سینیٹر کی وفات ہو گئی۔
پارٹی لیڈر نے حکم صادر کیا کہ اس کے بعد اس کے فرزند کو سینیٹر بنایا جائے۔ عرض کیا گیا ''حضور! وہ تو پہلے ہی ایک اعلیٰ منصب پر فائز ہیں اور حکومت سے تنخواہ لے رہے ہیں! قانون اجازت نہیں دیتا کہ انہیں سینیٹر بنایا جائے‘‘۔ ''تو پھر انہیں مشیر کے عہدے پر بٹھایا جائے‘‘۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ واقعہ امریکہ میں پیش آیا یا برطانیہ میں؟ کینیڈا میں یا آسٹریلیا میں؟ نہیں! جناب! یہ واقعہ پاکستانی جمہوریہ میں پیش آیا ہے اور باقاعدہ رونما ہو چکا ہے!
ہماری سیاسی جماعتیں شخصی ملکیت میں ہیں۔ یہ جماعتیں مالکوں کی خاندانی جائداد‘ مالکوں کی خاندانی پراپرٹی‘ مالکوں کی خاندانی زمین‘ مالکوں کے خاندانی کارخانوں اور مالکوں کے خاندانی بینک بیلنس کی طرح مالکوں کی خاندانی ایمپائر کا حصہ ہوتی ہیں اور بلاشرکت غیرے حصہ ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعت کا مالک وفات پا جائے تو اس کی بیٹی تخت پر بیٹھتی ہے۔ وہ انتقال کر جائے تو اس کا میاں تاجدار ہو جاتا ہے۔ اس اثنا میں بیٹے کو تیار کیا جا رہا ہوتا ہے۔ بیٹی کو بھی پارلیمنٹ میں اتار دیا جاتا ہے۔ دوسری سیاسی جماعت بھی تین عشروں سے ایک ہی خانوادے کی تجوری میں بند ہوتی ہے۔ چیف منسٹر لگانا ہو یا پرائم منسٹر‘ لازم ہے کہ خاندان کے اندر ہی سے ہو۔ تخت وتاج پر صرف اور صرف خاندان کا حصہ ہے۔ وزیر‘ وزرا‘ امیر‘ امرا‘ عمائدین جتنے بھی لائق ہوں‘ جتنے بھی اہل ہوں‘ درباری ہی رہتے ہیں! یہ لیاقت یا اہلیت کا مسئلہ نہیں! خدا کے بندو! یہ خون کا مسئلہ ہے! شاہی خاندان کے خون کا!! جس کی وریدوں میں شاہی خون ہو گا وہی حکمران بنے گا!!
یہاں تک ہم نے جو کچھ عرض کیا‘ امید ہے آپ کی سمجھ میں آ گیا ہو گا! اب آگے چلتے ہیں! ہمارے ان شاہی خاندانوں کی ایک بڑی صفت ان کی فیاضی ہے۔ یہ اپنے وفاداروں کی قدر کرتے ہیں۔ ان پر کوئی احسان کرے تو احسان ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ یہ احسان کا بدلہ ضرور دیتے ہیں۔ انعام واکرام سے نوازتے ہیں۔ مگر اس احسان مندی میں سیاسی جماعتوں کے یہ مالکان ایک احتیاط ضرور کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ یہ فیاضیاں‘ یہ انعام واکرام ہمیشہ سرکاری خزانے سے دیتے ہیں۔ وفادار ذاتی ہوتے ہیں مگر بدلے کا بوجھ بیت المال پر پڑتا ہے۔ قید کے دوران کسی ڈاکٹر نے خصوصی دیکھ بھال کی تو اسے اس ذاتی احسان کا بدلہ سرکاری وزارت کے قلمدان کی صورت میں عطا کیا جاتا ہے۔ پھر اسے کھلی چھٹی بھی دی جاتی ہے کہ چاہے تو سفید کو سیاہ کرے‘ چاہے تو سیاہ کو سفید کرے اور چاہے تو سفید اور سیاہ دونوں کو کسی اور ہی رنگ میں رنگ دے! کسی پولیس افسر نے ذاتی وفاداری نبھائی تو اسے سینیٹ کی نشست پلیٹ میں رکھ کر دی جاتی ہے۔ یہ اور بات کہ سینیٹ کی تمام مدت میں اس کا کوئی مثبت اور تعمیری حصہ نہ ہو! کسی اور نے وفاداری اور مکمل اطاعت کا ثبوت دیا ہو تو اسے سفیر لگا دیا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ اس کا تجربہ اس میدان میں صفر ہو۔ ایک مدتِ ملازمت پوری ہو تو ایک اور مدت کیلئے کسی اور پوسٹ پر دوسری بار پھر باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ کسی بیورو کریٹ نے وفاداری نبھائی ہو اور احکام کی بجا آوری میں قانون اور ضابطے کی پروا نہ کی ہو تو اسے سینیٹ کی سیٹ دے کر کابینہ کا ممبر بنا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ سیاسی جماعتوں کے ان مالکوں کے پاس بڑی بڑی ذاتی جاگیریں ہیں‘ کارخانے ہیں۔ ان وفادار ملازموں کو بہت آسانی سے اپنی ذاتی ایمپائرز میں تعینات کر سکتے ہیں مگر اس صورت میں انہیں تنخواہ اور مراعات ذاتی جیب سے دینا ہوں گی! اور ذاتی جیب پر بوجھ ڈالنا ان مالکان کو پسند نہیں!
یہ عادت ان حضرات کی سلاطینِ دہلی اور مغل بادشاہوں کی عادت سے ملتی جلتی ہے۔ آپ جانتے ہیں‘ بیرم خان پہلے شہنشاہ ہمایوں کا اور پھر اکبر کا وفادار رہا۔ اکبر تخت نشین ہوا تو پندرہ سولہ سال کا لڑکا تھا۔ اس کی سلطنت کے استحکام کیلئے بیرم خان نے دن رات ایک کر دیا۔ پانی پت کی دوسری لڑائی میں ہیمو بقال کو شکست دی اور اس سے دہلی اور آگرہ واپس لیے۔ بیرم خان قتل ہوا تو اکبر نے اس کے فرزند عبدالرحیم خانِ خاناں کو دربار میں اعلیٰ منصب سے نوازا۔ وہ اکبری عہد کے متموّل ترین نوابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ مرحوم بہت لائق شخص تھے۔ اردو نثر لکھنے میں ان کا اپنا ہی انداز تھا! اچھوتا اور مسحور کُن !! پھر وفاداری بشرط استواری بھی مثالی تھی۔ میاں صاحب کے دورِ ابتلا میں‘ جب بڑے بڑے مدعی اُلٹے پاؤں پھر گئے‘ مرحوم نے ساتھ نہ چھوڑا۔ ان خدمات کا صلہ بھی پایا جس کے وہ پورے پورے حقدار تھے۔ آغاز غالباً تقریر نویسی سے ہوا۔ پھر وزارت اور پھر ایوانِ بالا کی رکنیت تک پہنچے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ تقریر اور تحریر دونوں کے ماہر تھے۔ پارلیمنٹ میں ان کی کارکردگی بہت سوں سے بہتر تھی۔ تاہم بنیادی طور پر وہ بڑے میاں صاحب کے وفادار ساتھی تھے اور معاون بھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پارٹی سے ان کا کوئی خاص تعامل نہ تھا۔ میاں صاحب وضعدار شخصیت ہیں۔ اگر معاملے کی گہرائی میں جا کر غور فرمائیں تو وہ خود ہی محسوس کریں گے کہ ایک باعزت اور وفادار ساتھی کے جانے کے بعد اس کی اولاد کو بیت المال سے نوازنا خود مرحوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اپنے ساتھیوں میں سے کوئی گزر جائے تو لوگ اس کو بہت اچھے پیرائے میں یاد کریں۔ میاں صاحب کی صنعتی ایمپائر کئی اقلیموں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ان کی آسودگی کی حیثیت اب اربوں کھربوں سے بہت آگے‘ بہت آگے ہے۔ وہ بہت آسانی سے وفادار ساتھیوں کی اولاد کو اپنی وسیع وعریض ایمپائر میں تعینات کر کے ان کی قابلیت سے متمتع ہو سکتے ہیں۔
یہ بیس پچیس سال پہلے کی بات ہے‘ پنجاب کے ایک مشہور سیاسی خاندان کے روابط ایک معروف بیورو کریٹ کے ساتھ بہت قریبی تھے۔ اس افسر نے سرکار سے چھٹی لی۔ سیاسی خاندان کے ارباب ِ قضا وقدر نے اسے اپنی ایمپائر میں ایک بلند منصب پر فائز کیا۔ اس نے وہاں کنٹریبیوٹ بھی کیا اور جائز فائدہ بھی اٹھایا۔ چھٹی ختم ہوئی تو واپس سرکار کی آغوش میں آ گیا۔ وفاداری کا صلہ دینے کا یہ ایک خوبصورت اور باعزت طریقہ ہے اور ہمارے ثروت مند اور محتشَم اربابِ اختیار و اقتدار کیلئے ایک مثبت مثال!! دست بستہ عرض ہے کہ سرکاری خزانے کو اپنے ذاتی مقاصد واغراض کیلئے استعمال مت کیجیے۔ اس خزانے کو مفلوک الحال عوام اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر بھرتے ہیں۔ اس کے استعمال میں بے جا فراخدلی اور فیاضی نہ کیجیے۔ کوئی دن کی بات ہے کہ پائی پائی کا حساب ہو گا۔ امیر المومنین عمر فاروقؓ کو بیماری میں شہد درکار تھا جو بیت المال میں موجود تھا۔ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے اور عوام سے اس کے استعمال کی اجازت لی۔ امیر المومنین علی المرتضیٰؓ کو جب مشکلات کے زمانے میں ایک ایک ساتھی کی شدید ضرورت تھی‘ کسی ایک کو بھی سخت محاسبے سے استثنا نہ دیا اور بیت المال کی کڑی نگرانی کی۔ لوگوں نے دیکھا کہ عید کے دن جَو کی روٹی تناول فرما رہے تھے۔ اِس زمانے میں جن ملکوں میں سرکاری خزانے حکمرانوں کی غارت گری سے محفوظ ہیں وہ ملک غیر مسلموں کے ہیں۔ جس بے دردی سے مسلم حکمرانوں کی بھاری اکثریت سرکاری خزانے کو‘ جائز ناجائز استعمال کرتی ہے‘ ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں اس کا تصور بھی ناممکن ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved