تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     14-12-2025

اصل گناہ کیا ہے

کچھ باتیں سمجھنے کیلئے دستورِ زمانہ یاد رکھنا پڑتا ہے کہ کواکب ہوتے کچھ ہیں اور نظر کچھ اور آتے ہیں۔ الفاظ کا پردہ ہوتا ہے اور اُس کے پیچھے کچھ اور۔ بھٹو تختۂ دار پر چڑھا تو اُس کی وجہ نواب محمد احمد خان کا قتل نہیں تھا۔ جنرل ضیا الحق کی آنکھ میں بھٹو کھٹکتا تھا اور ضیا کے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر بھٹو کو راستے سے ہٹانا ضروری ہو گیا تھا۔ فیض حمید کے خلاف لمبی چوڑی چارج شیٹ ہے‘ الزامات کی ایک فہرست ہے اور یہ بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ کئی معاملات اب بھی زیرتفتیش ہیں۔ اصل بات البتہ یہ ہے کہ جس اونچے پیمانے کے کھیل میں وہ ملوث تھے اُس میں وہ ہار گئے اور اُس ہار کا نتیجہ آج بھگت رہے ہیں۔ قسمت ساتھ دیتی تو حالات کا نقشہ کچھ اور ہوتا اور انصاف کے تقاضے بھی کسی مختلف طریقے سے پورے ہوتے۔
فیض حمید کے گاڈفادر جنرل باجوہ تھے جن سے نازک حالات سنبھالے نہ گئے۔ باجوہ خود تو تاریخ کے سایوں میں گم ہو گئے لیکن ساتھ ہی فیض حمید کو رگڑا لگا گئے۔ باجوہ بدستور اپنی مسند پر رہنا چاہتے تھے۔ تین سال کی مدت تھی اُس میں تین سال کی توسیع ہوئی لیکن پھر بھی جی نہ بھرا اور مزید توسیع چاہتے تھے۔ غلطی اُن سے یہ ہوئی کہ جس ہاتھ سے توسیع مل سکتی تھی اُس کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اُنہوں نے خود ہی کاٹ ڈالا۔ عمران خان کے جانے کے بعد باجوہ کی قسمت کا فیصلہ شریفوں کے ہاتھ میں آ گیا کیونکہ رجیم چینج کے نتیجے میں بادلِ نخواستہ شہباز شریف کوو زیراعظم بنانا پڑا۔ اپنی تمام چال بازی اور سیاسی مہارت کے باوجود باجوہ یہ نہ دیکھ سکے کہ عمران خان کے جانے سے اُن کے ہاتھ سے کھیل چلا جائے گا۔ پھر شریفوں نے ان کے ساتھ وہ کیا جس کا اندازہ شاید ان کے فرشتوں کو بھی نہ تھا۔
فیض حمید پر سیاسی سازشوں کا الزام لگایا گیا ہے۔ میرا مشاہدہ جتنا حقیر بھی ہو ذرا مختلف ہے۔ فیض حمید کی فیملی کی چکوال میں ایک شادی کی تقریب تھی۔ میں ذرا لیٹ پہنچا اور دولہا سٹیج پر سے مستورات کی طرف چلا گیا تھا یعنی سٹیج تب خالی تھا۔ مستورات کی طرف سے فیض حمید آئے اور مجھے دیکھتے اُنہوں نے خالی سٹیج پر بلا لیا۔ مجھ سے پوچھا کہ عمران خان سے ملاقات ہوتی ہے ؟ میں نے کہا ‘ایک آدھ مرتبہ ہوئی ہے۔ کہنے لگے کہ اگر تمہاری ملاقات ہو تو کہنا کہ چیف پر تنقید مناسب نہیں۔ آپ بتائیے کہ جس کے ارادے سیاسی گڑبڑ کرنے کے ہوں ایسی بات کرے گا؟ ایک اور بات ذہن میں رہے کہ پاکستان آرمی کا ماحول ایسا ہے کہ سینئر عہدوں پر پہنچنے والے افسر فوج کی چین آف کمانڈ کو بخوبی سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ چیف کی مرضی کے بغیر اس ادارے میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ فیض حمید کے بارے میں جو کچھ بھی کہا جائے اس سے انکار ممکن نہیں کہ بہت سمجھدار آدمی تھا اور فوج کے مزاج سے بخوبی آگاہ تھا۔ ایڈونچرازم کا الزام کوئی لگانا چاہے تو ضرور لگائے لیکن فوج کے حوالے سے ہلکا آدمی نہیں تھا۔ اُسے کچھ نہ کچھ جانتے ہوئے میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اُس کا ہاتھ کسی فضول کی کارروائی میں شامل ہو۔
یہ اور بات ہے کہ اُس نے اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کیں۔ بطور ڈی جی آئی ایس آئی وہ عمران خان کے بہت قریب رہا اور شاید ذہنی طور پر بھی عمران خان کے قریب تھا۔ عہدوں اور فوج سے فارغ ہونے کے بعد اُس کی یہ سوچ ایسی ہی رہی اور اُس میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ اصل قصور تو اُس کا یہ بنتا ہے۔ توبہ تائب ہو جاتا‘ مسعودمحمود کی روش اپنانے کو تیار ہوتا‘ تو کون سا ہاتھ اُس پر پڑنا تھا۔ ہمارے دیس میں جو انصاف کے تقاضے رائج ہیں اُن سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ یہاں ناقابل ِمعافی گناہ دو ہی گنوائے جاتے ہیں‘ سرکشی اورنافرمانی۔ ان دو روشوں کی سچائی نہ بھی ہو صرف تھوڑا سا شائبہ ہو وہ بھی اقتدار کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔ باقی ہر چیز قابل ِمعافی ہے اور جہاں تک کرپشن اور مال اکٹھا کرنے کا تعلق ہے اس کو جرم سمجھا جائے تو مملکتِ خداداد میں کون بچ کے رہ سکتا ہے۔
شوقِ پی ٹی آئی مجھ پر اتنا بھاری کبھی نہ رہا۔ پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں اُس پر کھل کر تنقید کرتے۔ بہت سے اقدامات عمران خان کے نہایت ہی ہلکے لگتے تھے اورا ُس کا کھل کر اظہار بھی کیا۔ پی ٹی آئی کی اقتدار سے چھٹی ہوئی اور ریاست کا زور اُس کے مخالف پلڑے میں پڑنے لگا تو چکوال میں بہت سے پی ٹی آئی کے سرکردہ کارکنوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ پارٹی سے دوری اختیار کر لی جائے۔ جو وجہ بھی تھی 2024ء کے الیکشن آئے تو پی ٹی آئی کے پاس ایم این اے کے لیے کوئی خاطرخواہ امیدوار نہ تھا۔ میدان خالی نہ چھوڑنا چاہا اس لیے امیدوار ہوگئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے 2002ء میں (ن) لیگ کے مقامی ستون( ق) لیگ میں چلے گئے اور الیکشن کا بیڑا ہم نے اٹھایا۔ اس بار جب الیکشن کا میدان سجا تو جہاں اور کونوں سے پذیرائی ملی وہاں فیض حمید کی فیملی نے بھی کھل کر سپورٹ کی۔ فیض حمید خود کسی سٹیج پر نہ آئے نہ اُن سے کوئی ملاقات ہوئی لیکن فیملی کی سپورٹ بھرپور رہی۔ یعنی اس فیملی کی سیاسی وابستگی کوئی تھی تو پی ٹی آئی کے ساتھ تھی۔ اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی ایک ناقابلِ معافی گناہ تھا۔ ملکی سطح پر پارٹی کی ایک لڑائی چل رہی ہو اور آپ جوبڑے عہدوں پر رہے ہوں آپ کی وابستگی سرکشی کے پلڑے میں ہو اسے اچھاتو نہیں سمجھا جائے گا۔
بہرحال اس سارے عرصے میں چکوال کا کوئی ایک شخص نہیں کہہ سکتا کہ فیض حمید کی فیملی نے کسی کو احتجاج کے راستے پر اُکسایا ہو۔جو وابستگی تھی وہ رہی لیکن جیسے عرض کیا ایک شواہد بھی نہیں ہے کہ کسی کو کسی غیرذمہ دارانہ رویے پر اُکسایا ہو۔ کوئی 9مئی کے واقعات سے فیض حمید کا نام جوڑناچاہے تو کون روک سکتا ہے۔ خواجہ آصف جیسی معتبر ہستیوں پر ویسے بھی منطق کے کسی پیرائے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ فرما چکے ہیں کہ فیض حمید کے 9مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد تو سامنے نہیں آئے لیکن عین ممکن ہے کہ اُن کا کوئی کردار اُن واقعات میں ہو۔ یہ بھی فرمایا کہ اپنے ملٹری بیک گراؤنڈ کے ناتے فیض حمید سٹریٹجک رہنمائی مہیا کرسکتے تھے۔ ایسی منطق کے سامنے افلاطون بھی بے بس ہو جائے۔
فیض حمید کی سزا سے البتہ ایک پیغام ابھرتا ہے کہ اس دربار میں نرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔کیوں نہ فیض حمید بے ضرر ہوگئے ہوں لیکن ایک زمانے میں خاص دوڑ میں مقابلہ تو کررہے تھے۔ اُن کو سزا کا حقدار ٹھہرانے کے لیے یہ ایک امر ہی کافی ہے ۔ اور پیغام جو ہے وہ کس کے لیے ہے؟ مخصوص قیدی کے لیے۔ پرابلم البتہ پھر وہی پرانا ہے۔ سختی ہوگئی‘ سزائیں ہوگئیں‘ پر طلسم تو نہیں ٹوٹ رہا۔ قوم کا بیشتر حصہ جہاں کھڑا ہے اُسی جگہ پر قائم ہے۔ پوری قومی گفتگو ایک ہی محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس کا کیا کیا جائے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved