ایک خبر کے مطابق عالمی ادارہ تحفظ جنگلی حیات اس اطلاع پر سخت پریشانی میں مبتلا ہے کہ پاکستان میں گِدھوں کی نسل کم ہی نہیں بلکہ اب تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس اطلاع پر عالمی ادارے نے لاہور کے قریب چھانگا مانگا کے مصنوعی جنگل میں ان گِدھوں کی دیکھ بھال اور افزائش نسل کے لیے منصوبہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
تحفظ جنگلی حیات کے عالمی ادارے کی پاکستان میں گِدھوں کی نسل نایاب ہونے پر پریشانی بجا لیکن لگتا ہے کہ انہیں کسی نے اس بارے میں قطعی غلط اطلاع دی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اطلاع انہیں کسی ایسے گدھ نے دی ہو جو اس کی آڑ میں ادارے کے بے تحاشا فنڈز پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہو۔ تحفظ جنگلی حیات کے ادارے کو کیا پتہ کہ مختلف قسم کے گدھ توانا ہو کر پورے پاکستان میں پھیل چکے ہیں بلکہ اب تو ان کی تیسری اور چوتھی نسل بھی لمبی لمبی اڑانیں بھرنے لگی ہے۔ ان گدھوں کو تو جنگل کے لفظ سے بھی اب چڑ ہونے لگی ہے‘ اسی لیے انہوں نے مری، سوات، مانسہرہ، ناران، سندھ اور آزاد کشمیر میں واقع ہر جنگل نما شے کا صفایا کر کے رکھ دیا ہے۔
وہ وقت گئے جب ان گدھوں کی خوراک مرے ہوئے جانوروں کا گوشت تھی۔ اب تو یہ پیزا اور برگر، چائینیز اور کانٹینینٹل کھانوں کے علاوہ کچھ اور کھانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ جب سے یہ گِدھ بڑی بڑی عمارتوں میں پناہ گزین ہوئے ہیں حکومت کے لیے بڑی پریشانیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ ان کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کہاں سے کرے۔ اس پر ایک نہایت ہی باتدبیر اور دانا مشیر نے مشورہ دیا کہ پیدل دھکے کھانے والے‘ ارد گرد جھونپڑیوں اور چھوٹے چھوٹے کچے پکے گھروں میں رہنے والے‘ فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور غریبوں کو ہر نئے بجٹ پر اور پھر ہر ماہ بجلی، گیس، پانی اور پٹرول کے نرخ بڑھا کر مردار بنا دیا جائے تاکہ یہ اپنی بوٹیاں نوچے جانے پر کسی بھی قسم کا احتجاج کرنے کے قابل نہ رہیں اور یہ گدھ ان کا گوشت کھا کھا کر اپنے پیٹ بھرتے رہیں۔۔۔ یہ بڑی پرانی بات ہے۔ اب تو اس مشورے کو بھی چالیس سال ہونے کو ہیں۔ جیتے جاگتے انسانوں کو مردار بنایا جانے لگا اور یہ سلسلہ اس قدر بڑھا کہ پہلے تو مزدور اور دیہاڑی دار غریب مردار بنے پھر جلد ہی طالب علم‘ استاد‘ پروفیسر‘ چھوٹے وکیل‘ درمیانے درجے کے سرکاری اور غیرسرکاری ملازم‘ چھوٹے چھوٹے دکاندار اور ہنرمند افراد مردار بننا شروع ہو گئے اور یہ گِدھ ان سب پر اس بُری طرح جھپٹ پڑے کہ پہلے مردہ جانوروں کی ہڈیاں ان سے بچ جاتی تھیں لیکن اب انہوں نے ہڈیاں بھی چبانا شروع کر دی ہیں۔ ادارہ تحفظ جنگلی حیات کو اگر کھا کھا کر بڑھے ہوئے پیٹوں والے ان گِدھوں کو دیکھنا ہے تو انہیں مختلف سرکاری اداروں کے بڑے افسروں کے دفاتر کا دورہ کرنا پڑے گا اور ان کے پاس چند گھنٹے گزارنے ہوں گے۔ انہیں یقین آ جائے گا کہ پاکستان میں گِدھوں کی نسل معدوم نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بھی زیا دہ پھل پھول رہی ہے اور یہاں ان کے کئی درجے ہیں۔ مثلاً اگر کسی بلند و بالا اور شاندار عمارت میں رہنے والے گدھوں کی صحت اور تندرستی ملاحظہ کرنی ہو تو مختلف شہروں کی ترقی کے ذمہ دار اداروں کے دفاتر میں جا کر ان گدھوں کے ٹھاٹ باٹھ دیکھ لیں۔ کیا ورلڈ وائلڈ لائف والوں
نے امریکہ، برطانیہ، جاپان، چین، فرانس یا جرمنی کے جنگلوں میں ایسے گِدھ دیکھے ہیں جنہوں نے ایک نہیں‘ دو نہیں 200 سے زیا دہ جہازوں کو بغیر ڈکار مارے ہڑپ کر لیا ہو؟ وائلڈ لائف والے ابھی تک لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں جو جنگلوں میں گدھوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اب مادہ گدھ اور نر گدھ دونوں کا رہن سہن اس قدر تبدیل ہو چکا ہے کہ انہوں نے سونا بھی کھانا شروع کر دیا ہے۔ ایسے ہی گِدھوں کی ایک نسل کیلئے ایک سفارت خانے نے ایک بہت بڑے جیولر سے سونے کے بھاری بھرکم 16 سیٹ بنوائے اور عید پر یہ سیٹ گِدھوں کے بہت سے خاندانوں میں بطور تحفہ تقسیم کیے۔ کیا امریکہ یا یورپی یونین کے کسی بھی ملک کی کوئی ایک بھی مادہ گدھ دس دس تولے سونے کے سیٹ ایک لقمے میں نگل سکتی ہے؟ پھر وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں گِدھوں کی نسل تیزی سے معدوم ہو رہی ہے؟ پاکستان میں تو کسی مارکیٹ میں چلے جائیں‘ کسی سبزی منڈی‘ پھلوں کی منڈی یا دکان پر چلے جائیں‘ کسی چھوٹے سے چھوٹے سرکاری دفتر میں چلے جائیں‘ ہر جگہ گِدھ ہی سستاتے
نظر آئیں گے‘ اور تو اور اب تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بدولت ڈاک خانوں میں گِدھوں نے یلغار کر دی ہے۔ لاہور کے ایک پوسٹ آفس سے ایک محنت کش اشفاق احمد نے اپنے کسی عزیز کو 26 ستمبر کو رسید نمبر 1492 کے ذریعے گیارہ ہزار روپے بہاولپور بھیجے اور بھیجنے والے نے اپنا اور جس کو یہ رقم بھیجی گئی اس کے مکمل ایڈریس کے ساتھ ساتھ موبائل نمبرز بھی لکھے‘ لیکن آج تک اس منی آرڈر کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ اس کی تفصیل میں اپنے ایک سابق کالم میں لکھ چکا ہوں۔
ورلڈ وائلڈلائف فنڈ کے ماہرین اگر یہ کہیں کہ گِدھوں کی چونچیں تلواروں کی طرح کاٹ دار اور منگولوں کی برچھیوں کی طرح تیز اور نوکیلی ہوتی ہیں اس لئے ہو سکتا ہے کہ جہازوں میں استعمال ہونے والی دھات اور دوسری اشیا کھا لیناان کیلئے کوئی بڑی بات نہ ہو‘ تو انہیں سٹیل مل اور پھر پاکستان ریلوے کے گدھوں کو دیکھ لینا چاہیے جن کے معدے اس قدر طاقتور ہیں کہ انہوں نے ایک یا دو نہیں بلکہ ایک ہزار سے زائد ریلوے انجن اور کروڑوں ٹن لوہا بغیر کسی ہاضمے والے چورن کے ہڑپ کر لئے ہیں اور ان گدھوں کی قابل فخر بات یہ ہے کہ اس تیزی اور کمال سے انہوں نے سٹیل مل اورریلوے کو ہڑپ کیا ہے کہ ایکسرے میں تو کیا الٹرا سائونڈ اور سی ٹی سکین میں بھی کچھ نظر نہیں آئے گا۔