تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     16-12-2025

ہمارا کام صرف بات پہنچانا ہے

جوگندر ناتھ منڈل کے استعفے پر اب جو چاہے کہا جائے‘ یہ بعد از مرگ واویلا اور سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے کہ کچھ لوگوں کا اب بھی خیال ہے کہ شاید جوگندر ناتھ منڈل واپس بھارت جا کر کوئی بہت بڑا سیاسی مقام لینے کے خواہشمند یا کسی بڑے سرکاری عہدے کے متمنی تھے اور انہوں نے پاکستان کی حکومت کو نچلی ذات والے ووٹروں کی تعداد اور ان کا بلاشرکت غیرے لیڈر ہونے کے زعم میں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ میرے خیال میں یہ جوگندر ناتھ منڈل جیسے اپنے مقصد اور نصب العین سے مخلص شخص پر الزام کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ بھلا کوئی شخص مرکزی وزارت سے بڑھ کر اور کس عہدے یا منصب کا طالب ہو سکتا ہے؟ اور یہ عہدہ تو ان کے پاس پہلے سے موجود تھا۔ ان کا قائداعظم پر اور قائداعظم کا ان پر اعتماد کسی شک سے بالاتر تھا‘ اسی لیے قائداعظم نے ان سے پاکستان کی اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت کروائی۔ یہ ایسا اعزاز تھا جو کسی اور کو نصیب نہ ہوا۔
اگر انہوں نے بلیک میل کرنا ہوتا تو ڈائریکٹ استعفیٰ ہی کیوں کوئی نوٹس دیتے‘ انتباہی خط لکھتے‘ ذاتی مفاد کیلئے مطالبہ کرتے مگر انہوں نے تو انہی باتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حکومت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا جو اُن کے اور حکومت کے درمیان طے ہوئی تھیں۔ ان میں کسی ذاتی مفاد کا دخل نہ تھا۔ ان کا سارا اختلاف تو نچلی ذات کے ہندوئوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں تھا‘ جو اَب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری تھے۔
جوگندر ناتھ منڈل کا ستائیس صفحات پر مشتمل یہ طویل استعفیٰ سوائے چارج شیٹ اور مایوسی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ 15 اگست 1947ء کو پاکستان کے پہلے وزیر قانون وانصاف کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے جو گندر ناتھ منڈل نے 8 اکتوبر 1950ء کو وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو استعفیٰ دیا۔ وہ تین سال‘ ایک ماہ اور چوبیس دن پاکستان کے مرکزی وزیر رہے۔ استعفیٰ دینے کے بعد ممکن ہے وہ پاکستان میں ہی رہتے ہوئے نچلی ذات کی ہندو برادری کے حقوق کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھتے مگر ان کا استعفیٰ جو پاکستان کی حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ تھا‘ آسانی سے ہضم نہ ہو سکا اور اسکے بعد انکے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔ حسبِ معمول انہیں پاکستان سے غداری‘ ممکنہ بھارتی ایجنٹ اور حکومت کے خلاف سازش جیسی تھیوریوں سے جوڑا گیا۔ کسی پاکستانی اخبار‘ سیاستدان‘ دانشور یا حکمران نے اس بارے زیادہ تردد نہ کیا اور منڈل صاحب کی بھارت روانگی کو ''خس کم جہان پاک‘‘ قرار دیتے ہوئے بڑے سکون اور خاموشی سے ہضم کر لیا گیا۔ منڈل تو بھارت چلے گئے‘ تاہم اگر ان کے استعفے کی وجوہات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسے آئندہ کیلئے ایک سبق کے طور پر لیا جاتا تو پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ استعفے کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:
میرے عزیز وزیراعظم!... میں یہ خط نہایت ہی بوجھل دل اور شدید مایوسی کے عالم میں لکھ رہا ہوں۔ مشرقی بنگال کے پسماندہ ہندوئوں کی بہتری کے جس مشن پر میں نے اپنی ساری زندگی گزار دی اس کی ناکامی آج مجھے اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ میں آپ کی کابینہ سے مستعفی ہو جائوں۔ تاہم مناسب ہے کہ میں اپنے اس فیصلے کی تمام تر وجوہات تفصیل سے آپ کے سامنے رکھوں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ سکے۔
میں نے فروری 1943ء میں مسلم لیگ کے سرکردہ رہنمائوں کی درخواست پر بنگال کی قانون ساز اسمبلی میں ان کے ساتھ تعاون پر رضامندی ظاہر کی۔ مارچ 1943ء میں فضل الحق کی وزارت کے خاتمے کے بعد خواجہ ناظم الدین کی حکومت تشکیل دی گئی تو میں اپنی برادری کے 21 نمائندوں کے ساتھ چند شرائط کی بنیاد پر تعاون پر آمادہ ہوا۔ یہ شرائط کابینہ میں شیڈولڈ کاسٹس کے تین وزرا کی شمولیت ٭ نچلی ذاتوں کیلئے سالانہ پانچ لاکھ روپے کا مستقل بجٹ اور سرکاری ملازمتوں میں ان کی متناسب نمائندگی کا بلااستثنا اطلاق تھیں۔ ٭مارچ‘ اپریل 1946ء میں مَیں سہروردی کی وزارت میں شامل ہوا تاہم اگست 1946ء میں کلکتہ میں ہولناک قتل وغارت ہوئی‘ خود میری جان کو خطرہ لاحق ہوا مگر میں نے اس کے باوجود اپنا تعاون جاری رکھا اور سہروردی وزارت کو عدم اعتماد سے بچانے میں اہم کردار سرانجام دیا۔3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کا اعلان ہوا جو میرے لیے صدمے کا باعث تھا اور میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا تھا کہ پاکستان کے قیام سے فرقہ واریت کا مسئلہ حل نہیں ہوگا‘ دونوں ریاستوں کی غربت اور پسماندگی اور مسلمانوں کی حالت بھی بہتر نہیں ہو گی تاہم مسلم لیگ کی 1940ء کی قرارداد اور قائداعظم کے 11 اگست 1947ء کے اعلان سے مجھے حوصلہ اور امید ہوئی کہ پاکستان ایک کثیر المذاہب ریاست ہو گی جس میں اقلیتوں کے حقوق مکمل محفوظ ہوں گے لیکن یہ سب وعدے پامال ہوئے۔
میں بنگال کی تقسیم کے سخت خلاف تھا اور اپنی برادری کو پاکستان سے وفاداری پر آمادہ کرنے پہ مجھے سخت تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر میں اس کے باوجود مسلم لیگ سے وابستہ رہا اور نچلی ذات کے ہندوئوں سے ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کرتا رہا مگر نہ کوئی شنوائی ہوئی اور نہ ہی کوئی عملی قدم اٹھایا گیا۔ کابل گنج‘ باریسال‘ حبیب گڑھ (سلہٹ)‘ ناچول (راجشاہی)‘ کلیشرا (کھلنا) میں مسلح حملے‘ عورتوں کی بے حرمتی‘ فوجی کیمپوں میں لے جانا‘ گھروں کو جلانا‘ اجتماعی قتل‘ جبری تبدیلیٔ مذہب اور مذہبی عقائد کی بے حرمتی جیسے واقعات اور ڈھاکہ ومشرقی بنگال میں ہزاروں افراد کے قتل عام پر حکومت کی مجرمانہ خاموشی اس کی چند مثالیں ہیں۔
1950ء کا دہلی پیکٹ اقلیتوں کے تحفظ کی آخری امید تھا مگر اس پر عمل نہ ہوا۔ ہزاروں ہندو اساتذہ‘ وکلاء‘ ڈاکٹروں اور دیگر لوگوں کو جبراً معاشی بائیکاٹ کے ذریعے بے دخل کیا گیا۔ تب ہزاروں ہندو مجبوراً مشرقی بنگال سے بھارت ہجرت کر گئے۔ سندھ اور پنجاب میں شیڈولڈ کاسٹس کی بڑی تعداد کو جبراً مسلمان بنایا گیا۔ ہندو مندروں کی بے شمار عمارتوں کو ضبط کرکے ہوٹلوں‘ ذبح خانوں اور دیگر مصارف میں استعمال کیا گیا۔ موجودہ حالات میں پاکستان کے ہندو اپنے وطن میں بے گھر ہو چکے ہیں اور پاکستان ہندوئوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہا۔ میری کابینہ میں موجودگی ہندوئوں کو جھوٹی امید دلانے کے مترادف ہو گی اس لیے میں عزت اور ایمانداری کے ساتھ اپنا استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔
منڈل کی بھارت روانگی پر پاکستان میں انہیں بھارتی ایجنٹ اور پلانٹڈ شخص مشہور کیا گیا جبکہ بھارت میں انہیں پاکستان کا وفادار اور بھارت سے غداری کرکے جانے والے ایجنٹ کے طور پر حد درجہ شک کی نظروں سے دیکھا گیا۔ منڈل صاحب نے بھارت میں اپنے آخری ایام عسرت‘ کسمپرسی‘ غربت‘ گوشہ نشینی‘ گمنامی اور سیاسی طور پر غیر فعالیت میں گزارے۔ وہ 5 اکتوبر 1968ء کو بنگائوں میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ منڈل تو اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر ہمارے طرزِ حکمرانی‘ سیاست‘ ریاست اور اداروں سے وہ کچھ رخصت نہیں ہو سکا منڈل صاحب جس کی نشاندہی کر کے گئے تھے۔
فی الوقت پاکستان کو دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک مذہبی‘ لسانی‘ نسلی اور سیاسی انتہا پسندی سے نجات حاصل کرنے کی اور دوسری بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول کرنے کی۔ اگر یہ صورتحال ایسے ہی رہی تو کسی قسم کی معاشی‘ سماجی اور معاشرتی بہتری کا امکان کم از کم اس عاجز کو تو دکھائی نہیں دیتا۔ ہم فقیر لوگ تو بس لکھ سکتے اور دعا کر سکتے ہیں۔ سو یہ دونوں کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس لکھے پر عمل کرنے والوں کو کچھ کرنے کی توفیق عطا کرے۔ ''وما علینا الا البلاغ المبین‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved