حال ہی میں افغانستان میں ایک ہزار سے زائد علما نے یہ قرارداد پاس کی ہے کہ افغانستان کی زمین سے دوسرے ممالک کے خلاف عسکری سرگرمیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ قرارداد میں کہا گیا کہ طالبان سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ نے کبھی کسی افغان شہری کو عسکری سرگرمی کیلئے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی اور اگر کوئی شہری اس مقصد کیلئے بیرونِ ملک جاتا ہے تو افغان حکومت کو اسکے خلاف ایکشن لینا چاہیے۔ پاکستان نے اس قرارداد کا خیر مقدم کیا لیکن گزشتہ چند برسوں پر نظر دوڑائی جائے تو ایسی متعدد قرار دادیں بلکہ ایسے فتوے بھی کئی مرتبہ صادر ہو چکے مگر ماضی قریب میں طالبان نے جس طرح پاکستان کے اندر دہشتگردی کی ہے اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انہیں اس ضمن میں اسلامی تعلیمات اور فتاویٰ کا کوئی پاس نہیں۔
دنیا میں طالبان سے سب سے زیادہ ڈیل پاکستان اور پاکستانی اداروں نے کیا ہے لیکن طالبان ایک ایسا معمہ ہیں کہ ہم بھی انہیں اچھی طرح نہیں سمجھ سکے۔ ہمارے ایک معتبر ادارے کے سربراہ نے 2021ء میں آفیشل بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ طالبان پختون نیشنلزم کے نمائندہ ہیں۔ یہ بات سو فیصد درست نہیں! پختون نیشنلزم کی بھرپور حمایت کرنے والے سیکولر تھے‘ جو ایک زمانے میں پختونستان کا نعرہ بھی بلند کیا کرتے تھے۔ اب وہ نعرہ قصۂ پارینہ ہو چکا۔ 1972ء کی بات ہے‘ میں سول سروس اکیڈمی لاہور میں زیرِ تربیت تھا۔ میرے ایک پختون کولیگ پختونستان کے پُرجوش حامی ہوا کرتے تھے۔ چند سال وہ سول سروس میں رہے‘ پھر بیرونِ ملک چلے گئے۔ گزشتہ سال پاکستان آئے تو ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے از راہِ تفنن پوچھا کہ آپ کے پختونستان کا کیا بنا؟ کہنے لگے کہ اسلام آباد نے پختونستان کو ختم کر دیا۔ پوچھا: وہ کیسے؟ جواب ملا کہ اسلام آباد میں اتنے پختون آباد ہو چکے ہیں اور ان کے اقتصادی مفادات شہرِ اقتدار سے جڑے ہوئے ہیں‘ اب وہ کہیں اور جانے کا سوچتے ہی نہیں اور یہ بھی قرینِ قیاس ہے کہ آج کراچی میں پشاور اور کابل سے زیادہ پختون رہائش پذیر ہوں۔ یاد رہے کہ پختونستان کے داعی سیکولر طرز کے قوم پرست تھے اور طالبان بزعم خود 'پکے مسلمان‘ ہیں لہٰذا مذہبی سوچ رکھنے والے لسانی نیشنلزم کے پیروکار کم ہی ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں میرے درجنوں پختون دوست ہیں مگر میں نے کسی سے طالبان کے حق میں کلمۂ خیر اور ہمدردی کے الفاظ نہیں سنے۔ ایک سابق سفیر جو پختون ہیں‘ دنیا کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں‘ انڈیا میں بھی رہے اور خالصتان تحریک کا بھی خوب ادراک رکھتے ہیں‘ وہ کہا کرتے ہیں کہ خالصتان اور پختونستان دونوں رومانوی تحریکیں ہیں‘ جو زمینی حقائق سے کافی دور ہیں۔ کوئی دو ماہ قبل جنرل احسان الحق ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے‘ موضوع تھا افغانستان۔ کہنے لگے: میں خود پختون ہوں‘ ہماری تعداد پاکستان میں افغانستان سے زیادہ ہے‘ اگر کوئی پختونستان بنانا چاہتا ہے تو افغان پختونوں سے کہے کہ وہ پاکستان میں ضم ہو جائیں۔
کالم کے آغاز میں جس قرارداد کا ذکر ہوا‘ وہ وائٹ ہائوس کے قریب نیشنل گارڈز پر حملے سے منسلک لگتی ہے۔ اس حملے کے بعد امریکہ میں افغان شہریوں کا داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب افغان بارڈر سے تاجکستان میں چینی باشندوں پر ڈرون حملے ہوئے ہیں۔ یہ چینی باشندے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔ میں چونکہ دوشنبے میں بھی رہا ہوں لہٰذا اُس بارڈر کے مسائل سے خوب واقف ہوں‘ یہاں افغانستان اور تاجکستان کے مابین دریائے آمو حدِ فاصل ہے۔ میرے زمانے میں روس کے بارڈر گارڈ اس سرحد کی حفاظت کیلئے تعینات تھے‘ اب تاجک بارڈر گارڈ وہاں متعین ہیں۔ اس بارڈر کے دو بڑے مسائل تھے؛ ایک تو انتہا پسند افغانستان سے تاجکستان جاتے تھے اور طویل درہ کے پہاڑی علاقے میں دوشنبے حکومت کے خلاف برسر پیکار رہتے تھے۔ دوسرا‘ یہ بارڈر منشیات سمگلنگ کا بڑا راستہ تھا۔ اب چینی حکومت اس بارڈر کو مضبوط کرنے کیلئے دوشنبے حکومت کو فنی امداد دے رہی ہے اور یہ بات افغان شدت پسندوں کو پسند نہیں۔
1996ء میں کابل میں طالبان حکومت آئی تو ہمارا خیال تھا کہ اب افغانستان میں امن ہوگا۔ اس کے بعد کئی سال تک ہماری رائے یہ تھی کہ افغان اور پاکستانی طالبان دو مختلف تحریکیں ہیں اور دونوں کے ایجنڈے الگ الگ ہیں۔ دوشنبے اور سینٹرل ایشیا کی دیگر حکومتیں تب بھی کہہ رہی تھیں کہ طالبان دہشت گرد گروہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ کافی عرصے بعد آج پاکستان‘ تاجکستان‘ چین‘ روس اور امریکہ کی طالبان کے بارے میں رائے ایک ہوئی ہے۔ پچھلے پچیس‘ تیس سال میں افغان طالبان اور ٹی ٹی پی میں قربتیں کافی بڑھ گئی ہیں کیونکہ افغان طالبان کے خاندان کوئٹہ اور پشاور میں مقیم رہے۔ لہٰذا کابل حکومت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ٹی ٹی پی کو وہاں سے دیس نکالا دے گی‘ خام خیالی ہو گی۔ پختون سماجی روایت کا ایک اہم جز 'پختون ولی‘ ہے جس میں یہ بھی شامل ہے کہ گھر آئے مہمان کو جانے کا کہنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پوری دنیا کے دبائو کے باوجود اسامہ بن لادن کو ملک بدر نہیں کیا گیا تھا۔ حالانکہ ملا عمر اس بات کو مانتے تھے کہ اسامہ بن لادن کا افغانستان میں وجود قومی مفاد میں نہیں لیکن وہ افغان روایات کی وجہ سے اسے ملک چھوڑنے کا نہ کہہ سکے۔ جس قرارداد کا ذکر ہوا ہے‘ وہ کابل یونیورسٹی میں علما کے اجتماع میں پاس ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے کابل حکومت کی رضامندی سے پاس کیا گیا۔ قطر اور ترکیہ کے علاوہ سعودی عرب نے بھی کابل حکومت سے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی دراندازی ختم ہونی چاہیے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ٹی ٹی پی کابل حکومت کے کنٹرول میں ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ کہ ٹی ٹی پی پر افغان حکومت کا کنٹرول ففٹی ففٹی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ افغانستان آج بھی غیر مستحکم ہے‘ وہاں داعش بھی موجود ہے‘ تاجک‘ ہزارہ اور ازبک بھی! جو حکومت مخالف جذبات رکھتے ہیں۔ لہٰذا ٹی ٹی پی کابل حکومت کیلئے عسکری طاقت کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اسی وجہ سے کابل حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بڑا ایکشن لینے سے انکاری ہے۔ پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈمعطل کرکے افغانستان کو واضح کیا ہے کہ تجارت اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اگر پاکستان کے ساتھ تجارت کرنی ہے تو دہشت گردوں کو لگام ڈالنا ضروری ہے۔
اگست 2021ء میں کابل میں طالبان حکومت آئی تو ہم خوش تھے کہ اب افغانستان مستحکم ہو جائے گا‘ ہمیں زمینی راستے سے سینٹرل ایشیا تک رسائی مل جائے گی‘ تاجکستان سے بجلی ہمارے شمالی علاقوں تک آئے گی لیکن یہ امیدیں پوری نہ ہو سکیں۔ یہاں تک کہ طالبان حکومت نے موجودہ بارڈر لائن کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرنا ہر افغان حکومت کی سیاسی مجبوری ہے؛ البتہ یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد ہے‘ لہٰذا ہمیں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس وقت ٹی ٹی پی کی نظر ہمارے قبائلی اضلاع پر مرکوز ہے‘ وہ وہاں افغانستان والا نظام لانا چاہتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا میں گورننس بہتر کی جائے اور انضمام شدہ قبائلی علاقوں میں ترقی کا عمل تیز کیا جائے۔سکیورٹی فورسز پر حملوں کی صورت میں ہمیں جوابی کارروائی کا مکمل حق ہے لیکن غیر عسکری زاویوں پر نظر رکھنا بھی کم ضروری نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغان پالیسی پر اسلام آباد اور پشاور کے مابین تسلسل سے مشاورت ہونی چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو رابطے میں رہنا چاہیے۔ قومی مفاد سیاسی وابستگیوں سے بالاتر رہنا چاہیے۔ بدقسمتی سے یہ مشاورت ماضی میں ہوئی اور نہ اب ہو رہی ہے۔
افغان حکومت کو بھارت سمیت کسی بھی ملک سے روابط کا حق ہے لیکن کابل کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بھارت پاکستان کا نعم البدل نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کا ڈائیلاگ بہرصورت جاری رہنا چاہیے‘ کہ امن واستحکام دونوں ممالک کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved