مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ مقتدرہ اور عمران خان کے درمیان محاذ آرائی ہمیشہ جاری رہے۔ عمران خان نے اس وقت اپنی سیاسی چالوں سے مقتدرہ اور اپنے درمیان محاذ آرائی کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ عمران خان کو جیل میں رکھنا (ن)لیگی قیادت کی دلی تمنا تھی جس کا مقصد اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کرکے انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کرنا تھا۔ سیاسی حرکیات میں یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں رہی کہ جب بھی کسی سیاسی جماعت کا مقتدرہ کے ساتھ تصادم بڑھتا ہے تو اس کا فائدہ اکثر اُس فریق کو پہنچتا ہے جو پسِ پردہ رہ کر اپنی جگہ مضبوط کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے مقتدرہ کے خلاف جارحانہ بیانیے کا مسلم لیگ (ن) نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی جگہ مضبوط کی۔
عمران خان کی مقتدرہ مخالف ٹویٹس اور مقتدرہ مخالف بیانیے کے حوالے سے ترجمان پاک فوج کا نقطۂ نظر بالکل درست ہے کیونکہ عمران خان کا بیانیہ واقعی بہت جارحانہ رہا ہے۔ لیکن حالیہ پریس بریفنگ کے بعد سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بیانات اور طرزِ عمل پاکستان تحریک انصاف کیلئے جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ اس وقت مقتدرہ اور عمران خان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا سب سے زیادہ فائدہ یہی دو جماعتیں اٹھا رہی ہیں۔ سیاست میں ہمیشہ سے یہ چلن رہا ہے کہ کمزور پوزیشن رکھنے والی جماعتیں طاقتور اداروں کے بیانیے کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ریاستی ادارے صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلاتے‘ انہوں نے جو کرنا ہوتا ہے کر گزرتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے دوران نواز شریف کی بھی ایک ماضی کی مقتدرہ مخالف تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی‘ اس سے نہ صرف سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہوا بلکہ عوام میں موجود عدم اعتماد کا احساس بھی مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
اب ریاست اور عوامی نمائندوں کے درمیان ٹکراؤ رک جانا چاہیے کیونکہ یہ صورتحال کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں۔ خطے کی موجودہ صورتحال اور ملک کو درپیش سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ملک کے سیاستدانوں‘ اداروں اور عوام تینوں کو ایک سطح پر لانے کی ضرورت ہے۔ عوام میں مقتدرہ کے حوالے سے اعتماد میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ موجودہ سیٹ اَپ تحلیل کر کے تین سال کیلئے ایک قومی حکومت قائم کر دی جائے۔اس دوران تمام سیاستدانوں کا بلاامتیاز احتساب ہونا چاہیے‘ کرپٹ عناصر سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جانی چاہیے‘ اور آئی ایم ایف کی پاکستان سے متعلقہ گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی نظام کو ازسرِنو ترتیب دیا جانا چاہیے۔ ملک کی معاشی بدحالی‘ بیرونی دباؤ‘ سفارتی پیچیدگیوں اور سماجی بے چینی نے ایک ایسے ڈھانچے کی ضرورت پیدا کر دی ہے جو وقتی نہیں بلکہ پائیدار اصلاحات متعارف کرانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کب تک ملکی سلامتی اور عوامی لیڈرشپ کے بیانیے میں ٹکراؤ برقرار رہے گا؟ یہ سلسلہ حسین شہید سہروردی سے شروع ہو کر شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچا‘ اور اب عمران خان کے حوالے سے بھی وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے‘ جبکہ نواز شریف ڈان لیکس کی وجہ سے پہلے ہی اس دائرے میں آ چکے ہیں۔
شنید ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا معاملہ وفاقی کابینہ میں لے جایا جا رہا ہے۔ آئینی طور پر آرٹیکل 17کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ایسی جماعت کو خلافِ قانون قرار دے سکتی ہے جو ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہو یا ریاست کے مفاد کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔ اگر کسی جماعت کے خلاف فارن فنڈنگ کے واضح ثبوت موجود ہوں تو بھی وزارتِ داخلہ اس جماعت کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ممالک میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کے فیصلے عدالتوں کے ذریعے طے پاتے ہیں تاکہ سیاسی جبر اور قانونی کارروائی میں فرق برقرار رکھا جا سکے۔ ماضی میں فروری 1973ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے صوبہ سرحد اور بلوچستان کی حکومتیں تحلیل کر کے گورنر راج نافذ کیا تھا‘ جہاں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت تھی۔ بعد ازاں 1975ء میں خان عبدالولی خان کی مبینہ وطن دشمن سرگرمیوں کی بنیاد پر ان کی جماعت کو خلافِ قانون قرار دیا گیا‘ اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل غلام جیلانی اور بریگیڈیئر اسلم بودلہ کی مدعیت میں ان کے خلاف مقدمہ دائر ہوا‘ جس کی توثیق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمن نے کی تھی۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے تو اسے بھی نو مئی 2023ء کے واقعات‘ فارن فنڈنگ کے ریکارڈ اور عمران خان کے ملکی سلامتی کے خلاف تصور کیے جانے والے ٹویٹس اور رویے کی بنیاد پر آئین کے آرٹیکل 17کے تحت خلافِ قانون قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے کی توثیق کیلئے ایک مہینے کے اندر سپریم کورٹ آف پاکستان (وفاقی آئینی عدالت)کو ریفرنس بھجوانا ضروری ہو گا۔ اگر سپریم کورٹ اس فیصلے کی توثیق کر دیتی ہے تو الیکشن کمیشن گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر کے پارٹی کو کالعدم قرار دے سکتا ہے اور اس کے اثاثے ضبط کر سکتا ہے۔ پارٹی کے حمایت یافتہ اراکینِ اسمبلی چونکہ آزاد حیثیت رکھتے ہیں اس لیے ان کی نشستیں برقرار رہیں گی‘ تاہم اگر خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم کر کے وہاں گورنر راج نافذ کیا گیا تو تحریک انصاف کے اراکینِ اسمبلی کی رکنیت معطل ہو جائے گی۔ مگر اس کے باوجود اس اقدام سے ملک کو سیاسی یا بین الاقوامی سطح پر کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ خارجہ محاذ پر بھی اس کے اثرات محسوس ہوں گے کیونکہ جمہوری تسلسل میں رکاوٹ پاکستان کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔ یہ اقدام عمران خان کو مقتدرہ کے مزید خلاف کردے گا۔ عمران خان کی عوام میں مقبولیت کی وجہ 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنا‘ شوکت خانم کینسر ہسپتال اور سیاست میں سٹیٹس کو کو چیلنج کرنا ہے۔دوسری جانب ان کے سیاسی مخالفین بھی عوام میں اپنا قابلِ ذکر اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ عمران خان اور مخالفین‘ دونوں نے مختلف طبقات میں اپنی حمایت پیدا کی ہے‘ اس لیے دونوں کے اپنے اپنے حامی موجود ہیں‘ مگر اس سے معاشرے میں تقسیم گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ضروری ہے کہ قومی سطح پر ایسا مکالمہ شروع ہو جو اس خلیج کو کم کرسکے۔ قوم کا اصل لیڈر وہی ہوتا ہے جو قوم کو یکجا کرے‘ جسے دیکھ کر قوم میں امید‘ تحفظ اور وقار کا احساس پیدا ہو۔
چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر فوج میں طویل اور نظم و ضبط پر مبنی کیریئر‘ بیشتر حساس عہدوں پر خدمات‘ ریاستی سلامتی کے بیانیے کی مضبوط قیادت اور دفاعی کامیابیوں کی وجہ سے عوام کے حقیقی ہیرو ہیں۔ تینوں مسلح افواج کے افسران سے خطاب میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ بدلتے ہوئے خطرات کے پیش نظر ضروری ہے کہ ہم ملٹی ڈومین آپریشنز کو تینوں افواج کے متحد نظام کے تحت مزید بہتر بنائیں۔ ڈیفنس فورسز ہیڈکوارٹرز کا قیام اس سمت ایک اہم قدم ہے۔ ہر سروس اپنی آپریشنل انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرے گی۔ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے‘ آئندہ پاکستان کا جواب پہلے سے زیادہ شدید اور برق رفتار ہوگا۔ طالبان رجیم کو بھی واضح پیغام دیا جا چکا ہے کہ ان کے سامنے فتنۂ خوارج یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا آپشن رہ گیا ہے۔ پاکستان امن پسند ملک ہے‘ مگر اپنی خودمختاری‘ علاقائی سالمیت اور قومی وقار کے تحفظ میں کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔ یہ بیانیہ دراصل ریاست کی اس مستقل پالیسی کی عکاسی کرتا ہے کہ امن کی خواہش کمزوری نہیں اور دفاعی تیاری اشتعال نہیں بلکہ ناگزیر ضرورت ہے۔پاکستان ہمیشہ زندہ باد!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved