کالی سڑکیں بھی اُس سیاہ رات کی طرح ہیں جو اجالے اور روشنیوں سمیت سبھی رنگوں کو نگل جاتی ہیں۔ گویا: نیلا‘ پیلا‘ لال برابر۔ یہ سڑکیں انسانی خون کے قطرے ہوں یا بہتی ہوئی ندیاں‘ سبھی اس طرح جذب کر لیتی ہیں جیسے لال رنگ ہی ان کا مرغوب مشروب ہو۔ ہمارے ہاں سانحات کو حادثات کا رنگ دے کر ''مٹی پاؤ پالیسی‘‘ کی بدعت خاصی پرانی ہے۔ دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میں جب جب ناحق مارے جانے والوں کے خون سے سڑکیں تر ہوتی ہیں‘ تب تب ان کی روحیں آسمانوں پر پہلے سے سراپا احتجاج روحوں میں شامل ہو جاتی ہیں۔ زمینی قانون جب انصاف اور دادرسی سے قاصر ہو جائے تو مارے جانے والوں کے مقدمات قدرت کی مدعیت میں آسمانوں پر درج کر لیے جاتے ہیں۔ چند روز قبل شہر اقتدار کی شاہراہِ دستور پر دیوہیکل گاڑی سے کچلی جانے والی بچیوں کے مقدمات بھی عرش معلی پر یقینا درج ہو چکے ہوں گے۔ یہ مظلوم بچیاں اپنے گھر کی بڑی بن کر گھر سے نکلی تھیں لیکن جب ان کی لاشیں گھر پہنچی ہوں گی تو ان سبھی پر کیا قیامت ٹوٹی ہو گی جن کو سنبھالنے کیلئے یہ گھر سے نکلی تھیں۔ انصاف کیلئے آسمانوں پر بھٹکتی یہ مظلوم روحیں اپنے اہلِ خانہ کی اس مجبوری کو بھی بخوبی سمجھ چکی ہوں گی کہ وہ اگر ان کا ناحق خون معاف نہ کرتے تو انہیں معافی کیونکر ملتی۔ ان کی عافیت تو بس معاف کر دینے میں ہی تھی۔ معاف نہ کرتے تو کیا کر لیتے‘ ویسے بھی مملکتِ خداداد کی تاریخ کا یہ اچھوتا اور ریکارڈ توڑ انصاف ہے جو عملی طور گھنٹوں میں فراہم کیا گیا‘ پانچ دنوں کے دفتری اوقاتِ کار کا مجموعہ نکالیں تو 40گھنٹوں میں انصاف متاثرین کی دہلیز پر پہنچا دیا گیا۔
شہرِ اقتدار کی سڑکوں پر جہازی سائز گاڑی اندھا دھند دوڑانے والے انڈر ایج ڈرائیور نے تو ریمنڈ ڈیوس کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا‘ اسے بھی چار دن حوالات کے بعد جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی۔ کوئٹہ کی اہم شاہراہ پر مجید اچکزئی کی گاڑی تلے ٹریفک وارڈن کے کچلے جانے کا واقعہ ہو یا خاتون سیاستدان کے بیٹے کی گاڑی سے چار نوجوانوں کی ہلاکت‘ کراچی میں تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے مارے جانے والے باپ بیٹی ہوں یا ڈیفنس لاہور میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد کو کچلنے والا برق رفتار انڈر ایج ڈرائیور‘ لالہ موسیٰ میں سابق وزیراعظم کے قافلے میں شامل گاڑی تلے کچلا جانے والا بچہ ہو یا ایک اور سابق وزیراعظم کے احتجاجی قافلے میں ناحق ماری جانے والی خاتون صحافی‘ نمونے اور حوالے کے ان سبھی واقعات میں قصور وار ناحق مارے جانے والے ہی نکلے۔ ماضی بعید و قریب میں رونما ہونے والے ایسے واقعات کی تفصیل میں جائیں تو درجنوں کالم بھی ناکافی پڑ سکتے ہیں‘ اس تناظر میں کیڑے مکوڑوں کی موت مارے جانے والے محاورے بھی بے معنی اور غیر متعلقہ ہو چکے ہیں‘ وضاحت کیلئے یہ اشعار پیش خدمت ہیں:
آدمی کی موت پر محظوظ ہوں گے جانور
کیا خبر تھی یہ مقولہ یوں بھی دہرایا جائے گا
بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
ایک طرف سڑکوں پر کیڑے مکوڑوں کی طرح ناحق مارے جانے والوں کو زمینی قانون انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے تو دوسری طرف عدالت نے آوارہ کتوں کو تلف کرنا ممنوع قرار دے ڈالا ہے۔ ایسے میں کتے بھی شکر بجا لاتے ہوں گے کہ کم از کم ان کی زندگیوں کو تو عدالتی اور حکومتی تحفظ حاصل ہے۔ ''کتا گردی‘‘ کے حالیہ واقعات کا جائزہ لیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے‘ گویا آوارہ کتوں نے معصوم بچوں سے لے کر راہ چلتے مرد و زن کو جس طرح بھنبھوڑا اور کاٹ کھایا ہے اس کے اعداد و شمار ہی ہوش اُڑا دینے کیلئے کافی ہیں۔ کاش! مملکتِ خداداد میں جو تحفظ آوارہ کتوں کو حاصل ہے اس کا نصف بھی رعایا کو مل جائے تو شاید اشرافیہ اور ان کے لاڈلوں کے ہاتھوں ناحق مارے جانے والے ہر بار قصوروار نہ نکلیں۔ آصفہ بھٹو نے تو پہلے ہی تنبیہ کر رکھی ہے کہ کسی آوارہ کتے کو مارنا بے رحمی تصور کیا جائے گا‘ تاہم رعایا کے بارے میں وہی پالیسی جاری رہے گی جو سالہا سال سے نسل در نسل جاری ہے۔ حکمرانوں کی مستقل مجازی کا اعجاز اور کیا ہو گا کہ جو وعدے لارے اور جھانسے کئی دہائیوں پہلے شروع کیے تھے وہ آج بھی جوں کے توں اور جاری ہیں۔ 70ء کی دہائی میں جس روٹی‘ کپڑے اور مکان کا جھانسا دیا تھا عوام آج بھی اسی روٹی‘ کپڑا اور مکان کو ترس رہے ہیں۔ دوسری طرف قرض اتارو ملک سنوارو مہم میں عوام سے لمبا مال سمیٹنے والوں نے ملک تو کیا ہی سنوارنا تھا‘ اپنے دن اور نسلیں سنوار کر قرض کا کوہِ ہمالیہ بنا ڈالا۔
بات چل رہی تھی کہ اشرافیہ کی دندناتی گاڑیوں تلے کچلے جانے والے سبھی قصوروار نکلے‘ ملک کے طول و عرض میں کسی کونے سے کوئی آواز اٹھی نہ ریاست کی موجودگی کہیں دکھائی دی۔ ایوانوں میں سنّاٹا‘ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی زبانیں گنگ اور موم بتیاں ٹھنڈی پڑ چکی ہیں۔ متاثرہ خاندان صلح کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی سزا کے حقدار قرار پائے ہیں۔ ویسے بھی ہنرمندانِ ریاست و سیاست کو کہاں فرصت ہے کہ وہ راہ چلتے ناحق مارے جانے والوں کی طرف توجہ کریں۔ ایسی ناگہانی اموات کی منحوس خبریں کہیں ان کی ترجیحات اور طے شدہ شیڈول کیلئے بدشگونی کا باعث نہ بن جائیں‘ تاہم احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اشرافیہ کیلئے وضع کردہ خودکار نظام ہی ایسے سانحات کو رفع دفع کرنے کیلئے کافی ہے۔ ابھی ستائیسویں ترمیم سے فارغ ہوئے ہیں‘ اٹھائیسویں کی تیاریاں جاری ہیں‘ اس کے بعد عصری تقاضے نجانے کتنی مزید ترامیم کے اسباب کا باعث بن جائیں‘ ایسے حالات میں عوام کو تو اس کتے کی بات پر ہی دھیان دینا چاہیے جو اپنے ساتھی کو مشورہ دے رہا ہے کہ ''بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا‘‘۔ آدمی کی موت سے بچنے کیلئے عوام کو بھاگتے رہنا چاہیے‘ خاص طور پر ان سبھی راستوں سے جن پر صرف اشرافیہ اور اشرافیہ زادوں کا ہی حق ہے۔ ایسے تمام امکانات سے بھی بھاگتے رہنا چاہیے جو خواص کی زد میں آکر ناحق موت کا باعث بن سکتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل اسیر سابق وزیراعظم کی جماعت پر پابندی کی قرار داد پنجاب اسمبلی سے منظور کروائی گئی ہے ایسے میں کون کہاں مارا گیا‘ کون کس کی گاڑی تلے کچلا گیا‘ کون کس کی گاڑی چلا رہا تھا‘ چلانے والا اناڑی تھا یا انڈر ایج تھا‘ یہ سبھی سوالات حکومتی ترجیحات کے سامنے بے معانی اور غیر متعلقہ ہیں۔
کالم تقریباً اختتام پذیر ہو چکا تھا جب یہ خبر آئی کہ فوجی عدالت نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کو 14سال قید بامشقت سنائی ہے۔ اس تناظر میں جنرل فیض سے فیض یاب ہونے والے کو مزید مشکلات اور سزاؤں کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ فوج میں احتساب اور سزاؤں کا دروازہ کھل ہی چکا ہے تو ماضی قریب اور بعید میں فیض نما کرداروں کو بھی علامتی سزائیں دے کر یہ کھلا پیغام ضرور دینا چاہیے کہ بس! اب نہیں!!! تاہم اس سزا نے وہ مثال قائم کر دی ہے جو مستقبل میں بھی فیض بکھیرنے والوں کو کٹہرے میں لا سکے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved