کائنات کے خالق نے انسان کو بنایا تو تکریم سے مالا مال شاہکار بنایا۔ اس شاہکار کو مگر قدرِ انسانی کی شناخت میں صدیاں بیت گئیں۔ 1948ء میں اسے یاد آیا کہ ہم شاہکاروں کے بھی کچھ حقوق ہیں؛ چنانچہ اس نے اپنے بنیادی عالمی حقوق کا ایک چارٹر جاری کر دیا۔ پہلا حق فریڈم یعنی آزادی قرار پایا۔ دوسرا Equality یعنی مساوات۔ تیسرا حق Safety یعنی امن اور تحفظ۔ چوتھا حق Freedom from torture یعنی تشدد سے آزادی اور پانچواں بنیادی حق Justice یعنی عدل و انصاف کا حصول بلا تخصیص ہونا طے پایا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 10 دسمبر 1948ء کو اس چارٹر کا اعلان ہوا‘ لہٰذا گزشتہ 78 سالوں سے مذکورہ دن انسانی حقوق کی عظمت وتوقیر کے حوالے سے منایا جا رہا ہے۔ اس چارٹر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ 1914ء سے 1918ء تک پہلی عالمی جنگ میں اڑھائی کروڑ انسانی آبادی ماری گئی تھی جبکہ تب دنیا کی کُل آبادی دو ارب کے قریب تھی۔ یعنی پوری دنیا کی ایک سے سوا فیصد آبادی اس جنگ میں ماری گئی۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ جو 1939ء سے 1945ء تک جاری رہی‘ اس میں آٹھ کروڑ انسان مارے گئے۔ تب عالمی آبادی دو ارب 35 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ اموات کی شرح کُل آبادی کا تقریباً ساڑھے تین فیصد بنتی ہے۔ یعنی گزشتہ جنگ کے مقابلے میں دو گنا۔ اس پر انسانیت کو اپنے تحفظ کی فکر لاحق ہوئی اور ایک عالمی چارٹر منظور کیا گیا۔ آج آٹھ دہائیوں کے بعد پھر سے آٹھ ارب انسانیت تیسری مہلک ترین عالمی جنگ کے دروازے پر کھڑی ہے۔ خدشہ ہے کہ اب اگر جنگ ہوئی تو یہ پچھلی تمام جنگوں کی نسبت بہت زیادہ ہلاکت آفرین ہو گی اور شرحِ اموات بھی کہیں زیادہ ہو گی۔ اس لیے یو این کی بھاری ذمہ داری ہے کہ بربادی کے دروازے کو کھلنے نہ دے تاکہ کوئی آنکھ انسانی حقوق اور انسانی تکریم کی دھجیاں اڑتی نہ دیکھ پائے۔ اس پُرامن مقصد کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کو مکمل طور پر جمہوری اور طاقتور بنایا جائے۔ اس قدر طاقتور کہ کمزوروں کو عدل کے ساتھ ان کا حق مل سکے۔
ہم 1948ء سے ساڑھے تیرہ سو سال پیچھے چلے جائیں تو تاریخ کے تابناک صفحات پر اسلام کا آفتاب طلوع ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب انسانیت کو دانش اور شعور کی دولت سے یوں نوازتی ہے: ''ہم نے آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو تکریم عطا فرمائی ہے‘‘ ( بنی اسرائیل: 70)۔ جب تمام روئے زمین پر بسنے والے انسان ایک ہی انسان یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں تو ساری انسانیت آپس میں رشتہ دار ہے۔ برادرانہ اخوت میں بندھی ہوئی ہے لہٰذا نسل کی بنیاد پر انسانی حقوق کی پامالی انسانی تکریم وتعظیم کے خلاف ہے۔ اسی طرح زبان اور رنگوں کی بنیاد پر انسانوں کا قتل اور استحصال بھی انسانی توقیر وتعظیم کے خلاف ہے۔ فرمایا ''آسمانوں اور زمین کی پیدائش اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تو تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ کیا شک ہے اس میں اہلِ علم (کی ریسرچ کے لیے) بہت سی نشانیاں ہیں‘‘ (الروم: 22)۔
بیالوجی کو دیکھیں تو کالے‘ گورے اور سرخ وگندمی رنگ کے اسباب سامنے آتے ہیں مگر انسانوں کے ان رنگوں کی بنیاد پر انسانوں کی باہم لڑائی اور استحصال انسانی تہذیب کو حیوانیت سے بھی بدتر درجے میں لے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس بنیاد پر انسانی حقوق کی پامالی انسانی تکریم کی بدترین توہین ہے۔ انسانوں کے یہ رنگ انسانی ڈی این اے میں چھپے ہوئے ہیں۔ رنگ بدلنے کا شوق ہے تو علم کی دنیا میں جا کر دل پسند رنگ اپنے لوگوں کا بنا لو مگر اس بنیاد پر انسانوں کے حقوق پامال کرتے ہوئے برتری مت جتلائو۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ''لوگو! تمہارا رب ایک ہے‘ تمہارا باپ بھی ایک (آدم علیہ السلام) ہے۔ یاد رکھو! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی (غیر عرب) کو کسی عربی پر‘ کسی سرخ (گورے) کو کسی سیاہ پر اور کسی کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت (اللہ کے ہاں) صرف تقویٰ (اختیار کرنے) پر ہے‘‘ (مسند احمد)۔
دنیا بھر میں معدنیات پر قوموں کے حکمرانوں کے درمیان جنگیں ہوئیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تو یہ ممالک جنگوں اور خانہ جنگیوں کا شکار ہوتے رہے۔ ایران‘ عراق‘ کویت اور شام جیسے ممالک کئی کئی سالوں تک جنگوں کا ایندھن بنے رہے۔ وجہ یہی تھی کہ ان ممالک میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر تھے۔ آخر پر لیبیا کو بھی خانہ جنگی کا شکار بنا دیا گیا۔ وہ جو اپنے خطے کا امیر ترین ملک تھا‘ آج اس کی فوج دو ٹکڑوں میں بٹ کر آپس میں لڑ رہی ہے۔ شہری دو وقت کی روٹی کو ترس گئے ہیں۔ عزت اور جان کے لالے الگ سے پڑے ہوئے ہیں۔ رقبے اور وسائل کے اعتبار سے سوڈان عالم اسلام کا ایک بڑا ملک ہے۔ دریائے نیل وہاں سے گزرتا ہے اور پھر مصر کو سیراب کرتا ہوا بحر روم میں جا گرتا ہے۔ جی ہاں! جس ملک کی زراعت اور شادابی کے لیے نیل جیسا تاریخی اور مقدس دریا موجود ہو‘ عالمی تجارت کے لیے بحر احمر اسے میسر ہو‘ اس کی خوشحالی تو آسمان کی رفعتوں تک پہنچنا چاہیے تھی مگر یہ ملک متواتر خانہ جنگیوں کا شکار ہوتا رہا۔ پھر جب وہاں سونے کی کانیں دریافت ہوئیں تو فوج کے دو حصے ان کانوں پر باہم لڑنے لگ گئے۔ جی ہاں! سونا تو فروخت ہو رہا ہے مگر یہ وسائل ملک اور عوام کی بربادی پر ضائع ہو رہے ہیں۔ دارالحکومت خرطوم برباد ہو چکا ہے۔ لاشیں گننا مشکل ہو رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 'یو این‘ کا کردار آخر کیوں اس قدر مضبوط نہیں بنایا جاتا کہ وہ جنگوں کو روک سکے اور دنیا میں امن کو قائم کر سکے۔
اللہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ کے فرمان کے مطابق: قیامت کے قریب دریائے فرات میں سونے کا ایک پہاڑ ظاہر ہو گا۔ اہلِ دنیا اس کے حصول کی جانب چل پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کہ کتنے سال اس پہاڑ کے حصول پر جنگ ہوتی رہے گی۔ حضور کریمﷺ نے فرمایا: لڑنے والے ہر سو آدمیوں میں سے 99 مر جائیں گے‘ صرف ایک بچے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ کتنے لاکھ‘ کتنے کروڑ یا کتنے ارب لوگ اس پہاڑ کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں ہلاک ہو جائیں گے۔ اللہ کے رسولﷺ نے کلمہ پڑھنے والے اہلِ ایمان کو خبردار کرتے ہوئے حکم دیا کہ تم لوگوں میں سے جو کوئی اس زمانے میں اس پہاڑ کے آس پاس موجود ہو تو وہ اس کے حصول میں مت شامل ہو۔ یاد رہے! تانبا اور سونا دونوں دھاتیں اکٹھی نکلتی ہیں۔ تانبے کی تاروں سے بجلی گزرتے ہوئے ضائع ہو جاتی ہے مگر سونا ایسی دھات ہے جس سے گزرتے ہوئے بجلی ضائع نہیں ہوتی۔ سونا زیورات اور زیبائش و نمائش کے علاوہ جدید کوانٹم ٹیکنالوجی اور خلائی ٹیکنالوجی میں بھی استعمال ہوتا ہے‘ اس لیے یہ انتہائی اہم ہے۔
پاکستان کی سرزمین ایسی دھاتوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ پانچ دریائوں کی زمین ہے۔ سات سو کلومیٹر کا سمندر اسے لگتا ہے۔ اسے داخلی فسادات کا شکار کرنے کی بڑی کوششیں ہوئیں اور آج بھی جاری ہیں مگر اہلِ پاکستان کی دانش کو سلام ہے کہ وہ پاکستان زندہ باد کہتے ہوئے ہر سازش کو ناکام بناتے آئے ہیں اور آج بھی اسی ٹریک پر ہیں۔ آج جس قدر پاکستان کو دنیا بھر میں عزت ملی ہے‘ عالم اسلام کا وہ قائد بن کر ابھرا ہے تو اس کا سبب اس کا مضبوط دفاع ہے۔ دفاعی ٹیکنالوجی میں وہ اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ اس کی مسلح افواج کو دنیا بھر کی قوتیں حیرت کی نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ شالا نظر نہ لگے! پاکستان زندہ باد! پائندہ باد!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved