ہم نے سیاسی کشمکش کے دور میں آنکھ کھولی تھی‘ تب صرف چائے خانے ہوا کرتے تھے۔ آج کی طرح شہروں میں کافی ہائوس نہیں تھے۔ طالب علمی کے دور میں بھی چائے خانوں میں بیٹھنا اور سیاست‘ ادب اور وقت کی سماجی تحریکوں پر گفتگو کرنا ہماری عملی شناخت اور دانشورانہ ثقافت کا حصہ تھا۔ چائے کی پیالی پہ پیالی اور کبھی کبھار شامی کباب کا سینڈوچ‘ سگریٹ کے دھوئیں میں ماحول کو گرم رکھتے تھے۔ لاہور کے پاک ٹی ہائوس کی بات تو ہم نہیں کرتے کہ وہاں کا ماحول کچھ اور تھا‘ اور زمانے کے مشاہیر کا وہاں آنا جانا تھا‘ اور ہم صرف انہیں دیکھنے اور ہاتھ ملانے کی خواہش کے ساتھ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ اگر جگہ ملتی تو ٹک کر بیٹھ جاتے۔ جگہ جگہ کا فرق تھا‘ مگر اکثر جگہوں پر دیواروں پر لکھا ہوتا تھا کہ سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو چائے خانے کے مالک کا بزنس خراب ہوتا تھا کہ ہم جیسے نوجوان اور ''فُقرے‘‘ چائے پر گزارہ کرتے اورگھنٹوں کرسیوں پر براجمان رہتے۔ دیگر گاہکوں کے لیے جگہ تنگ ہوتی۔ مگر کبھی ایسا نہ ہوا کہ ہم سیاسی گفتگو کرنے سے باز آئے یا ہمیں کبھی کسی نے آ کر چند روپوں کا بل پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا ہو۔ اچھا زمانہ تھا! مروت‘ باہمی احترام اور رواداری کا دور تھا۔ ہم زیادہ تر کھوکھوں اور ڈھابوں پر جاتے‘ جو جامعہ پنجاب کے اطراف میں ماڈل ٹائون اور مسلم ٹائون سے لے کر اقبال ٹائون تک ہوا کرتے تھے۔ ان سب کے درمیان جگہیں خالی تھیں۔ گائوں تھے اور ادھر اُدھر چائے خانے تھے۔ سیاسی گفتگو سے گریز کی تنبیہ کی دوسری وجہ یہ تھی کہ کبھی کبھار متضاد نظریاتی گروہوں کے لوگ بھی وہاں آ دھمکتے تو ''ٹھوس دلائل‘‘ کے لیے ہوٹل کی کرسیاں اور پلیٹیں استعمال ہوتی تھیں۔ اس صورت میں بھی نوشتۂ دیوار کسی کام نہ آتا۔
کئی ایسے واقعات کے ہم چشم دید گواہ ہیں‘ مگر ایک تو تاریخی واقعہ ہے۔ ٹولنٹن مارکیٹ اپنی اصل جگہ‘ جو اَب لاہور سٹی میوزیم میں تبدیل ہو چکی ہے‘ پر تھی۔ اسلام آباد کی کورڈ مارکیٹ اور ٹولنٹن مارکیٹ کا ماحول زبردست تھا۔ جاتے تو دل خوش ہو جاتا۔ مشہور لوگ بھی ٹولنٹن مارکیٹ میں خریداری کرتے تھے۔ اس زمانے میں آغا شورش کاشمیری کو آپ مال روڈ کے اطراف میں ٹہلتے دیکھ سکتے تھے۔ ظہیرکاشمیری کو تو کئی مرتبہ ریہڑھیوں پر کھڑے کوئی چیز خرید کر کھاتے دیکھا۔ یہ اُن برسوں کی بات ہے جب کو ثر نیازی صاحب جو جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل تھے‘ نے سیاسی پھرکی کھائی اورابھرتی ہوئی نئی جماعت‘ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے‘ جو پہلی پارٹی کی نظریاتی ضد تھی۔ اگرچہ ہمارا ملک سیاسی قلابازیوں کی اپنی تاریخ رکھتا ہے مگر یہ قلابازی نظریاتی کشمکش کے دور میں بہت مشہور ہوئی۔ آغا شورش کاشمیری ذوالفقارعلی بھٹو کی سیاست اور ان کے اسلامی سوشلزم کے صفِ اول کے مخالفین میں سے تھے۔ ایک دن آغا صاحب کا ٹولنٹن مارکیٹ میں کوثر نیازی سے آمنا سامنا ہوا تو آغا صاحب نے اپنی غصیلی اور مخصوص ادبی زبان‘ جو سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال کرتے تھے‘ کے ابتدائیے کے بعد ساتھ پڑے گھی کے ڈبوں کو ہتھیار بنانے کا حربہ اپنایا۔ انہوں نے تاک کر ایک ڈبہ چارج کیا تو کوثر نیازی صاحب لہولہان ہو گئے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ ٹولنٹن مارکیٹ کے اندر کھانے پینے کی بھی چند جگہیں تھیں‘ اور وہاں ہر طرف رش رہتا تھا۔ جو کچھ صحافیوں نے اس میدانِ کارزار کا نقشہ کھینچا اور اخباروں میں دوسرے دن شائع ہوا‘ وہ آج تک ہمارے ذہن میں نقش ہے۔ ہمیں بھی طالب علمی کے زمانے میں آغا شورش کاشمیری سے مصافحہ کرنے اور ان کا دیدار کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اگر آپ نے شورش کی آپ بیتی(بوئے گل نالہ دل‘ دودِ چراغِ محفل) نہیں پڑھی تو آپ کی مثال ویسے ہی ہے جیسے ہمارے لاہوری کہتے ہیں کہ لاہور اگر دیکھا نہیں تو آپ پیدا نہیں ہوئے۔
بات تو سیاسی گفتگو سے چلی تھی کہ لڑائی جھگڑوں کے واقعات اتنے ہوا کرتے ہیں کہ رسمی طور پر دیوار پر تو لکھ دیا جاتا مگر مجال ہے کہ کوئی اس پر عمل کرے۔ ہمیشہ سے میرے دل میں یہ خیال غالب رہا ہے کہ سیاست ایک ایسا جذبہ ہے جس کے شعلے آپ طاقت سے نہیں دبا سکتے۔ گفتگو لوگ کرتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ حالات سے مطمئن نہیں ہوتے یا غصہ تحلیل کرنے کے لیے‘ خوابوں کے دفن ہونے کی رنجش دور کرنے کی غرض سے‘ اکثر اچھے دنوں کی خواہش کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ یہ تو عام لوگوں کی سیاسی گفتگو کی روش کے تناظر میں کہہ رہا ہوں۔ زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک ہر مفکر‘ ادیب‘ شاعر اور دانشور سیاست کی بات اپنے انداز میں کرتا ہے کہ یہ طاقت کا کھیل ہے‘ جس طرح سے بھی کوئی کھیلے اور کہیں بھی اس کا میدان سجے اور کوئی بھی اس کے کھلاڑی ہوں‘ ہماری زندگیوں کو متاثر کرتا ہے۔ جب سیاسی شعور عام نہیں ہوا تھا اور سلطنتوں کا زمانہ تھا‘ اس وقت بغاوتیں‘ جنگیں‘ کشور کشائی‘ اندرونی سازشیں‘ قتل وغارت ان ادوار کی سیاست تھی۔ اب ہم بیک وقت خوش قسمت بھی ہیں اور بدقسمت بھی۔ ایک طرف چند ہندسوں پر انگلی پھیرتے ہیں تو کئی براعظم پار آنکھ جھپکنے سے پہلے بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔ ملکوں‘ مارشل لائوں اور ہر نوع کے حکمرانوں کی سب خبریں رکاوٹوں کے باوجود‘ ڈھونڈنے والوں کو میسر ہیں۔ کوئی چیز زیادہ دیر تک چھپانا اب ممکن نہیں رہا۔ ایک اور بات آج کل بہت مختلف ہے کہ ہمارے سرکردہ سیاسی لوگ جو بات کیمروں کے سامنے کھڑ ے ہوکر کرتے ہیں وہ برقی پٹیوں میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ ان کے تضادات‘ منافقت اور سب ہیرا پھیری کوئی نہ کوئی خطرہ مول لے کر سخت پابندیوں کے ماحول میں بھی سامنے رکھ دیتا ہے۔
گزارش صرف اتنی ہے کہ سیاسی مزاج اس ملک اور معاشرے کا اُس دور سے بنتا چلا آیا ہے جب انگریزی حکومت کے خلاف علمِ احتجاج بلند ہوا تھا اور کمپنی کی حکومت کے اوائل ہی میں لوگوں نے اپنی روایات‘ تہذیب اور معاشروں کو غیر ضروری مغربی اثرات سے محفوظ کرنے کی غرض سے تحریکیں شروع کی تھیں۔ اُس زمانے کے رسائل‘ کتابیں اور لکھی گئی تاریخ اب بھی کتب خانوں میں دفن ہے اور کچھ اوراق کھولتے ہی گواہی دینا شروع کر دیتی ہے۔ یونانی مفکرین سے لے کر آج تک تضادات موضوعِ سخن رہے ہیں۔ کبھی طبقات کی صورت‘ حاکم اور رعایا کی شکل میں‘ کبھی دیسی اور ولایتی حکمرانوں کے انداز میں اور کبھی حقوق اور ان سے صرفِ نظر کی صورت میں۔ ایسے میں سیاست دونوں طرف اپنی زبان کھولتی ہے۔ طاقت کی سیاسی زبان اپنی اور محکوم کی اپنی‘ مگر سیاسی گفتگو پر پابندی چائے خانوں کی دیوار پر لکھے ایک جملے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ ہر معاشرے کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور ایک تہذیبی رنگ‘ جو صدیوں سے مرتب ہوتا رہتا ہے۔ ہم نے ہر ملک میں دیکھا ہے کہ یہ مزاج اور رنگ جبر واستبداد کے گہرے سایوں میں بھی‘ جو بے شک دہائیوں تک قائم رہے‘ ختم نہیں کیے جا سکتے۔ مشرقی یورپ جو دوسری عالمی جنگ سے پہلے صنعتی دور میں داخل ہو چکا تھا‘ وہاں لبرل مغربی تہذیب کی چھاپ نمایاں تھی‘ ایک طرف جرمن فسطائیت کا شکار ہوا اور اس سے اتحادیوں نے نجات دلائی تو سوویت یونین کی ہمہ گیریت اور قید وبند کی صعوبتوں کے سامنے بھی ادب‘ شاعری اور خفیہ تحریکوں کی شکل مزاحمت ہوتی رہی۔ وہاں ہمہ گیریت نے ہمارے سامنے دم توڑا اور سارے بڑے چبوتروں پہ نصب مجسموں کی گردنوں میں رسہ ڈال کر گرا دیا گیا۔ تاریخ جو ہم نے پڑھی ہے‘ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں‘ نہ سیاست ختم ہوئی اور نہ ہی سیاسی گفتگو۔ ہو سکتا ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved