کا موجودہ فریم ورک وفاق کو کمزور کرتا ہے اس لیے وفاق صوبوں کے وسائل پر کٹ لگائے بغیر اپنا بوجھ صوبوں پر منتقل کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے‘ مگر صوبے اپنے اختیارات اور وسائل سے وفاق کو کچھ بھی دینے کو تیار نہیں۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں نے وفاق سے اپنے وسائل میں اضافہ کرایا تو یہ وسائل نیچے اضلاع کو کیوں منتقل نہیں کیے گئے؟ اس اقدام کو نئے صوبوں کی تحریک کا باعث سمجھا جا رہا ہے‘ اس لیے کہ بڑی سیاسی جماعتیں جنہیں وفاق کو مضبوط بناتے ہوئے سارے ملک کے عوام کو ساتھ لے کر چلنا اور ان کے وسائل اور مفادات کا تحفظ کرنا تھا‘ اب وہ صرف اپنی اپنی صوبائی حکومتوں کے مفادات کا تحفظ کرتی نظر آتی ہیں۔ ان جماعتوں نے اپنی سیاست کو بھی مخصوص صوبوں سے مشروط کر لیا ہے۔ خصوصاً پیپلزپارٹی 18ویں آئینی ترمیم کو جواز بناتے ہوئے قطعی طور پر وفاق کو کچھ دینے کو تیار نظر نہیں آتی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وفاق سے صوبوں کو مزید اختیارات دینے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے وفاق کو یہ پیشکش بھی کی ہے کہ وفاق یہ ذمہ داریاں ہمیں دے دے‘ ہم انہیں پورا کریں گے۔ حکومت ہمیں جنرل سیلز ٹیکس جمع کرنے کی اجازت دے‘ ہدف ہم پورا کریں گے اور اگر نہ کر سکے تو اپنا حصہ بھی وفاق کو دے دیں گے تاکہ وفاق کے چیلنجز کم ہو سکیں۔ ان کا یہ مؤقف ظاہر کرتا ہے کہ سندھ وفاق کا بوجھ اٹھانے سے گریزاں ہے‘ لیکن کیا وفاق یہ مؤقف تسلیم کر لے گا‘ ابھی تک تو ایسا محسوس نہیں ہوتا۔
این ایف سی اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ آئینی ذمہ داریوں اور باہمی تعاون کا اہم موقع ہے‘ پہلے اجلاس اس لیے التوا کا شکار ہوا کہ خیبرپختونخوا‘ پنجاب اور سندھ میں سیلابی صورتحال تھی۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی کے حوالے سے قیاس آرائیوں اور خدشات کے حل کیلئے یہ مخلصانہ اور شفاف مکالمے کا پلیٹ فارم ہے۔ مذکورہ اجلاس میں فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد این ایف سی میں اس کا حصہ بڑھانے کی سب نے حمایت کی اور اس حوالے سے وزارتِ منصوبہ بندی نے دو تجاویز وزیراعظم کو پیش کیں۔ ایک تجویز قابلِ تقسیم محاصل سے دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ واٹر سکیورٹی‘ سول آرمڈ فورسز‘ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے فنڈز کیلئے ڈھائی فیصد کٹوتی کی ‘اور دوسری تجویز بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اخراجات قابلِ تقسیم محاصل سے نکالے جانے کی تھی‘ جس سے 2030ء تک وفاقی کے وسائل میں گیارہ سے بارہ فیصد اضافہ متوقع ہے۔ صوبوں کے درمیان این ایف سی کی تقسیم میں آبادی کا حصہ کم کرکے ریونیو جنریشن کو بنیاد بنانے کی تجویز دی گئی۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا تھا کہ صوبے مالی اخراجات میں ذمہ داریاں اٹھائیں اور اس کے ساتھ اپنی آمدنی بڑھائیں‘ اس کیلئے وفاق اور صوبوں کو مل کر اپنی ٹیکس کولیکشن بڑھانا ہوگی۔ پہلے صوبوں کی کولیکشن 0.8فیصد ہے‘ انہیں یہ کولیکشن تین فیصد تک بڑھانی چاہیے۔ اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ سات ٹریلین روپے کی اضافی آمدنی سے وفاق کی مشکلات کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ اجلاس میں خیبرپختونخوا حکومت کا اصرار تھا کہ گیارہویں این ایف سی ایوارڈ کو ساتویں ایوارڈ کے ساتھ جوڑا جائے‘ اس کے تحت آبادی‘ غربت اور دوسرے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے خیبرپختونخوا کا شیئر بڑھایا جائے۔ مطلب یہ کہ صوبے نہ صرف یہ کہ اپنے وسائل پر کمپرومائز کیلئے تیار نہیں بلکہ الٹا وفاق سے مزید وسائل کے طلبگار ہیں۔ اسی تناظر میں وفاق کی طرف سے این ایف سی فریم ورک میں تبدیلی کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔ این ایف سی کو صرف سیاسی اتفاقِ رائے کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے بلکہ اسے ایسے میکانزم میں بدلنا ہوگا جو مالی نظم و ضبط کو فروغ دے اور صوبوں کو بہتر انداز میں وسائل جمع کرنے اور خرچ کرنے کی ترغیب دے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ قرضوں پر سود کی ادائیگی اور خطے کی سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے وفاق پر بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اب وفاق کے پاس اصلاحاتی عمل آگے بڑھانے کے سوا چارہ نہیں۔ یہ وفاق اور صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم اور اعتماد کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ صوبے فی الحال نئے فارمولے پر معترض ہیں اور ماضی کے طے شدہ طریقہ کار پر عمل درآمد پر بضد ہیں‘لیکن کیا معاملات ایسے آگے چل پائیں گے؟ بظاہر یہ ممکن نہیں ہے۔
ساتواں این ایف سی اپنی میعاد ختم ہونے کے باوجود اب تک نافذ العمل ہے۔ 11ویں این ایف سی کو اب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید شفاف اور کارکردگی پر مبنی نظام وضع کیا جائے۔ اگر ملک کو واقعتاً ترقی کی دوڑ میں آگے لے جانا ہے اور خود انحصاری کی منزل تک پہنچنا ہے تو اس کیلئے کسی منظم اور قابلِ عمل پروگرام پر گامزن ہونا ہوگا۔ صوبوں کو وسائل کی تقسیم کو آبادی کے بجائے کارکردگی سے مشروط کرنا چاہیے‘ اس لیے کہ بڑھتی ہوئی آبادی ملکی وسائل پر بوجھ بن رہی ہے اور ترقی کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ بڑھتی آبادی ہمارے وسائل‘ معیشت‘ ماحول اور ریاستی ڈھانچے کیلئے چیلنج بن چکی ہے اور ریاست اور حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ آج جہاں سب اپنی معاشی صورتحال اور خصوصاً وسائل کی تقسیم پر اپنے مفادات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں‘ انہیں اس حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہماری معیشت تو پہلے ہی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔ آمدن کم‘ اخراجات زیادہ اور ترقیاتی بجٹ محدود ہے‘ ایسے میں آبادی میں ہر نئے فرد کا اضافہ معاشی دباؤ میں اضافہ کرتا ہے۔ معیشت بیروزگار نوجوانوں کا روزگارفراہم کرنے میں ناکام ہے۔ ملک کے مستقبل کا انحصار صرف مضبوط دفاع‘ مؤثر خارجہ پالیسی اور فعال معیشت پر نہیں بلکہ اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہم آبادی کے مسئلے کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ لہٰذا آج کی بڑی ضرورت یہ ہے کہ صوبے جب این ایف سی میں اپنے اپنے مسائل اور وسائل کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی بتائیں کہ ان کے پاس بڑھتی آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کی بھی کوئی حکمت عملی ہے‘ اور اگر نہیں ہے تو اب اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔
گیارہویں این ایف سی ایوارڈ کو حتمی شکل دیتے ہوئے یہ واضح کرنا ہو گا کہ ہمیں کس طرح آگے بڑھنا ہے اور درپیش چیلنجز سے نمٹنا ہے۔ کیا صوبے کارکردگی پر مبنی کسی مساوی فارمولے کیلئے تیار ہیں؟ کیا این ایف سی ایک مؤثر آئینی پلیٹ فارم کے طور پر کسی ایسی حکمت عملی اور طریقہ کار پر گامزن ہو سکتا ہے جس سے صوبوں میں شواہد پر مبنی فیصلوں کو بروقت یقینی بنایا جا سکے جو وفاق اور صوبوں میں جمود کو توڑنے کا باعث بنے‘ جس سے صوبے اپنے اپنے مفادات کے ساتھ وفاق کے مفادات کا بھی خیال رکھیں۔ صوبوں کوچاہیے کہ جیسے وفاق صوبوں کے حقوق‘ مسائل اور وسائل کا احساس کرتا ہے ‘ صوبے بھی وفاق کو مضبوط بنا نے میں کردار ادا کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved