تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     12-12-2025

آدمی کا مقدر

جنرل (ر) فیض حمید کو چودہ برس سزا کا فیصلہ سن کر میرا دھیان اردو کی بڑی ادیبہ قرۃ العین حیدر کی طرف گیا جنہوں نے روسی ادیب شولو خوف کے ایک ناولٹ کا اردو ترجمہ کیا تھا ''آدمی کا مقدر‘‘۔
یہ ناول پڑھنے کے بعد اس کا نام میرے ذہن سے کبھی نہیں اُترا۔ مجھے قرۃ العین حیدر کی تحریریں پسند ہیں‘ اگرچہ ان کی کہانیاں میری سمجھ میںاس وقت آنا شروع ہوئیں جب میں نے زندگی کی چالیس بہاریں دیکھ لیں اور مجھے لگا کہ اب شاید اس عظیم مصنفہ کو پڑھ کر سمجھنے کے قابل ہو گیا ہوں۔ اس سے پہلے جب میں نے یونیورسٹی دور میں قرۃ العین حیدر کے ناول جیسے؛ آگ کا دریا‘ چاندنی بیگم‘ گردشِ رنگِ چمن‘ کارِ جہاں دراز ہے وغیرہ پڑھنے کی کوشش کی تو مجھے لگا کہ میں ان ناولز؍ کہانیوں کو فالو نہیں کر پا رہا۔ مجھے نعیم بھائی نے کہا تھا کہ قرۃ العین حیدر بہت پڑھی لکھی ادیبہ تھیں‘ وہ ایسی مصنفہ نہیں تھیں کہ بس ان کا ناول اٹھایا اور ایک دو بیٹھکوں میں پڑھ لیا۔ ناول پڑھنے والے کو خود بھی پڑھا لکھا ہونا چاہیے۔ انسان کو ہندوستان کی تاریخ‘ عالمی تاریخ‘ مذاہب کی تاریخ‘ رسم و رواج‘ دیوی دیوتاؤں‘ سب کا علم ہو تو پھر ہی آپ ان کی تحریریں کو کسی قدر سمجھ سکتے ہیں ورنہ یہ سب کچھ آپ کے سر پر سے گزر جائے گا۔ قرۃ العین حیدر کو پڑھنے کیلئے ایک پختہ ذہن درکار ہے۔ لہٰذا میں نے پہلے اپنا مطالعہ وسیع کیا اور چالیس سال کی عمر میں پہنچ کر میں نے قرۃ العین حیدر کے ناولوں کو دوبارہ اٹھایا۔ تبھی میں نے ان کی یہ ترجمہ شدہ کہانی 'آدمی کا مقدر‘ پڑھی۔ ان سے پہلے ٹالسٹائی بھی ان موضوعات پر بہت سی کہانیاں لکھ چکا تھا۔ اس کی ایک بہت مشہور کہانی ہے کہ خدا انصاف کرتا ہے لیکن وقت لگتا ہے۔ اس میں وہ ایک ایسے کردار کے بارے میں لکھتا ہے جو اپنے بیوی بچوں سے مل کر طویل سفر پر نکلتا ہے اور رات ایک سرائے میں قیام کے دوران قتل کے الزام میں پکڑا جاتا ہے۔ وہ لاکھ قسمیں کھاتا ہے لیکن اسے سزا دے کر سائبیریا بھیج دیا جاتا ہے۔ اپنے گھر بار‘ بیوی بچوں سے دور۔ وہ برسوں وہیں قید رہتا ہے اور اپنے مقدر پر حیران ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ خدا نے کیا تھا؟ وہ تو بے گناہ تھا پھر یہ سزا کیوں۔ برسوں بعد ایک اور قیدی وہاں لایا جاتا ہے۔ ایک دن وہ قیدی پرانے قیدی کے پاؤں میں گر پڑتا ہے کہ اُس رات سرائے میں قتل میں نے کیا تھا اور خنجر تمہارے بستر میں چھپا دیا تھا۔ میری وجہ سے تمہاری زندگی تباہ ہو گئی۔ اس نے کہا کہ وہ کل صبح جیل حکام کے سامنے اپنا جرم قبول کر لے گا تاکہ تم آزاد ہو کر اپنے گھر جا سکو۔ وہ معصوم انسان اسے خاموشی سے دیکھتا رہا کہ اتنے برسوں کی قید سے رہائی لے کر میں نے کیا کرنا ہے۔ اب زندگی میں باقی کیا رہ گیا ہے۔ لیکن اس دوسرے قیدی نے اصرار جاری رکھا کہ کل صبح وہ اپنا اعترافِ جرم کرے گا۔ لیکن وہ بے گناہ شخص اسی رات مر گیا۔ وہ شاید یہ سننے کیلئے زندہ تھا کہ وہ بے قصور ہے۔
ادب پڑھنے کا یہی فائدہ ہوتا ہے کہ آپ دنیا کے سینکڑوں کرداروں کی کہانیاں پڑھتے ہیں۔ تقریباً دنیا بھر کا ادب یہی کہتا ہے اور شاید مذاہب بھی کہ آدمی اپنے مقدر سے نہیں بھاگ سکتا۔ ایسی درجنوں کہانیاں پڑھی ہیں جو قدیم یونان‘ قدیم مصری تہذیب سے لے کر ٹالسٹائی اور شولو خوف تک ایک جیسی ہیں۔ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا قصہ بھی یہی بات ثابت کرتا ہے کہ آپ اپنی قسمت سے نہیں لڑ سکتے۔ جس بچے کی جان لینے کیلئے فرعون نے پورے مصر کے بچے مروا ڈالے وہ بچہ اس کے اپنے محل میں پل کر جوان ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سارے لوگ اعتراض کریں کہ اگر وہی ہونا ہے جو مقدر میں لکھا ہے تو پھر انسان کو محنت یا کام کی کیا ضرورت ہے؟ ایسا نہیں ہے! میں اس بندے کو خوش قسمت سمجھتا ہوں جسے تقدیر گھر سے اٹھا کر باہر لے جاتی ہے‘ اس سے محنت کراتی ہے اور اسے بڑے کام یا عہدے کیلئے تیار کرتی ہے اور ایک دن جب ہزار مشکلات سے گزر کر وہ بندہ مڑ کر پیچھے دیکھتا ہے تو اسے یقین نہیں آتا کہ واقعی آج وہ اس بلند مقام تک پہنچ گیا ہے۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن سے قدرت محنت کراتی ہے کیونکہ بغیر محنت آدمی اپنے مقدر کو نہیں پا سکتا۔
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر بندہ بلندی پر پہنچ کر نیچے کیسے گر جاتا ہے‘ جیسے ابھی ہم عمران خان اور فیض حمید کے کیس میں دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے بھٹو صاحب‘ بینظیر بھٹو یا نواز شریف کا مقدر بھی دیکھا ہے۔ 2022ء کے شروع میں کون سوچ سکتا تھا کہ عمران خان اور فیض حمید ایک دن جیل میں ہوں گے اور دونوں کو چودہ‘ چودہ برس سزا ہو گی؟ یہاں پھر آدمی کا مقدر سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ اکثر لوگ جب کامیابی کی بلندی پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ احتیاط اور سمجھداری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ انہیں احساسِ برتری اور کامیابی کا نشہ نیچے گرا دیتا ہے۔ برسوں سے زندگی ایک ہی ڈگر پر چل رہی ہوتی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ اب وہ ساری عمر ایسے ہی طاقتور رہیں گے۔ چیزیں ان کے کنٹرول میں رہیں گی‘ لیکن یہ اعتماد انہیں لے ڈوبتا ہے۔ انسان کامیابی کے نشے میں سب احتیاطیں چھوڑ دیتا ہے۔ کامیاب اور طاقتور لوگوں کے اردگرد خوشامدی اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ حکومت میں یار دوست‘ سرکاری افسران یا ماتحت مل جاتے ہیں جو آپ کو روز بتاتے ہیں کہ خدا آپ سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اس بندے کے ذہن میں یہ خیالات ایسے ڈالے جاتے ہیں کہ وہ خود کو دیوتا سمجھ کر ان باتوں پر یقین کر لیتا ہے کہ اس نے کچھ بڑا کرنا ہے اور بڑا کرنے کے چکر میں وہ خود پھانسی لگ جاتا ہے۔ ماتحت اور خوشامدی بھی آپ کو مروا دیتے ہیں۔ اب بھٹو صاحب نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ نواب قصوری کو گولی مار دو۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو نے کہا تھا: اسے فکس کردو۔ اگلوں نے فکس کرنے کا مطلب بندہ اڑانا سمجھ لیا۔ اس طرح بھٹو صاحب چاہتے تو اس قتل کی ایف آئی آر کو سیریس لیتے اور اپنے دور ہی میں اس کی انکوائری کرا کے خارج کرا دیتے۔ اس طرح جنرل ضیا کو انہیں پھانسی لگانے کا موقع نہ ملتا مگر بھٹو صاحب کو ان کی خود اعتمادی لے ڈوبی کہ میرا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اسی طرح عمران خان کو بھی الیکشن کمیشن بارہا نوٹس بھیج چکا تھا کہ اپنی پارٹی کے اندر الیکشن کرائیں۔ خان صاحب وزیراعظم تھا‘ اس لیے انہوں نے ان نوٹسز کو سیریس نہ لیا۔ عمران خان نے کب سوچا ہو گا کہ الیکشن کمیشن کے اس نوٹس کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے ان کی پارٹی ختم ہو سکتی ہے۔ ایک دن کا کام تھا پارٹی الیکشن کرانے کا لیکن جب آپ کو لگنے لگ جائے کہ اَپن ہی بھگوان ہے تو پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے۔
یہی کچھ فیض حمید نے کیا کہ وہ اپنے مقدر سے لڑنے چل پڑے۔ جب بینظیر بھٹو قتل ہوئیں تو اس دن پنڈی کے ڈی پی او کو کتنی مبارکبادیں ملی ہوں گی کہ وہ پنڈی جیسے ضلع میں پوسٹنگ لے کر آئے تھے‘ لیکن پھر اس افسر کی ریٹائرمنٹ جیل میں ہوئی۔ انسان جب اپنا مقدر خود لکھنے پر تُل جاتا ہے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے جو فیض حمید کے ساتھ ہوا ہے۔ آپ نے کوشش کر کے دیکھ لی‘ جنرل باجوہ کو توسیع دلوا دی‘ خان بھی وزیراعظم بن گیا‘ آپ نے جنرل عاصم منیر کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد فیض حمید کو اسے اپنا مقدر سمجھ کر خدا کے اس فیصلے پر راضی ہو جانا چاہیے تھا کہ یہ عہدہ آپ کے مقدر میں نہیں لکھا‘ آپ کا سفر یہیں تک تھا۔ آپ کا مقدر وہیں تک لکھا ہوا تھا‘ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ کا اپنا لکھا ہوا ہے۔ آپ ضد پر اُتر آئے‘ مقدر سے لڑنے لگے اور آخرکار جیل پہنچ گئے۔ وہی شولو خوف کا ناول یاد آتا ہے کہ کیا کریں آدمی کا یہی مقدر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved