یہ تماشا مضحکہ خیز حد تک پہنچ چکا ہے۔ تمام توپیں ایک نشانے پر مرکوز ہیں۔ لگتا ہے ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ ایک لیڈر اور اس کی جماعت کو دن رات مطعون کیا جائے۔ وزیر آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ ہرکاروں کا یہ عالم کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ دشنام طرازی کو کہاں تک لے جایا جائے۔ ایک وزیر کہتا ہے ملک کے خلاف بات کرنے والوں کی زبان نکال دی جائے۔ بلاول بھٹو بھی کسی سے پیچھے نہیں‘ فرماتے ہیں تحریک انصاف کا کوئی مستقبل نہیں۔ نہیں مستقبل تو اتنے پریشان کیوں ہیں؟ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اڑھائی سال سے لگے ہوئے ہیں ایک شخص کی عوامی پذیرائی کو ختم کرنے۔ مقصد پورا ہو نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ جھاگ ہونٹوں پر اور دانت پیسے جا رہے ہیں۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ قیدِ تنہائی میں تو ڈالا ہوا ہے‘ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے۔ جیل کی ایک کوٹھڑی ہے‘ مقدمات چل رہے ہیں‘ کوئی حکومتی ہرکارہ نہیں جو اسے برا بھلا کہنا اپنا فرض نہ سمجھے۔ لیکن اس سب بندوبست کا کوئی اثر تو ہو۔ کال کوٹھڑی سے چیخنے چلانے کی آوازیں آئیں۔ لمبی چوڑی بیماریوں کا تذکرہ ہو‘ یورپ سے امریکہ تک پی ٹی آئی والوں کی آوازیں نکلیں کہ قیدی کو باہر طبی علاج کی فوری ضرورت ہے۔ غصہ اس بات پر ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ بلکہ الٹا قیدی اپنی اکڑ میں بدستور قائم ہے اور کوئی ملاقاتی آئے تو اسے یہی پیغام ملتا ہے کہ ڈٹ کے رہنا ہے‘ اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا۔ قیدی کو میڈیا تک رسائی تو حاصل نہیں۔ اتنا کچھ ہی کہہ سکتا ہے اور اتنا کچھ کہنے پر اگلے غصے سے لال پیلے ہو جاتے ہیں۔
قید میں رکھا ہوا ہے لیکن وزرا اور دیگر سرکاری سرپنچوں کے دلوں کو تسکین نہیں ہو رہی۔ وہ اذیت بھی کیا جس میں آگے سے کوئی رونا دھونا نہ ہو۔ یہی چیز ہرکاروں کو کھائے جا رہی ہے۔ پریشان قیدی کو ہونا چاہیے مگر یہاں حکومت کو ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ دلوں میں آرزوئیں تو بہت پال رکھی ہوں گی لیکن یہ زمانہ ضیاالحق کا زمانہ نہیں۔ جو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا گیا تھا وہ اب ہو نہیں سکتا۔ حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ باقی ورکروں اور لیڈروں کے ساتھ وہ کچھ ہوا ہے جس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اعظم سواتی سے پوچھیے‘ کچھ اور نام بھی اس تناظر میں لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہاں مخصوص قیدی کی عالمی ساکھ ایسی ہے کہ احتیاط برتنی لازم ہو جاتی ہے۔ یہی عتاب کی آرزو پالنے والوں کا المیہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہاتھ اور ارادے رک جاتے ہیں۔ ایسے میں دانت پیسنے کے علاوہ کیا چارہ رہ جاتا ہے۔
ساری توپیں اس ٹارگٹ پر مرکوز ہیں لیکن مسائلِ مملکت بالکل مختلف ہیں۔ خبریں جو مرضی آپ لگائیں کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ خیبر پختونخوا میں خاص طور پر جنوبی اضلاع میں سکیورٹی صورتحال بہت سنگین ہے۔ صوبے کے عوام کا موڈ کیا ہے ‘ نوجوان چیف منسٹر کس قسم کا آدمی ہے وہ بھی سب پر عیاں ہے۔ طورخم بارڈر کی بندش سے صوبے کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر ویسے ہی قومی معیشت کا برا حال ہے۔ انویسٹمنٹ آ نہیں رہی‘ درآمدات بڑھ رہی ہیں‘ برآمدات منجمد ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ دھیان تو ان چیزوں پر جانا چاہیے لیکن نظریں لگی ہوئی ہیں جیل کی ایک کوٹھڑی پر کہ وہاں سے آہ وپکارکی آوازیں کیوں نہیں آ رہیں۔ ہندوستان سے کشیدگی‘ افغانستان سے جنگی صورتحال اور تیسرا محاذ اندرونِ ملک جو کھلا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں ریاست کا کاروبار چل سکتا ہے؟ کتنا کچھ معتوب جماعت کے ساتھ ہو چکا ہے۔ اور کیا اس جماعت کے ساتھ کرنا ہے؟ انتخابات کے نتائج چھین لیے گئے‘ مرضی کی حکومتیں قائم کی گئیں‘ آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا‘ عدلیہ کو مطلوبہ راستوں پر ڈال دیا گیا۔ لیکن ان سب تدابیر کے باوجود لگتا یہی ہے کہ حالات قابو میں نہیں۔ چیزیں بہتری کی طرف نہیں جارہیں۔ حکومتی ہرکاروں کے بیانات کو سامنے رکھیں تو یہی تاثر ملتا ہے کہ کسی بڑی پریشانی میں مبتلا ہیں۔
جب سب کچھ آپ کے ہاتھ میں ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ دودھ اور شہد کی چند نہریں پھوٹ پڑتیں۔ عوامی خوشحالی کا ایک دور شروع ہوتا‘ کہیں کہیں عوام بھنگڑے ڈال رہے ہوتے‘ آپ کی تعریف وتوصیف میں دن اور شامیں گزرتیں۔ لوگ آپ کی طرف دیکھتے اور مخصوص قیدی کی یاد ذہنوں سے نکال دیتے۔ آپ تو کہتے ہوں گے کہ آپ کی مقبولیت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ پھر انتخابات کا خطرہ مول لے لیں۔ چلیں ابھی نہیں کیونکہ کرشمات سے پیدا ہونے والی اسمبلیاں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ آئندہ دو تین سال میں جو آئین کی رُو سے معرکہ ہونا ہے اُس میں اپنے وسوسوں پر کچھ قابو کر کے کھلے انتخابات کا اہتمام ہونا چاہیے۔ آخر کیا ہمارے نصیبوں میں یہ بات لکھی جا چکی ہے کہ آئندہ جو انتخاب ہو گا فارم 47 والا ہو گا؟ بھولے سے سہی عوام کی رائے تو پوچھ لی جائے تاکہ کسی شک کی گنجائش نہ رہے۔
ڈنڈے کے زور پر کس کس نے حکومت نہیں کی۔ گھڑ سواروں کی فہرست ہمارے سامنے ہے‘ لیکن ملک کا حشر کیا ہوا؟کچھ دیرپا چیز قائم نہ ہو سکی‘ ملک کو استحکام نصیب نہ ہوا کیونکہ معاملاتِ مملکت کو آئینی بنیادوں پر رکھنے کے بجائے ڈنڈے کے استعمال سے کام چلایا جاتا رہا۔ ڈنڈے کا اپنا ایک منفرد پرابلم بھی ہوتا ہے۔ ہماری اپنی تاریخ بتاتی ہے کہ جو یہاں ڈنڈے والے آئے انہوں نے اپنی محدود سوچ قوم پر مسلط کی۔ اس لیے بہت کچھ ہونے کے باوجود ہم کہیں کے نہ رہے۔ امریکی وظیفوں پر ریاست کا کام چلا اور اب بھی کشکول کا سہارا ہی معتبر حیثیت رکھتا ہے۔
مقصد کسی شخص کی مدح سرائی نہیں۔ آج کے حالات میں اس شخص کی یہ اہمیت بن چکی ہے کہ جن آئینی اور قومی ضرورتوں سے قوم محروم ہے ان چیزوں کا نشان یا سِمبل وہ بن گیا ہے۔ لاکھ کمزوریاں ہوں گی‘ لاکھ کمزوریاں تھیں لیکن آج کے حالات مختلف ہیں۔ آج ایک طرف اقتدار کا مخصوص طریقہ کار اور دوسری طرف ایک شخص اور اُس کا مزاحمتی کردار۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ذکر آج کے جبر کا ہو رہا ہو اور حوالہ ایک دم ماضی کے کسی واقعہ کا دے دیا جائے۔ نظر وقتِ موجود پر ہونی چاہیے کہ آج کے تناظر میں کسی کا کیا کردار ہے۔ بہتوں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی‘ 2018ء کے انتخابات کی بات چھیڑ دیں گے‘ باجوہ اور فیض کو بیچ میں لے آئیں گے۔ اپنی جگہ یہ سب باتیں ٹھیک ہیں لیکن اولین اہمیت اس بات کی ہے کہ فی الوقت دریا کی موجوں کا سامنا کون کس طرح کر رہا ہے۔ اچھے موسموں میں سب ہیرو ہوتے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ برے وقتوں میں کون کس انداز سے کھڑا ہے۔
حکومت گئی تو اگلوں کے پاؤں پڑ جاتا۔ مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا‘ نکل جاتا انگلینڈ وہاں کے کلبوں کے مزے لینے۔ پر نہیں گیا نا! اور یہیں رہا۔ یہی تو مسئلہ ہے کہ کیسی سخت مٹی کا بنا ہوا ہے۔ ہم جیسا کوئی ہوتا تو کب کے معاملات طے کر لیے ہوتے۔ نوجوان اور بوڑھوں نے اب تک آنکھ کا تارا کیوں بنایا ہوا ہے؟ یہی وجہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved