اب کے دیوالی دِلّی سرکار اور اُتر پردیش کے مشہور یوگی شوبھن سرکار کے لیے بجھے ہوئے چراغ لائی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ شوبھن سرکار نے دِلّی سرکار کو ایسے ''سنکٹ‘‘ میں ڈالا ہے کہ وہ اب تک دِل تھام کر سَر پیٹ رہی ہے۔
یہ معاملہ ایک خواب سے شروع ہوا جس کے بعد کئی سلسلے ہوئے۔ اب حالت یہ ہے کہ بہت سے گل کھلے ہوئے ہیں اور مزید کھلانے جا رہے ہیں۔ شوبھن سرکار نے ڈھائی تین ماہ قبل وزیر مملکت برائے زراعت چرن داس مہنت سے رابطہ کیا۔ اُن کے مشورے پر شوبھن سرکار نے دِلّی سرکار کو ایک خط کے ذریعے بتایا کہ اُنیسویں صدی کے دوران ضلع اُنّاؤ اور اُس سے ملحق علاقے کے حکمران راجہ رام بخش راؤ سنگھ نے اُنہیں خواب میں درشن دے کر بتایا ہے کہ اُن کے اُنّاؤ کے قلعے میں ہزار ٹن (جی ہاں، من نہیں ٹن!) سونا گڑا ہوا ہے۔ اُنہوں نے یہ سونا جنگِ آزادی کے دنوں میں لٹیروں سے بچانے کے لیے دفن کیا تھا۔ شوبھن سرکار نے دِلّی سرکار پر زور دیا کہ یہ خزانہ نکال کر معیشت کی حالت سُدھاری جائے۔ اپنی بات پر زور دینے کے لیے شوبھن سرکار نے یہ بھی کہا کہ اگر اُن کے بتائے ہوئے مقام سے سونے کا ذخیرہ برآمد نہ ہو تو اُن کی گردن اُڑا دی جائے۔
ایسا لگتا تھا کہ دِلّی سرکار کے پاس فرصت ہی فرصت تھی۔ شغل میلے کی خاطر اُس نے شوبھن سرکار کی بات پر بھروسہ کرتے ہوئے جیالوجیکل سروے آف انڈیا (جی ایس آئی) کو کام پر لگادیا۔ جی ایس آئی نے دو دن میں جدید آلات کی مدد سے اُنّاؤ کے قلعے کا سروے کیا اور ابتدائی رپورٹ میں بتایا کہ قلعے کی زمین میں چند دھاتوں کا سُراغ ملا ہے! اِس رپورٹ کو گرین سگنل کا درجہ دیتے ہوئے دِلّی سرکار نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو خزانے کی تلاش کا ٹاسک سونپ دیا۔ اے ایس آئی کے ماہرین کی نگرانی میں 18 اکتوبر کو اُنّاؤ کے قلعے میں کھدائی کا آغاز ہوا۔
یہ کوئی معمولی کھدائی تو تھی نہیں کہ کسی کو پتہ نہ چلتا۔ علاقے بھر کے لوگ تو اُمڈے سو اُمڈے، ٹی وی چینلز کی گاڑیاں بھی کوریج کے لیے پہنچ گئیں۔ ٹی وی چینلز کو تو ویسے بھی پربت بنانے کے لیے رائی کا دانہ درکار ہوا کرتا ہے۔ اُنگلی تھمائیے تو وہ پلک جھپکتے میں کلائی تھام لیتے ہیں اور وہ بھی لائیو۔ قلعے کے باہر تو میلہ لگ گیا۔ سونے کی تلاش کا سُن کر جتنے لوگ قلعے کے باہر جمع ہوئے اُتنے لوگ تو خود راجہ رام بخش راؤ سنگھ کی قلمرَو میں بھی نہ ہوں گے۔
خیر، ڈھول تاشے اور بینڈ باجے کے ساتھ اے ایس آئی نے کھدائی شروع کی۔ کئی دن گزر گئے مگر کچھ ہاتھ نہ لگا۔ پھر دُعائیں مستجاب ہوئیں۔ ایک کچن کے آثار ہویدا ہوئے۔ ایک چولھا، چند برتن، لوہے کی چند کیلیں اور چوڑیوں کے چند ٹکڑے۔ یہ تھی خاصے اہتمام کے ساتھ ایک ہفتے کی کھدائی میں ہاتھ لگنے والی کُل کائنات۔ اِتنا ضمنی فائدہ ضرور ہوا کہ راجہ رام بخش راؤ سنگھ کے خاندان سے نسبت کی بنیاد پر خزانے پر حق جتاتے ہوئے تین چار ہزار افراد میدان میں آگئے۔
سارے بھارت واسیوں کی طرح شوبھن سرکار نے دیکھ لیا کہ ایک ہفتے کی کھدائی کے بعد بھی اُن کے خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کے آثار نہیں۔ مگر اِس پر وہ شرمندہ ہوئے نہ بدحواس۔ میڈیا کے ذریعے جنتا کو درشن دیتے ہوئے شوبھن سرکار نے یہ شوشہ چھوڑا کہ جب تک اُنہیں ''موقع‘‘ پر مدعو نہیں کیا جائے گا، سونا ہاتھ نہ آئے گا۔ ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اے ایس آئی نے کھدائی صحیح ڈھنگ سے نہیں کی۔ اگر فوج سے کھدائی کرائی جاتی تو سونا مل چکا ہوتا۔ ساتھ اُنہوں نے اپنا ریکارڈ دُرست کرتے ہوئے بتایا کہ اُنہیں راجہ رام بخش راؤ سنگھ نے گڑے ہوئے سونے کی خبر خواب میں نہیں بلکہ مراقبے میں دی تھی۔ گویا جاگتی سوتی آنکھوں کا مشترکہ خواب تھا۔
شوبھن سرکار کے ایک چیلے مُنّا سنگھ نے 21 اکتوبر کو زی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اگر کھدائی تیز رفتاری سے نہ کی گئی تو سونے کا ذخیرہ ہاتھ نہیں لگے گا کیونکہ وہ اپنی پوزیشن بدل لے گا۔
دو ہفتوں کی کھدائی میں سونے کا ایک ذرّہ بھی ہاتھ نہ لگنے اور چند فضول سی اشیاء ملنے پر شرمندہ یا پریشان ہوئے بغیر اے ایس آئی (لکھنؤ سرکل) کے سپرنٹنڈنگ آرکیالوجسٹ پراوین کمار شری واستو نے کہا کہ اے ایس آئی کو سونے سے غرض نہیں۔ اُس کے لیے تو گزرے ہوئے زمانوں کی کسی چھوٹی سی چیز کا ملنا بھی خزانے سے کم نہیں! اور پھر دیوالی کی تعطیلات کے باعث 2 نومبر کو کھدائی روک دی گئی۔
شوبھن سرکار نے 2 نومبر کو وزیر اعظم من موہن سنگھ اور اُتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ اکھیلیش یادو کو خط لکھا جس میں اِس بات پر زور دیا گیا کہ خزانے کی کھدائی شفاف ہونی چاہیے یعنی کھدائی کا عمل بڑے ٹی وی چینلز پر براہِ راست دکھایا جائے، عوام کو کھدائی کے مقام تک جانے دیا جائے۔ یہ گویا دِلّی سرکار پر عدم اعتماد کا اظہار تھا کہ وہ سونا لے اُڑے گی اور واویلا یہ کرے گی کہ کچھ ہاتھ نہیں لگا۔
قلعے میں سونے کا سُراغ لگانے کے لیے کھدائی کا دُنیا بھر میں پہلے تو چرچا ہوا مگر پھر دِلّی سرکار کی جنگ ہنسائی ہوئی۔ لوگ حیران تھے کہ مریخ پر تحقیقی مشن بھیجنے والی حکومت کا یہ حال ہے کہ ایک سادھو کے خواب کی بُنیاد پر سونا تلاش کرنے نکل پڑی۔
اِس پورے معاملے میں اے ایس آئی کی خاصی بَھد اُڑی ہے۔ اِس ادارے کے اعلیٰ افسران نے اِتنی احتیاط ضرور برتی ہے کہ کسی بھی باضابطہ بیان میں یہ نہیں کہا کہ کھدائی سونے کے ذخیرے کے لیے کی جارہی ہے! یعنی اُنہیں بھی سرکاری حماقت کا اندازہ تھا کہ پہاڑ کھودنے پر شاید چوہا بھی نہ نکلے۔
جی ایس آئی کی ساکھ بھی داؤ پر لگ گئی۔ جب سونا نہ ملنے پر میڈیا نے شوبھن اور دِلّی سرکار کے ساتھ ساتھ اے ایس آئی کو بھی لتاڑا تو اُس نے یہ کہتے ہوئے جان چُھڑائی کہ وہ ''آرڈر پر مال بنا رہا تھا‘‘ یعنی جی ایس آئی کی تجویز پر کھدائی کی جارہی تھی۔ جب جی ایس آئی نے یہ دیکھا کہ سارا ملبہ اُس پر گر رہا ہے یا گرایا جا رہا ہے تو اُس نے انکشاف کیا کہ ستمبر کے آخر میں اُنّاؤ کے قلعے کی زمین کا جو دو روزہ سروے اُس نے کیا تھا اُس کی رپورٹ میں تو کہیں بھی یہ درج نہیں تھا کہ وہاں دھاتوں کے ذخائر ہیں اور نہ ہی کھدائی کی تجویز پیش کی گئی تھی! 31 اکتوبر کو ریٹائر ہونے والے جی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اے سُندرا مُورتھی نے بھی بتایا کہ ابتدائی رپورٹ میں دھاتوں کا ذکر تھا نہ کھدائی کی تجویز۔
خواب یا مراقبے کی بنیاد پر سونے کی تلاش میں نکل کر دِلّی سرکار نے شاید جنتا کے لیے تھوڑی بہت کامیڈی کا اہتمام کیا ہے‘ اگر ایسے ہی ڈرامے وقفے وقفے سے پیش کئے جاتے رہیں تو لوگ اپنے سارے غم بھول کر ہنسی کے سمندر میں غرق ہو جائیں گے۔ کیا پتہ دِلّی سرکار یہی چاہتی ہو کہ بنیادی سہولتوں کا مطالبہ کرکے ناک میں دم کرنے والی جنتا کِسی طور جان چھوڑے۔