حضرت جابرؓ کے والد حضرت عبداللہؓ بن عمرو کے پاس دو خوبصورت اور ثمرآور باغ تھے۔ کھجوروں کی پیداوار کے علاوہ باغات کی زمین سے سبزیاں اور غلّہ بالخصوص جَو کی فصل بھی حاصل ہو جاتی۔ ابن الاثیر الجزری اسد الغابہ میں حضرت عبداللہؓ کے مقروض ہونے کی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ آپؓ اپنے قبیلے کے رئوسا واعیان میں سے تھے۔ اہل وعیال کی کثرت تھی اور اس کے ساتھ آپؓ کا حلقۂ احباب بھی بہت وسیع تھا۔ آپؓ کی مہمان نوازی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ اسی وجہ سے آپؓ مقروض رہتے تھے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابرؓ اپنے والد کے ساتھ آنحضورﷺ سے بیعت عقبہ کے موقع پر مکہ میں ملے تھے۔ اسی طرح بعض روایات کے مطابق آپؓ اپنے والد حضرت عبداللہؓ سے قبل داخلِ اسلام ہو گئے تھے۔ تمام معتبر ذرائع سے یہ ثابت ہے کہ وہ بہت چھوٹی عمر میں مسلمان ہو گئے تھے۔ نبی کریمﷺ کی بعثت کے وقت حضرت جابرؓ کی عمر تقریباً چار یا پانچ سال تھی۔ بیعتِ عقبہ کے وقت آپؓ پندرہ سولہ سال کے ہوں گے۔ والد کی شہادت کے وقت آپؓ سترہ‘ اٹھارہ سال کے نوعمر لڑکے تھے۔ حضرت عبداللہؓ بن عمرو کی شہادت کے بعد جنگ خندق سے لے کر حیاتِ نبوی کے آخر تک کوئی معرکہ ایسا نہیں جس میں حضرت جابرؓ کی شرکت نہ ہوئی ہو۔ لمبے سفر کے دوران ہمیشہ حضرت جابرؓ کوشش کرتے تھے کہ اپنی اونٹنی کو آنحضورﷺ کی اونٹنی کے ساتھ ملا کر سفر کریں۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی آپؓ کے قول کے مطابق آپ کی اونٹنی کے نتھنے سارے سفر میں آنحضورﷺ کی اونٹنی کی دُم کے ساتھ ٹکراتے رہے۔ راستے میں مختلف مواقع پر حضرت جابرؓ کو آنحضورﷺ سے احادیث سننے کا شرف بھی حاصل ہوتا رہا۔
غزوہِ خندق کے دوران آنحضورﷺ کے کئی معجزات صحابہ کرامؓ نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ حضرت جابرؓ کا بھی ایک واقعہ حدیث کی کتابوں میں نقل ہوا ہے جس کے مطابق آپؓ نے دیکھا کہ آنحضورﷺ اور تمام صحابہ کرام بھوک سے نڈھال ہیں۔ آپؓ ایک وقفے میں اپنے گھر گئے اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ اللہ کے نبیﷺ نے کئی دن سے کچھ کھایا پیا نہیں۔ گھر میں کچھ پکانے کو ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ جَو کا کچھ غلّہ ہے اور بکری کا ایک چھوٹا سا بچہ ہے۔ آپؓ نے کہا کہ غلہ پیس لو۔ پھر آٹا گوندھ کر روٹیاں پکا لینا اور بکری کے بچے کو ذبح کر کے اس کا گوشت پکا لیتے ہیں۔ سو آپؓ نے اسے ذبح کر کے اس کی بوٹیاں بنائیں اور اہلیہ سے کہا کہ اب جلدی سے آٹا پیس کر اسے گوندھو اور روٹیاں بنا لو۔ پھر میں آنحضورﷺ کو بلا لائوں گا۔ اہلیہ کو یہ ذمہ داری سونپ کر حضرت جابرؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! آپ بھوک سے نڈھال ہیں‘ میں نے اپنے گھر میں آپﷺ کی دعوت کا انتظام کیا ہے‘ میرے ساتھ تشریف لے چلیں اور ماحضر تناول فرمائیں۔ آپﷺ نے تمام صحابہ کو پکار کر فرمایا کہ جابر نے تم لوگوں کی دعوت کی ہے۔ اس کے گھر میں باری باری آتے جائو اور پیٹ کی آگ بجھا لو۔ یہ سن کر حضرت جابرؓ گھبرا گئے کہ کھانا تو محض چند آدمیوں کا ہے اور اس وقت صحابہ کرام کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پھر رسول کریمﷺ نے حضرت جابرؓ سے فرمایا: جابر! فکر نہ کرو‘ جائو اور اپنی اہلیہ سے کہو کہ ہنڈیا آگ کے اوپر ہی رہنے دے اور اس کا ڈھکنا بند کر دے۔ حضرت جابرؓ گھر میں گئے تو اہلیہ کو ڈھکنا بند کرنے کی ہدایت کے ساتھ فکرمند لہجے میں بتایا کہ آج تو ہماری رسوائی ہو جائے گی‘ کھانا محدود ہے اور حضور پاکﷺ نے تمام اہلِ خندق کو ہمارے گھر آنے کی دعوت دے دی ہے۔ دانش مند صحابیہ بیوی نے کہا: کیا آپ نے حضورﷺ کو بتایا تھا کہ کھانے کی کتنی مقدار ہمارے پاس دستیاب ہے؟ حضرت جابرؓ نے ہاں میں جواب دیا تو اللہ کی اُس نیک بندی نے نہایت اطمینان سے کہا: پھر ہمیں کوئی فکر نہیں کرنی چاہیے‘ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ واہ! ایمان کی یہ بلندی اور اللہ اور اس کے رسولﷺ پر یقینِ کامل کی یہ مثال! صحابہ و صحابیات کی زندگیوں سے ابدی روشنی پھوٹتی ہے جو تاقیامِ قیامت اہلِ ایمان کو منزل کا پتا دیتی رہے گی! حضور پاکﷺ حضرت جابرؓ کے گھر میں تشریف لائے اور روٹیوں کو کپڑے سے ڈھانک دیا اور ہنڈیا کے قریب بیٹھ گئے۔ آپﷺ روٹی کے ٹکڑے کرتے اور اسے شوربے میں ڈال کر ثرید بناتے۔ اس کے اوپر گوشت کی بوٹی بھی رکھ دیتے۔ سبھی صحابہ نے جو دعوت میں آئے تھے‘ سیر ہو کر کھانا کھایا اور کھانا پھر بھی بچ گیا۔ دعوت میں آنے والے صحابہ کی تعداد مختلف روایات میں مختلف بیان ہوئی ہے۔ البتہ یہ یقینی ہے کہ وہ سینکڑوں میں تھے۔ یہ رسول کریمﷺ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ (معجزاتِ سرور عالمﷺ‘ ص: 73)
حضرت جابرؓ اپنے والد کی طرح بہت فیاض اور مہمان نواز تھے۔ آپؓ اکثر آقائے دو جہاںﷺ اور آپ کے اصحاب کی ضیافت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ حضور اکرمﷺ کو آپؓ سے بڑی محبت تھی۔ آپﷺ کئی مرتبہ خود بھی حضرت جابرؓ کے گھر میں تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت جابرؓ کے باغ میں کھجور کے بعض درخت ایسے بھی تھے کہ ان کی پیداوار میں گٹھلی نہیں ہوتی تھی۔ ایک بار آپؓ نے وہ کھجوریں حضور پاکﷺ کی خدمت میں پیش کیں تو آپﷺ نے فرمایا: میں تو سمجھا تھا کہ یہ گوشت ہے۔ حضرت جابرؓ نے گھر جا کر اپنی اہلیہ سے کہا: اللہ کی بندی! حضور اکرمﷺ کو گوشت پسند ہے۔ یہ بکری کا موٹا تازہ بچہ ذبح کر کے میں گوشت بناتا ہوں اور تم اسے پکا لو‘ پھر روٹی بنا لینا۔ میں حضورﷺ کو گھر بلا لاتا ہوں۔ آپؓ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں گئے اور اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ آپﷺ ان کے گھر تشریف لائے تو حضرت جابرؓ نے کہا: یا رسول اللہﷺ! آپ بستر پر آرام فرمائیں‘ ابھی کھانا تیار ہو جائے گا تو آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ بستر بچھا ہوا تھا۔ آپﷺ اس پر دراز ہو گئے اور آرام فرمایا۔ پھر آپﷺ بیدار ہوئے اور وضو کر چکے تو آپﷺ کی خدمت کیلئے دسترخوان بچھایا گیا۔ آپﷺ نے بڑی خوشی کے ساتھ کھانا کھایا اور گھر والوں کو دعائیں دیں۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت جابرؓ نے اپنی اہلیہ سے کہا تھا کہ جب آنحضورﷺ آرام فرما رہے ہوں تو اونچی آواز میں باتیں نہ کرنا‘ کہیں آپﷺ کے آرام میں خلل واقع نہ ہو جائے۔ کھانا کھانے کے بعد جب آنحضورﷺ جانے لگے تو حضرت جابرؓ کی اہلیہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ہمارے لیے رحمت و برکت کی دعا کریں‘ نبی اکرمﷺ نے دونوں میاں بیوی کیلئے دعائیں کیں۔ اس روایت میں دعا کیلئے ''درود‘‘ کا لفظ آیا ہے‘ مراد یہی تھا کہ آپﷺ کی خصوصی دعائیں حاصل ہو جائیں۔
نبی اکرمﷺ کو تمام صحابہ سے بے پناہ محبت تھی۔ آپﷺ کی صفت قرآن پاک میں ''بالمومنین روفٌ رحیم‘‘ بیان ہوئی ہے۔ یعنی آپﷺ ایمان لانے والوں کیلئے انتہائی شفیق اور ازحد رحم کرنے والے ہیں (التوبہ: 128)۔ اسی طرح تمام صحابہ کرام رسول اللہﷺ کے ساتھ عقیدت اور محبت کا ایسا تعلق رکھتے تھے کہ ہر چیز کو آپﷺ پر قربان کر دینا ان کے نزدیک سب سے بڑی سعادت تھی۔ حضرت جابرؓ کے ہاں دعوت پر آنحضورﷺ کے تشریف لے جانے کے بہت سے واقعات حدیث اور سیرت میں منقول ہیں۔ اسی طرح نبی اکرمﷺ بھی حضرت جابرؓ کو کبھی کبھار اپنے ہاں دعوت پر بلاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے حضرت جابرؓ کو اپنے گھر پر بلا کر فرمایا: جابر! آئو کھانا کھا لو۔ آپﷺ نے روٹی‘ زیتون اور سرکہ دسترخوان پر رکھا۔ کھانے میں تین روٹیاں تھیں۔ آپﷺ نے ڈیڑھ روٹی حضرت جابرؓ کو دی اور ڈیڑھ روٹی خود تناول فرمائی۔ حضرت جابرؓ نے بڑے مزے کے ساتھ کھانا کھایا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ سرکہ روٹی کے ساتھ بہترین سالن ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved