تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     11-12-2025

جمشید نسروانجی سے جوگندر ناتھ منڈل تک

1933ء میں کراچی کثیر المذاہب اور کثیر النسل شہر ہونے کے باوجود روشن خیالی‘ وسعت نظری‘ تحمل‘ برداشت‘ محبت اور یگانگت کا ایک ایسا نمونہ تھا جس کی اب ہم صرف حسرت ہی کر سکتے ہیں۔ اس سال کراچی نے اپنے میئر کیلئے مخیر‘ صاحبِ ثروت‘ انسان دوست اور سماجی کارکن جمشید نسروانجی مہتا کا انتخاب کیا۔ پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے جمشید نسروانجی کراچی کے پہلے باقاعدہ میئر تھے‘ جن کو آج بھی بابائے کراچی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ابراہام ری یوبن جو 1919ء میں کراچی میونسپلٹی کیلئے منتخب ہونے والا پہلا یہودی کونسلر تھا‘ بھی 1933ء میں جمشید نسروانجی کیساتھ کراچی کی تعمیر وترقی میں بطور کونسلر شامل تھا۔ تب کراچی میں آبادی کا مذہبی تناسب یوں تھا کہ ہندو کل آبادی کا تقریباً نصف یعنی 50 فیصد تھے۔ مسلمانوں کی شرح 45 فیصد تھی جبکہ بقیہ میں تین فیصد کے لگ بھگ مسیحی‘ بمشکل ایک ڈیڑھ فیصد پارسی اور باقی ایک فیصد سے کم سکھ‘ یہودی اور بہائی وغیرہ تھے۔ایک ڈیڑھ فیصد کے لگ بھگ آبادی کے حامل پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والا نسروانجی اس شہر کا میئر تھا۔ اور صرف جمشید نسروانجی پر ہی کیا موقوف‘ جمشید نسروانجی کے بعد بھی دو پارسی اس شہر کے میئر منتخب ہوئے۔ کراچی کی تعمیر وترقی میں پارسیوں کا کردار ناقابلِ فراموش رہے گا۔ صرف جمشید نسروانجی کا ہی ذکر کیا جائے تو ان کی میئرشپ کے دور میں کراچی میں سڑکوں‘ گٹر لائنوں اور نکاسیِ آب کا باقاعدہ نظام بنایا گیا۔ ہسپتال اور شہری دفاعی ادارے قائم کیے گئے۔ شہر کی صفائی کا باقاعدہ انتظام عمل میں لایا گیا۔ تجاوزات کے خلاف اقدامات کیے گئے۔ یہ کراچی شہر کیلئے شہری منصوبے بندی کے منظم نظام کی باقاعدہ ابتدا تھی۔
تب پہلی باقاعدہ شہری پلاننگ شروع کی گئی اور سرکاری وسائل کیساتھ ساتھ جمشید نسروانجی نے اپنی ذاتی جیب سے بھی شہر میں فلاحی اور رفاہی منصوبے مکمل کروائے۔ آج کراچی شہر غریبوں اور مستحقین کو کھانے کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تاہم فقیروں‘ مزدوروں اور بے گھروں کو مفت کھانے کی فراہمی‘ بے سہارا خواتین اور بچوں کی کفالت کیلئے وظیفہ اور فلاحی اداروں کو اپنی ذاتی جیب سے چندہ دینے کی ابتدا شاید جمشید نسروانجی نے کی تھی۔
شاہراہ فیصل اور فاطمہ جناح روڈ کے سنگم پر موجود پتھر کی خوبصورت عمارت قائداعظم ہاؤس‘ جسے بعد میں میوزیم میں بدل دیا گیا‘ کراچی کے پارسی میئر سہراب کاؤس جی کی ملکیت تھا‘ جسے قائداعظم نے ان سے خرید کر رہائشگاہ بنایا۔ اس گھر کا ڈیزائن کراچی میں رہنے والے عراقی النسل یہودی موسس سومیکے نے بنایا تھا‘ تب کراچی میں ہزاروں یہودی رہائش پذیر تھے۔
کراچی آج بھی اپنے پرانے پارسی مکینوں کا احسان مند ہے۔ سیٹھ ایڈلجی ڈنشا 1842ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ برطانوی فوج کی ٹھیکیداری میں نام اور پیسہ دونوں کمائے۔ انیسویں صدی کے آخر میں وہ کراچی کی نصف زمینوں کے مالک تھے۔ پیسہ بھی خوب کمایا اور اسے فلاحی کاموں میں بھی جی بھر کر لگایا۔ ان کے خیراتی اور فلاحی کاموں کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے یکم مارچ 1900ء کو آرڈر آف دی انڈین ایمپائر کا ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے اس فلاحی کاموں والے جذبے کو ان کے بیٹے نادر شا ایڈلجی نے جاری رکھا۔ سیٹھ ایڈلجی ڈنشا نے کئی ہسپتال اور شفاخانے بھی بنوائے مگر اہلِ کراچی بلکہ اس خطے کے نوجوانوں پر ان کا سب سے بڑا احسان نادرشا ایڈلجی ڈنشا انجینئرنگ یونیورسٹی ہے‘ جو ان کے نام کے پہلے حروف کے حوالے سے این ای ڈی یونیورسٹی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی کی ابتدا 1921ء میں پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج کے نام سے ہوئی۔ 1924ء میں اس کا نام بدل کر اس کالج کے بانی اور اس کی تعمیر میں ذاتی پیسہ خرچ کرنے والے نادر شا ایڈلجی ڈنشا کے نام پر این ای ڈی گورنمنٹ انجینئرنگ کالج کر دیا گیا۔ 1977ء میں اسے چارٹر یونیورسٹی کا درجہ مل گیا۔ یہ اس سارے خطے میں انجینئرنگ کی تعلیم کا سب سے قدیمی ادارہ ہے۔
کراچی ہی کے ایک اور پارسی سیٹھ شاہ پور جی ہرمنرجی سپاری والا اور ان کے خاندان نے 1859ء میں پارسی بالک شالا (پارسی بچوں کا مکتب) کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ سکول دادا بھائی پالن جی کے گھر میں قائم ہوا۔ شاہ پور ہرمنرجی سپاری والا کی بیگم 1868ء میں پرلوک سدھار گئیں تو انہوں نے اپنی بیوی کی یاد میں 1870ء میں اس بالک شالا کو دس ہزار روپے کا عطیہ دیتے ہوئے یہ شرط عائد کی کہ اس سکول کا نام ان کی سورگباشی بیوی کے نام پر ہو گا۔ اس وقت کے دس ہزار روپے آج کے کروڑ روپوں سے زیادہ تھے۔ ٹرسٹ کے ارکان نے یہ شرط قبول کر لی۔ بالک شالا کا نام بائی ویر بائی جی سپاری والا کے نام پر بائی ویر جی سپاری والا (BVS) پارسی سکول رکھ دیا گیا۔ اس کا افتتاح سندھ کے کمشنر سر ولیم مری ویدر نے 1870ء میں کیا۔ اس سکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر کے طور پر جمشید جی فرام جی ماسٹر نے فرائض سنبھالے۔ بعد میں سیٹھ شاہ پور جی ہرمنرجی کے بیٹے سیٹھ خورشید جی سپاری والا نے وکٹوریہ روڈ پر اس سکول کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔
این ای ڈی یونیورسٹی اور بی وی ایس سکول کے علاوہ صدر میں قائم ایڈلجی ڈنشا چیئرپٹیل ڈسپنری‘ لیڈی ڈفرن ہسپتال اور ماما پارسی گرلز سکول اس کی چند مثالیں ہیں۔ تاہم کراچی شہر کی تعمیر وترقی میں جو کردار جمشید نسروانجی مہتا کا ہے وہ تاعمر ایک روشن مثال کی طرح جگمگاتا رہے گا۔ ان کی بے شمار خدمات میں نمایاں بات یہ ہے کہ جب انہوں نے کراچی میونسپلٹی کی باگ ڈور سنبھالی تب سارے شہر میں پختہ سڑکوں کی لمبائی صرف چودہ میل تھی اور جب وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے تو شہر میں پختہ سڑکوں کی لمبائی 76 میل (122 کلومیٹر) ہو چکی تھی۔ تارکول سے چمکتی یہ سڑکیں اپنے دور کے بہترین تعمیراتی معیار اور حسن کی حامل تھیں۔
کبول موٹوانی کئی برس تک جمشید نسروانجی مہتا کے پرسنل سیکرٹری رہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ذاتی طور پر زرتشت مذہب کے پیروکار ہونے کے باوجود وہ خدمتِ خلق‘ رفاہِ عامہ اور فلاحِ انسانیت کے حوالے سے مذہب‘ ذات‘ برادری اور رنگ ونسل سے بالاتر تھے اور خیراتی کاموں میں کسی قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر خرچ کرتے تھے۔ ساری عمر مجرد زندگی گزارنے والے جمشید نسروانجی مہتا اپنے سیکرٹری کے ذریعے ماہانہ پچاس لاکھ روپے کے لگ بھگ رقم فلاحی اور رفاہی کاموں میں خرچ کرتے تھے۔ وہ ہر ماہ کی یکم تاریخ کو اپنی دراز سے ایک فہرست نکالتے اور کراچی وکراچی سے باہر پورے ہندوستان سے منتخب کردہ مستحق خاندانوں کو نقد‘ چیک اور منی آرڈرز کے ذریعے رقم بھجواتے اور اس کی ساری عمر نہ تشہیر کی اور نہ ذکر کیا۔ نسروانجی کے بعد قیام پاکستان سے قبل‘ مزید تین یعنی کُل چار پارسی افراد میئر کراچی منتخب ہوئے۔ ایک سہراب کاؤس جی ہرمنرجی کٹرک‘ دوسرے اردشیر ہرمنرجی ماما اور تیسرے رستم خورشید جی سدھوا تھے۔ ٹیکم داس وادھو مل‘ درگا داس ایڈوانی‘ لال جی ملہوترا‘ شمبوداس مولراج اور وشرام داس دیوان داس پانچ ہندو اور ایک مسیحی مینوئل مسکیٹا اس شہر نگاراں کے غیر مسلم میئر رہے۔ پھر پاکستان بن گیا اور معاملہ بوگس الاٹمنٹوں سے ہوتا ہوا چائنہ کٹنگ تک پہنچ گیا۔ شہر کو دینے والے رخصت ہوئے اور شہر کو لوٹنے والے ہم پر مسلط ہو گئے۔ باقی تاریخ آپ کے سامنے ہے۔
قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ اس کیلئے جوگندرناتھ منڈل کے پاکستان کے پہلے وزیر قانون بننے کو سمجھنا ہوگا۔ اور پاکستان کیسا بن گیا اس کیلئے جوگندر ناتھ منڈل کے استعفے کو پڑھنا ہوگا‘ جو دے کر وہ واپس بھارت چلے گئے اور گمنامی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved