جہاں خبریں پرانی ہوتی ہیں‘ وہاں ہوتی ہوں گی۔ ہم خوش قسمت ہیں‘ یہاں کوئی چیز‘ خصوصاً خبریں جو ہم روزانہ سنتے اور دیکھتے ہیں‘ اپنی یک روزہ میعاد کی قید میں نہیں رہتیں۔ ملک کا ایک انگریزی اخبار ہے جس کے ہم نصف صدی سے قاری ہیں۔ اس کی دس دسمبر کی اشاعت میں ایک تاریخ ساز سرخی لگی‘ جس کا ترجمہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب اسمبلی نے تحریک انصاف اور عمران خان پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کی ہے۔ عرصہ سے سُن تو رہے تھے کہ کئی دیگر منصوبوں کے ساتھ یہ فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے کہ معتوب پارٹی پر پابندی لگے گی۔ یہ ساری کہانی‘ بلکہ کتھا پڑھتے وقت یہ سمجھ نہیں پائے کہ بانی پی ٹی آئی پر پابندی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے‘ کہ وہ تو آخری خبریں آنے تک راولپنڈی کے انتہائی جنوبی علاقے کی جیل میں ہیں۔ وہ سلاخوں کے پیچھے ہیں‘ اور انہیں باہر آنے کی کوئی جلدی نہیں۔ خیر یہ کچھ دنوں بعد پتا چل سکے گا کہ ان کے حوالے سے جمہوری اور شفاف طریقے سے‘ غیر متنازع انتخابات کے ذریعے منتخب شدہ اراکینِ اسمبلی کے ذہن میں کیا خاکہ ہے کہ مزید پابندی کی عملی شکل کیا ہو گی۔ آپ اتفاق کریں گے کہ جو کچھ اب ہو سکتا ہے یا کم از کم جس کے امکانات ملک کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی کی اس تاریخی قرارداد کے بعد واضح نظر آتے ہیں۔ جب عوامی راہنما ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے پہلے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت کو چلتا کیا‘ اور پھر دو سال بعد فروری 1975ء میں اس جماعت پر پابندی لگائی تو جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے‘ کسی اسمبلی سے قرار داد پاس کرانے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی تھی۔ حکومت نے رائج الوقت پولیٹکل پارٹی ایکٹ کا سہارا لیا اور نیشنل عوامی پارٹی کو غدار‘ ملک دشمن اور دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے ثبوتوں کی بنیاد پر یہ قدم اٹھایا گیا۔
اس اقدام کا پس منظر نہ بیان کیا جائے تو غیر مناسب ہو گا۔ فروری 1973ء میں بھٹو صاحب نے قومی سلامتی اور یکجہتی کے پیش نظر بلوچستان کی قومی تاریخ میں عوامی حمایت سے بننے والی حکومت کو اقتدار سے محروم کیا تو اس پارٹی کی قیادت کے ایک حصے‘ خصوصاً نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔ تخریبی کارروائیوں اور دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے تھے‘ اور یہ درویش اُس دن اسلام آباد کی میلوڈی مارکیٹ کے قریب تھا جب وہاں شہر کے اکلوتے سنیما ہاؤس میں بم پھٹا اور کئی افراد شہید ہو گئے۔ حیات محمد خان شیر پاؤ‘ جو آفتاب شیر پاؤ کے بڑے بھائی اور پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں میں سے تھے‘ ایک جلسے میں بم دھماکے کے نتیجے میں شہید ہو گئے۔ بھٹو صاحب کا فیصلہ درست تھا یا غلط‘ معاملہ عدالت عظمیٰ میں چلا گیا۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آئینی عدالت الگ بھی ہو سکتی ہے۔ اسی سال کے آخری مہینوں میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کے فیصلے کو درست قرار دے دیا‘ اور تب گرفتار رہنماؤں‘ بشمول ملک کے مقبول ترین شاعر حبیب جالب پر بھی غداری کا مقدمہ چل رہا تھا۔
اس خبر کی بازگشت آج کے اخبار کی شہ سرخی سے کہیں زیادہ ادارتی صفحے کے اُس کالم میں دیکھی جہاں ستر سال پہلے‘ اس روز کی نمایاں خبریں ہمیں رلانے اور شرمندہ کرنے کیلئے یہ اخبار چھاپتا ہے۔ دو خبریں تھیں‘ جن کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم بچے سے بوڑھے ہونے کی طرف تیز تر قدم اٹھا رہے ہیں‘ مگر یہ خبریں آج بھی پرانی نہیں ہوئیں۔ پہلی خبر کا عنوان ہے کہ کابل حزبِ اختلاف کو بھڑکا رہا ہے۔ سرکاری ترجمان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابل براہِ راست حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو احتجاج پر بھڑکا رہا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ کابل کی آمر مزاج حکومت یہاں کی حکومت مخالف جماعتوں کو‘ جن کا تین دسمبر کو لاہور میں اجلاس ہوا‘ ملک میں بے چینی پھیلانے اور شورش برپا کرنے کی شہ دے رہی ہے۔ اس سے کابل اور نیشنل عوامی پارٹی‘ جو ایک دوسرے کے اتحادی ہیں‘ کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے نیشنل عوامی پارٹی کے وطن دشمن کردار کے بارے بہت زیادہ شواہد سامنے آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ خبریں پرانی ہیں‘ اور آج کے حالات سے جو ملک اتحادی جماعتوں کی ولولہ انگیز قیادت کی بدولت سنبھل چکا اور ترقی کی راہ پر اس طرح گامزن ہے جس طرح کوئی موٹر وے پر پولیس کی عدم موجودگی میں موٹرکار چلا رہا ہو۔ شکر ہے کہ وہی پارٹی اپنے نام کو آگے پیچھے کرکے آج کی سیاست میں نہ صرف زندہ بلکہ موجودہ حکومت کی اتحادی بھی ہے۔ دیکھتے ہیں اس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ پتا نہیں اونٹ رہ بھی گیا ہے یا گھاس چرنے کہیں دور نکل گیا ہے۔
دوسری خبر ہمیں زیادہ دلچسپ لگی ہے۔ اگر آپ کیلئے بوریت پیدا کرے تو یہ ضرورکہنے دیں کہ تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں ماضی کے کردار واضح خدوخال کے ساتھ آج کا قصہ سنانے کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو گزارش کررہا ہوں کہ کچھ پرانی خبریں وطن عزیز کی مٹی کی رعنائیوں سے اُگنے والے موسمی پھولوں کی خوشبو کی طرح ہمیں معطر رکھتی ہیں۔ اس خبر میں گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کا بیان ڈھاکہ کے کسی جلسے میں ہے کہ ترقی کی رفتارکا انحصار آپ پر ہے۔ آپ میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کو مضبوط اور خوشحال بنائے۔ کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ اس بارے غفلت کا مرتکب ہو جس سے ترقی کا عمل رُک جائے۔ انہوں نے قوم کیلئے پیغام اردو زبان میں تقریر کرتے ہوئے دیا۔ ہم نہیں دیکھتے کہ کسی نے اردو یا انگریزی میں تقریر کی ہے۔ ایک بندرگاہ کی تعمیر مکمل ہونے کے اعلان کے بعد کہا کہ مشرقی پاکستان میں حالات معمول پر آ گئے ہیں اور مسلمان اور ہندو اب ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ وہ تحریکِ پاکستان کے صف اول کے ممتاز رہنما تھے‘ جو اُس زمانے کے طاقتور حلقوں کے نہ جانے کیوں دل میں کھٹکتے تھے۔
خواجہ ناظم الدین کو ملک غلام محمد‘ جن کے ذہنی توازن اور صحت کے بارے میں بہت کچھ اُس وقت بھی لوگ کہتے اور لکھتے تھے‘ نے دھیرے سے 17 اپریل 1953ء کو اقتدار سے محروم کر دیا۔ ٹکراؤ تو تبھی پیدا ہو چکا تھا کہ سیاستدان کہتے تھے پارلیمان مقتدر ہے‘ سب فیصلے اور اقتدار اس کے پاس ہو گا۔ غیرجمہوری ٹولے کا خیال کچھ اور تھا‘ کہ ان سیاسی لوگوں کو کیا پتا کہ ملکوں کو کیسے چلایا جاتا ہے اور ترقی کیسے ہوتی ہے۔ ٹھیک دو سال بعد‘ 1955ء میں اسکندر مرزا نے ملک غلام محمد کو چلتا کیا اور خود گورنر جنرل بن بیٹھے۔ ایوب خان ان کی کابینہ کے رکن تھے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ نظام جس کی پذیرائی اب بھی ہے‘ کی ابتدا ہو چکی تھی۔ آخر 27 اکتوبر 1958ء کے روز جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کوایک جہاز میں بٹھایا اور کہیں دور چھوڑ آئے‘ اور خود ملک کو اپنے سنہری نظریات کی روشنی میں اس قوم کے مزاج کے مطابق دس سال تک چلاتے رہے۔ ہم چونکہ ان کے مخالفین میں شامل تھے‘ ہمیں بہت کچھ یاد ہے‘ مگر یہ کہنا کہ ترقی نہیں ہوئی تھی‘ غلط ہو گا۔ مگر مسئلہ تو کچھ اور تھا۔ نمائندگی اور اقتدارکی ملک کے دو حصوں میں متصادم تقسیم۔ لوگ ہر طرف اٹھ کھڑے ہوئے‘ جس میں سب سے پہلا کارواں طالب علموں کا تھا۔ پھر 25 مارچ 1969ء کی ڈھلتی شام تھی جب ہم نے ریڈیو پاکستا ن پر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کا قوم سے خطاب سنا‘ جس میں حالات معمول پر لانے کے بعد انتخابات اور اقتدار کی منتقلی کی نوید سنائی گئی۔ خبر بہت پرانی ہے‘ مگر اس کا کیا کریں کہ بعد میں بھی دو مرتبہ کچھ ویسے ہی خطابات سنے۔ شکر ہے کہ اب ہم نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ پریشانی کی ضرورت نہیں کہ اقتدار عوام کے اصل نمائندوں کے ہاتھ میں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved