سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر)فیض حمید کا موضوع ہر جگہ زیربحث ہے جنہیں 14برس کی سزا ہوئی ہے۔ سب کو حیرانی ہے کہ پاکستان میں بھلا یہ کب ممکن تھا ‘ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو عمرقید کی سزا بھی مل سکتی تھی؟ اب جنرل(ر) فیض پر نو مئی کا کیس بھی زیرسماعت ہے‘ تاہم اس کیس کے حوالے سے جو انکشافات سامنے آرہے ہیں وہ حیران کن ہیں۔سینیٹر فیصل واوڈا کو مقتدرہ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور ان کی اب تک عمران خان اور پی ٹی آئی کے بارے پچھلے تین سال سے کی گئی بیشتر پیش گوئیاں سچی ثابت ہوئی ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ فیض حمید کا ایک فیصلہ تو ہوگیا ہے لیکن دوسرے مقدمے میں وہ عمران خان اور پی ٹی آئی لیڈروں کے خلاف ثبوت اور گواہیاں کورٹ مارشل میں سامنے رکھیں گے اور یہ ثبوت بہت خطرناک اور بلیک اینڈ وائٹ ہیں لہٰذا عمران خان اور پارٹی لیڈروں کے نو مئی میں بچنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ فیصل واوڈا کی بات سے ذہن میں آتا ہے کہ فیض حمید کیونکر عمران خان کے خلاف گواہی یا ثبوت دیں گے جو انہیں آرمی چیف بناتے بناتے جیل جا پہنچے؟ اگر فیصل واوڈا کی بات ماضی کے بیانات کی سچائی کو سامنے رکھ کر مان لی جائے تو ایک ہی مقصد سمجھ میں آتا ہے کہ فیض حمید اور ان کے پراسیکیوٹر کے درمیان کوئی نہ کوئی انڈرسٹینڈنگ ضرور ہوئی ہے۔ شاید یہ سوچا گیا ہو کہ فیض حمید کو جس بڑے کیس میں چودہ برس سزا دینی تھی وہ دے گئی ہے‘اب اگر وہ تعاون کر کے عمران خان کے خلاف گواہی اور ثبوت عدالت میں پیش کرتے ہیں تو پھر سارا فوکس عمران خان اور ان کی پارٹی پر رکھا جائے۔ اس وقت فیض حمید سے مستقبل کا بڑا خطرہ عمران خان ہیں‘ اب فیض حمید کو مزید سزا دینے سے کیا فرق پڑے گا؟ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ پہلے یہ سوچا جارہا تھا کہ چودہ برس کی بجائے زیادہ بڑی سزا دی جائے تاہم اس بڑی سزا سے گریز کیا گیا اور چودہ برس کی سزا دی گئی جو شاید دو تین برس بعد اس طرح معاف کر دی جائے جیسے جنرل سید عاصم منیر نے آرمی چیف بنتے ہی لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کی معاف کر دی تھی۔ لیکن یہ معافی دینے کیلئے کچھ وقت درکار ہوگا۔ ویسے بھی جو میسج فوج نے دینا تھا وہ دے دیا گیا ہے کہ اگر ہمارا اپنا ڈی جی آئی ایس آئی بھی غلط کرے گا تو اسے بھی نہیں بخشا جائے گا۔ جنرل فیض کی معافی یقینا فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو اخلاقی طور پر بہت اوپر لے جائے گی کہ ان کے خلاف جنرل فیض نے اتنا کچھ کیا لیکن پھر بھی انہوں نے دل بڑا کر کے معاف کیا۔ ہوسکتا ہے ابھی یہ سب باتیں عجیب و غریب لگ رہی ہوں کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ میرے اس اندازے کے پیچھے کچھ اور وجوہات ہیں۔ وقت بڑے بڑے زخموں پر مرہم رکھ دیتا ہے۔ جنرل باجوہ کی دو مثالیں دوں گا۔ جب وہ 2016ء میں آرمی چیف بننے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے تو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان بھی ان کے خلاف ایکٹو تھے کیونکہ وہ جنرل راحیل کو ایک سال کی توسیع دلوانا چاہتے تھے۔ ڈی جی ہونے کے ناتے ان کا وزیراعظم ہاؤس میں اچھا تعلق بن گیا تھا جو ہر ڈی جی کا بن جاتا ہے کیونکہ دوسرے جرنیلوں کی نسبت ان کی ملاقات یا رابطہ زیادہ رہتا ہے۔ اور وزیراعظم کے بہت سارے کام بھی ڈی جی کررہا ہوتا ہے لہٰذا کمفرٹ لیول اور تعلق بہت اچھا ہوتا ہے۔ یوں ہر ڈی جی اسے موقع سمجھتا ہے کہ وہ بھی آرمی چیف بن سکتا ہے۔ وزیراعظم کو بھی لگتا ہے کہ کام کا بندہ مل گیا ہے جیسے نواز شریف کو اپنی کشمیری برادری کا جنرل خواجہ ضیاالدین بٹ لگا تھا اور انہوں نے جنرل مشرف کو اڑا دیا ۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ آرمی چیف کے بعد پاکستان میں ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ بہت اہم ہے۔ آپ اگر دیکھیں تو جنرل کیانی ڈی جی آئی ایس آئی سے آرمی چیف بنے۔ حمید گل بنتے بنتے رہ گئے ۔ جنرل ضیاالدین بٹ چیف بنے اگرچہ چند گھنٹوں کیلئے سہی۔ جنرل رضوان نے کوشش کی اور ایک سال بعد وہ سینارٹی میں چیف کے امیدوار بن سکتے تھے اگر نواز شریف جنرل راحیل کو ایک سال کی توسیع دے دیتے۔ اس لیے انہوں نے جنرل باجوہ کے بارے کچھ خبریں لگوائیں اور ایک آدھ مذہبی پارٹی کے سینیٹر نے سینیٹ میں تقریر بھی کر دی۔ وجہ جنرل رضوان کی ذاتی دلچسپی تھی نہ کہ جنرل راحیل کی ہمدردی ۔ اس کے بعد جس ڈی جی کو چیف بننے کا شوق بلکہ جنون چرایا وہ فیض حمید تھے۔ جنرل رضوان کو تو جنرل باجوہ کے چیف بنتے ہی ڈی جی کے عہدے سے ہٹایا گیا اور کچھ دن بعد وہ استعفیٰ دے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ جنرل باجوہ کو سب علم تھا کہ جنرل رضوان ان کے خلاف کیا کیا کارنامے سر انجام دے رہے تھے۔ جنرل باجوہ سے معذرت کی گئی اور انہوں نے اپنے جنرل کو معاف تو کر دیا لیکن اسے گھر بھیج دیا۔ اس طرح جنرل باجوہ نے اپنے دور میں کچھ فوجی افسران کا کورٹ مارشل کر کے سزائے موت سے لے کر چودہ برس تک سزائیں سنائیں۔ ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو چودہ برس سزا دی گئی جن کا تعلق بھی جنرل فیض کی طرح چکوال سے تھا۔ یہی وہ جنرل جاوید تھے جنہوں نے جنرل راحیل کے دور میں پروموشن بورڈ کے وقت بریگیڈئیر فیض حمید کی پروموشن میں کردار ادا کیا تھا جس پر ان کی جنرل طارق خان سے بھی بحث ہو گئی تھی۔ تاہم جنرل راحیل نے میجر جنرل کے عہدے پر پروموشن کی منظوری دے دی۔ اب وقت کا ستم دیکھیں کہ جس فوجی افسر نے Adjutant General برانچ کا سربراہ ہو کر جنرل جاوید اقبال کی چودہ برس سزا کی منظوری دی وہ کوئی اور نہیں فیض حمید ہی تھے۔ بلکہ مجھے فیملی ذرائع نے بتایا تھا کہ جنرل جاوید کو فیض حمید نے یقین دلوایا تھا کہ یہ اتنا بڑا کیس نہیں۔ آپ لوگ چپ رہیں انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ یہ بھی فیملی کو پتہ چلا تھا جب جنرل جاوید کی فائل جنرل باجوہ کے پاس فائنل منظوری کیلئے گئی تھی تو انہوں نے بھی فیض حمید سے آخری دفعہ پوچھا تھا کہ ہم کہیں زیادتی تو نہیں کررہے ۔ فیض حمید نے 14برس سزا کی حمایت کی ۔ جنرل جاوید اقبال کی فیملی ہمیشہ ڈپریس اور اس تاثر میں رہی کہ فیض حمید اور جنرل بلال اکبر نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ شاید یہی بوجھ جنرل باجوہ پر بھی تھا لہٰذا انہوں نے ایک دو سال بعد جنرل جاوید اقبال کی سزا میں کچھ برس کی خود کمی کی۔ پھر اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے جنرل باجوہ نے مزید کچھ برس معاف کیے۔ تاہم جنرل عاصم منیر نے آرمی چیف بن کر جوپہلا حکم جاری کیا وہ جنرل جاوید اقبال کی بقیہ سزا معاف کر کے انہیں رہا کرنے کا تھا۔ جنرل باجوہ بھی جنرل جاوید اقبال سے ذاتی طور پر ہرٹ تھے کہ انہیں شک تھا کہ انہوں نے امریکہ کو ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بارے میں وقت سے پہلے انفارم کیا تھا۔ اگرچہ جنرل جاوید کو جن الزامات پر سزا دی گئی وہ انتہائی مضحکہ خیز تھے اور جب میں نے اُن کے وکیل کی پنڈی عدالت میں فائل کی گئی پٹیشن پڑھی تھی تو صاف لگ رہا تھاکہ انہیں فریم کیا گیا تھا۔ ان سے کچھ پرانے سکور سیٹل کیے گئے تھے جن میں جنرل باجوہ کے علاوہ ان کے اپنے پرانے قریبی ایک اور جنرل بھی شامل تھے۔ خیر وقت بہت سے زخم ٹھیک کردیتا ہے۔شاید وقت گزرنے کے ساتھ دو تین برس بعد جنرل فیض کو بھی معافی مل جائے۔ دیکھتے ہیں جنرل فیض بھی جنرل جاوید اقبال جتنے خوش قسمت نکلتے ہیں اور فیلڈ مارشل قران کی وہ آیت پڑھ کر معاف کر دیتے ہیں کہ خدا معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے یا پھر معاملہ جنرل ضیااور بھٹو والا ہوچکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved