سائنس اور دیگر علوم وفنون میں ترقی کے باوجود تاحال انسان مشکلات کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ زندگی میں کسی بھی وقت کوئی انسان یا گروہ تکالیف اور پریشانیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ انسان خواہ ان تکالیف سے بچنے کی کتنی بھی کوششیں کیوں نہ کر لے‘ کئی بار وہ ان سے اس لیے نہیں بچ پاتا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جب کسی کو مبتلائے مصیبت کرنا چاہتے ہیں تو کوئی اس کے فیصلے اور امر کو ٹال نہیں سکتا۔ مشکلات اور پریشانیاں کیوں آتی ہیں؟ اس سوال کا جواب مختلف علوم وفنون کے ماہرین اپنے اپنے انداز میں دیتے ہیں تاہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں جو جواب ملتا ہے‘ وہ انتہائی اہم اور متوازن ہے۔ مشکلات اور مصائب کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔ اللہ کی طرف سے آزمائش: اللہ تبارک وتعالیٰ کے بہت سے نیکوکار بندے بھی مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن یہ پریشانیاں درحقیقت ان کیلئے آزمائش اور ان کے درجات کی بلندی کا سبب ہوتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیات: 155 تا 157 میں اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں ''اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے‘ (دشمن کے) ڈر سے‘ بھوک پیاس سے‘ مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے‘ جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں؛ ایک تو یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کسی بھی شخص کو کسی بھی طریقے سے آزما سکتے ہیں۔ دوسری یہ کہ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی تکالیف اور مصیبتوں پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمتوں کا نزول فرماتے اور اس کو سیدھے راستے کی طرف گامزن کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۃ العنکبوت کی آیات: 2 تا3 میں کچھ یوں بیان فرمایا ''کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں‘ ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟ ان سے پہلے لوگوں کو بھی ہم نے خوب آزمایا‘ یقینا اللہ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں‘‘۔
دین اور ایمان کے حوالے سے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی مختلف طرح کی اذیتوں اور مشکلات کو جھیلنا پڑا اور وہ ان تمام مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح آپ علیہ السلام نے بستی والوں کی مخالفت کو مول لیا اور کس طرح وقت کے حاکم نمرود نے توحید کے ساتھ آپ کے تعلق کی وجہ سے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام ان تمام مشکلات کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے رہے‘ یہاں تک کہ آپ کو اپنی محبتوں کی قربانی بھی دینا پڑی۔ حضرت ہاجرہ اور ننھے اسماعیل علیہما السلام کو اللہ کے حکم پر'' وادیٔ غیر ذِی زرع‘‘ میں چھوڑ دیا اور جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ دوڑ دھوپ کے قابل ہوئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھلایا کہ آپ ان کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ اس واقعے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الصافات کی آیات: 102 تا 105میں کچھ یوں بیان فرمایا ''پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے‘ تو اس (ابراہیم) نے کہا: میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں‘ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس (باپ) نے اس (بیٹے) کو پیشانی کے بل گرا دیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقینا تُو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا‘ بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں‘‘۔
اولو العزم رسولوں نے اللہ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں کو صبر واستقامت سے برداشت کیا۔ حضرت نوح‘ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی حیاتِ مبارکہ اس حوالے سے ہمارے لیے ایک مثال ہے اور سب سے بڑھ کر نبی کریمﷺ‘ جن کو اللہ کی توحید کی دعوت دیتے ہوئے غیر معمولی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپﷺ نے ہر تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا یہاں تلک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کے طرزِ عمل کو رہتی دنیا تک کیلئے اسوۂ کامل بنا دیا۔ حضراتِ صحابہ کرامؓ اور ائمہ دین کو بھی اسلام اور ایمان کی وجہ سے مختلف طرح کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ صبر واستقامت کی تصویر بنے رہے۔
2۔ انسانوں کی کوتاہیوں کا نتیجہ: بسا اوقات تکالیف اور مشکلات انسانوں کے گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الشوریٰ کی آیت: 30 میں ارشاد فرماتے ہیں ''تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے‘ اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے‘‘۔ جب انسان اجتماعی طور پرگناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بحر وبر میں فساد ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت کو سورۃ الروم کی آیت: 41 میں کچھ یوں بیان کیا گیا ''خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا‘ اس لیے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ چکھا دے‘ (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آ جائیں‘‘۔ جب انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے ابتلائوں کا شکار ہوتا ہے تو اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے ندامت اور پشیمانی کے آنسو بہانے چاہئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ یقینا انسان کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ سورۃ الزمر کی آیت: 53 میں ارشاد ہوا ''(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جائو‘ بالیقین اللہ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے‘ واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے‘‘۔
3۔ مجرموں کیلئے عذاب کا کوڑا: کئی مرتبہ مشکلات اور تکالیف مجرموں کیلئے اللہ کے عذاب کاکوڑا ہوتی ہیں اور ایسی صورت میں اللہ کے عذاب کو ٹالنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حوالے سے سورۃ العنکبوت کی آیات: 36 تا 40 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو‘ قیامت کے دن کی توقع رکھو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ پھر بھی انہوں نے انہیں جھٹلایا تو آخر انہیں زلزلے نے پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے مردہ ہو کر رہ گئے۔ اور ہم نے عادیوں اور ثمودیوں کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں ان کی بداعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ سے روک دیا تھا باوجودیکہ یہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے۔ اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی‘ ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے‘ پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے۔ پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا‘ ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا‘ اللہ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے‘‘۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب اترتا ہے تو یہ باقی رہ جانے والے اور پیچھے آنے والے لوگوں کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت کی ایک علامت ہوتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو آزمائشوں میں سرخرو کرے‘ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور ہمیں مجرموں میں شامل ہونے سے محفوظ رکھے‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved