لیجیے خواتین و حضرات‘ ہماری تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا‘ یا یہ کہیے کہ نئی تاریخ ہی رقم کر دی گئی۔ پہلی بار پاکستان کے سب سے معتبر اور مقتدر انٹیلی جنس ادارے ''آئی ایس آئی‘‘ کے سربراہ پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا‘ وہ مجرم قرار پائے اور انہیں 14سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔ پاک فوج نے معرکہ حق میں بھارت کو ناکوں چنے چبوا کر اپنا اور پاکستان کا سر فخر سے بلند کیا۔ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کا حملہ پسپا کر کے عالمی جنگوں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا۔ پاک فضائیہ نے حملہ آور کے سات لڑاکا طیارے مار گرائے اور جس طرح اس کے دفاعی نظام کو منجمد کیا‘ اس پر دفاعی امور کے ماہرین اب تک انگشت بدنداں ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان کی طاقت کا اعتراف اور احترام کیا جا رہا ہے۔ ہماری عزت اور توقیر میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے بقول آنکھیں چرانے والے اب (ان کے راستے میں) آنکھیں بچھا رہے ہیں۔ پاکستان کے کئی رقیب اور حریف دوستی کے خواہاں ہیں تو دوستوں اور حلیفوں کی محبت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان ایک ناقابلِ تسخیر قوت کے طور پر ابھرا اور اپنے بہی خواہوں کو نیا حوصلہ بخش گیا ہے۔ پاکستانی ریاست سے ناتا جوڑنا باعثِ توقیر سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل عالمی اداروں اور کانفرنسوں کی رونق بنے ہوئے ہیں۔ غیرملکی سربراہوں اور فوجی قائدین کا تانتا بندھا ہوا ہے‘ وہ عزم و ہمت کے پیکروں سے ملنے اسلام آباد آتے چلے جا رہے ہیں۔ سربلند پاکستان کا سر پاک فوج نے اب ایک اور انداز سے اونچا کیا ہے۔ خود احتسابی کی مثال قائم کر دی ہے۔ اپنے ہی ایک انتہائی اعلیٰ افسر کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے دکھا دیا ہے۔ اسے قانون کی خلاف ورزی کی سزا بھگتنا پڑ رہی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید 14سال قیدِ بامشقت کے حق دار ٹھہرے ہیں۔ سزا یافتہ افسر کو اپیل کا حق حاصل ہو گا۔ آرمی چیف اس کی سماعت کریں گے۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی سہولت بھی حاصل ہو گی۔ صدرِ مملکت سے معافی (یا رحم) کی درخواست بھی دائر کی جا سکے گی۔ ممکن ہے سزا میں تخفیف ہو جائے‘ یہ بھی ممکن ہے کہ اپیل منظور کر لی جائے لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں‘ اس وقت تو جو پیغام دور و نزدیک دیا جانا تھا‘ وہ دیا جا چکا ہے۔ پاک فوج احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اس کے احتسابی ادارے کسی رو رعایت کے بغیر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ماضی میں کئی فوجی افسروں کے کورٹ مارشل ہو چکے ہیں‘ کئی ایک کو سزائیں بھی سنائی گئی ہیں لیکن لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا مقدمہ اپنی نوعیت کا پہلا ہے۔ آئی ایس آئی کے کسی سربراہ کے خلاف اس طرح کی کارروائی کبھی نہیں کی گئی بلکہ یہ کہیے تو غلط نہیں ہو گا کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
جناب فیض حمید کو ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی طرف سے دائر کردہ شکایت پر سزا دی گئی ہے۔ اس نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا‘ دہائی دی تھی کہ فیض حمید اور اُن کے کارندوں نے اُس پر دبائو ڈالا اور بہت کچھ ہتھیا لیا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر یہ معاملہ فوجی قیادت کو بھجوایا گیا۔ وقت تبدیل ہوتا گیا اور فیض حمید کی قسمت اُن کا ساتھ چھوڑتی گئی۔ یہاں تک کہ اُن کی گرفتاری تک نوبت پہنچی۔باقاعدہ مقدمہ قائم ہوا اور وہ سزا کے مستحق قرار پائے۔فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر جو کچھ کرتے رہے‘ وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے وہ خصوصی معتمد سمجھے جاتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کے اعتماد سے بھی مالا مال تھے۔ عمران خان سے اُن کا تعلق اِس طرح بڑھا کہ جنرل باجوہ پیچھے رہ گئے۔ اُن کی تقرری کی معیاد پوری ہوئی تو وزیراعظم عمران خان تبادلے کے راستے میں کھڑے ہو گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ فیض حمید اپنے منصب پر برقرار رہیں اور اُن کے سیاسی حریفوں سے ان کی خواہشات کے مطابق نبٹنے رہیں۔ جنرل باجوہ راضی نہ ہوئے تو عمران خان کو پیچھے ہٹنا پڑا لیکن اُن کے اور جنرل باجوہ کے درمیان دراڑ پڑ گئی۔کہا جاتا ہے کہ فیض حمید آئی ایس آئی سے نکل گئے لیکن آئی ایس آئی اُن کے اندر سے نہیں نکلی۔ ایک انتہائی ذمہ دار ذریعے نے بتایا تھا کہ وہ کئی افراد اور معاملات کی حساس فائلیں اپنے ساتھ لے گئے جو بعدازاں اُن کے دفتر سے برآمد کی گئیں۔ انہوں نے کور کمانڈر بننے کے باوجود قومی امور میں عمل دخل جاری رکھا۔ یہ حکایت عام ہے کہ عمران خان انہیں آرمی چیف بنانا چاہتے تھے اور فیض حمید بھی اس تمنا میں سرشار تھے۔ اللہ کو یہ منظور نہیں تھا‘ جنرل عاصم منیر نے فوج کی سربراہی سنبھالی اور اب وہ فیلڈ مارشل ہیں۔ پاکستان کے پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز بننے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہو چکا ہے۔
فیض حمید کے مقدمے کی تفصیل ابھی تک سامنے نہیں آئی نہ ہی عدالت کا فیصلہ عام کیا گیا ہے لیکن آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ معاملہ ابھی رُکا نہیں۔اُن پر ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی ہے‘ جناب عمران خان کے ساتھ اُن کے ''گٹھ جوڑ‘‘ کی باتیں بھی زیر بحث ہیں۔ نومئی2023ء کو فوجی تنصیبات پر جو ''عوامی حملے‘‘ کیے گئے‘اُن سے جڑے معاملات زیر تفتیش ہیں۔جناب فیصل واوڈا کے بقول فیض حمید وعدہ معاف گواہ بن کر عمران خان کے خلاف گواہی دینے پر تیار ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سابق وزیراعظم جو پہلے ہی ایک مقدمے میں14سال قید کی سزا پا چکے ہیں‘اُن کا گھیرا مزید تنگ ہو گا۔ معاملہ فوجی عدالت ہی کے سپرد رہے گا یا سول عدالت کی خدمات حاصل کی جائیں گی‘یہ تو آنے والے دن بتائیں گے لیکن جو کچھ بھی ہو گا وہ غیر معمولی ہو گا۔ تاریخ کو مزید کروٹیں لینا پڑیں گی۔ جو کچھ ہونے والا ہے‘اگر وہ اُسی طرح ہوا‘ جو واوڈا صاحب بتا رہے ہیں تو اُس کے اثرات دور (اور دیر) تک محسوس کیے جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ قانون سے کسی کو بالاتر نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ بھی درست ہے کہ سیاست قانون کے تابع نہیں ہوتی۔ عوام کے جذبات و احساسات اُس میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ قانون کی عدالت‘عوام کی عدالت کے سامنے بے بس ہو کر رہ جاتی ہے اور عوام کی عدالت قانون کی عدالت کو اپنی مرضی کا پابند نہیں بنا سکتی۔ بعض اوقات دونوں کا الجھائو معاملات کو الجھاتا چلا جاتا ہے لیکن ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائیکورٹ نے طویل اور کھلی سماعت کے بعد نواب محمد احمد خان کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا‘ سپریم کورٹ نے بھی اُن کی اپیل مسترد کر دی تھی لیکن بھٹو صاحب کے جیالوں نے اپنے چیئرمین کو ''شہید‘‘ کہا اور اُس پر اصرار کرتے رہے۔اُن کی سیاست پیپلزپارٹی کی شکل میں زندہ رہی اور اب برسوں بعد سپریم کورٹ ہی نے یہ فتویٰ صادر کر دیا ہے کہ بھٹو صاحب کے مقدمے میں ''انصاف کے تقاضے‘‘ پورے نہیں کیے گئے تھے۔ قومی اسمبلی بھی اُنہیں ''قومی شہید‘‘ قرار دے گزری ہے۔بھٹو صاحب کے شعلہ نوا مخالفین ( اور اُن کے وارثین) چُپ سادھے بیٹھے رہے اور تاریخ ایک نیا موڑ مڑ گئی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی تاریخ کو سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved