ادھر ہیوسٹن میں ہمدم دیرینہ غضنفر ہاشمی نے اردو کا ایک میلہ سجا رکھا تھا۔ ہیوسٹن میرے دوستوں کا شہر ہے‘ یہاں طاہر جاوید‘ ڈاکٹر آصف ریاض قدیراور عاکف ذیشان رہتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ ادبی فیسٹیول تھا جو پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے نام پر برپا کیا گیا لیکن ادب کے نام پر دو دن کیلئے سجایا جانے والا یہ میلہ اپنے اندر اتنے رنگ اور موضوعات سموئے ہوئے تھا کہ صبح سے شام تک بندہ بیٹھا سنتا رہے اور لطف لیتا رہے۔ اس کا اہتمام انٹرنیشنل اکیڈمی آف لیٹرز نے کیا تھا جو پاکستان اور امریکہ کو عوامی سفارتکاری اور دونوں ملکوں عوام کو آرٹ‘ کلچر اور لٹریچر پر مکالمے کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے کوشاں ایک غیر منافع بخش اور غیر سیاسی تھنک ٹینک ہے۔اس حوالے سے یہ ہر سال واشنگٹن ڈی سی میں مشہور امریکی تھنک ٹینکس ولسن سنٹر اور مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے اشتراک سے پاک امریکہ تعلقات پر سالانہ پاکستان کانفرنسز‘ ؤاشنگٹن ڈائیلاگ‘ ڈپلومیسی فار ڈویلپمنٹ کانفرنس اور پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کرتا ہے۔
ہیوسٹن میں ہونے والا یہ دوسرا پاکستان لٹریچر فیسٹیول تھا جس میں پاکستان‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور امریکہ کے مختلف شہروں سے ادیبوں‘ صحافیوں‘ دانشوروں‘ ماہرینِ معاشیات‘ آرٹسٹوں اور سفارتکاروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس فیسٹیول میں ادب‘ آرٹ‘ گورننس‘ کتابوں پر گفتگو‘ معیشت‘ کلچر‘ ڈرامہ فلم اور ٹی وی‘ تارکین وطن کے مسائل پر سیشنز کے علاوہ صوفیانہ کلام اور مشاعرہ بھی شامل تھا۔ حکومت کی سطح پر ہونے والی سفارت کاری اپنی جگہ لیکن پبلک اور کلچرل ڈپلومیسی کے ذریعے حاصل کیے جانے والے نتائج نسبتاً زیادہ مؤثر اور دیرپا ثابت ہوتے ہیں۔ یہی کام یہ ادارہ کر رہا ہے۔ غضنفرہاشمی کو آپ اس خیال کا موجد اور اس تنظیم کا بانی بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس کانفرنس میں پہلے دن پانچ سیشن تھے جن کا اہتمام اسماعیلی جماعت خانہ رچمنڈ میں کیا گیا تھا۔ افتتاحی اجلاس کے بعد دوسرے سیشن کا موضوع پاکستانی تارکین وطن کی شناخت اور میراث (Legacy) کی تلاش سے متعلق تھا۔ ایک گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل اس سیشن میں ڈاکٹر آصف ریاض قدیر‘ ہیوسٹن کی پاکستان ایسوسی ایشن کے صدر سراج نارسی اور دو دیگر شرکا شاملِ مذاکرہ تھے۔ اگلا سیشن پاکستان کی سرکار کو در پیش مشکلات اور ان کے حل سے متعلق تھا۔ یہ بڑا جاندار اور پُرفکر موضوع تھا اور اس پر بات کرنے والوں نے اس موضوع پر بات کرنے کا حق بھی خوب ادا کیا۔ پاکستان سے آنے والے سابقہ بیورو کریٹ و نگران وفاقی وزیر فواد حسن فواد‘ جن کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ نہایت شاندار شاعر بھی ہیں‘ کے ساتھ امریکی سیاست میں چند متحرک ترین پاکستانیوں میں سے ایک طاہر جاوید تھے۔ طاہر جاوید امریکہ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے نمایاں ڈیموکریٹ رہنما ہونے کے ساتھ مشہور بزنس مین بھی ہیں اور پاکستانی سیاست کی حرکیات کو بخوبی طور پرسمجھنے کے حوالے سے اس موضوع کیلئے نہایت مناسب شخص تھے۔ پاکستان سے تشریف لانے والے ظفر مسعود جو پنجاب بینک کے صدر اور عام لوگوں میں 22 مئی 2020ء کو پی آئی اے کی پرواز 8303 کے خوفناک حادثے میں زندہ بچ جانے والے دو اشخاص میں سے ایک کے حوالے سے جانے جاتے ہیں‘ وہ بھی اس پینل کا حصہ تھے۔ وہ حکومتی مانیٹری پالیسی‘ معاشی اصلاحات‘ بینکنگ سیکٹر کی مشکلات‘ سرمایہ کاری کو درپیش مسائل اور ملکی اقتصادی صورتحال پر بڑی گہری نظر ہی نہیں‘ د سترس بھی رکھتے ہیں اور اس موضوع کے حوالے سے ایک بہترین انتخاب تھے۔ یہ بڑا شاندار اور پُرمغز سیشن تھا لیکن افسوس کہ دیارِ غیر میں ہونے والا یہ مکالمہ اُن لوگوں کے کانوں تک پہنچنے سے محروم رہا جن تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔
اس سیشن کے بعد وقفہ تھا۔ اس دوران عاکف ذیشان جو بنیادی طور پر آئی ٹی اور سائبر سکیورٹی سے وابستہ پروفیشنل ہے‘ بڑی درد مندی سے کہنے لگا کہ فی الوقت پاکستان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گڈ بکس میں ہے اور صدر ٹرمپ کی متلون مزاجی کے پیش نظر کچھ علم نہیں کہ ہمارا ملک صدر ٹرمپ کی پسندیدگی کے درجے پر کب تک فائز رہتا ہے‘ ہمیں چاہیے کہ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کیلئے کچھ ایسا حاصل کر لیں جو ہماری دیر پا اقتصادی بہتری میں معاون ثابت ہو سکے۔ ہم محض اس بات پر خوشی کے شادیانے بجانے کے بجائے کہ صدر ٹرمپ اپنی ہر دوسری تقریر یا گفتگو میں بھارت کے سات جہاز گرانے کا ذکر کے نریندر مودی کو شرمندہ اور ہمیں خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں‘ کوئی ڈھنگ کا کام کر لیں۔ صدر ٹرمپ کا کیا ہے کل کلاں وہ اپنا بیان بدل بھی سکتے ہیں۔ جب بھی ان کے مودی سے حالات ٹھیک ہوئے وہ اپنے غیر واضح بیانات کا رخ کسی بھی سمت بدل سکتے ہیں۔ادھر ہم ہیں کہ صدر ٹرمپ کی بیانات کی حد تک خوش کلامی اور اپنے فیلڈ مارشل کی تعریفوں پر خوش ہو کر گزارہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف مائیکرو سافٹ کا چیف ایگزیکٹو ستیا نڈیلا بھارتی وزیراعظم مودی کو مصنوعی ذہانت اور آئی ٹی سیکٹر میں بھارت کو آگے لے جانے میں کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے بتا رہا ہے کہ مائیکرو سافٹ بھارت میں ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ یہ مائیکرو سافٹ کی ایشیا بھر میں کی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے جو اسے خطے میں اس شعبے کی سب سے بڑی طاقت بنا دے گا۔ دوسری طرف ایمازون نے بھارت میں 35 ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ یہ ساری سرمایہ کاری 2030ء تک کی جائے گی۔ یہ نئی سرمایہ کاری پہلے سے کی جا رہی40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے علاوہ ہے۔ اس نئی سرمایہ کاری سے بھارت میں دس لاکھ نئی اسامیاں پیدا ہوں گی۔ ایمازون اب تک اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے بھارت میں پہلے ہی مختلف شعبوں میں تقریباً 28 لاکھ ملازمتیں پیدا کر چکا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت جبکہ بھارت 50 فیصد ٹیرف والے ملکوں کی فہرست میں ہونے کے باعث امریکی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کے حوالے سے مسابقتی مشکلات کا شکار ہے‘ ہم نے اب تک امریکی مارکیٹ کو پکڑنے اور اپنی رسائی بہتر کرنے کیلئے کیا کیا ہے؟ ہم صرف صدر ٹرمپ کی تعریفوں اور یہاں سے آنے والے زرِ مبادلہ میں اضافے پر خوش ہونے کے علاوہ اور کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہماری وقتی خوشی ملک کیلئے مستقبل میں کسی معاشی اور اقتصادی بہتری لانے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے؟ اس وقت مواقع کی کھڑکی کھلی ہوئی ہے لیکن یہ زیادہ دیر کیلئے نہیں کھلی۔ ہمیں اس موقع سے فوری فائدہ اٹھانا ہوگا وگرنہ یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ کانفرنس میں اس موضوع پر بھی اشاروں کنایوں میں کافی نشتر زنی ہوئی جس پر کھل کر بولنا محال ہے۔
قارئین! اس موضوع پر بھلا کتنی دیر لکھا جا سکتا ہے؟ اس تھوڑے لکھے میں بہت کچھ پوشیدہ ہے بشرطیکہ ہم واقعتاً کچھ کرنا چاہتے ہیں وگرنہ صدر ٹرمپ کے خوش کن بیانات اور ہماری فرضی خوشیوں کا دورانیہ زیادہ دیر چلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ان دو دنوں میں اور بھی بہت کچھ زیر بحث رہا مگر اس کانفرنس کا حاصلِ کلام یہی ہے جو عرض کر دیا ہے۔ باقی سب لسی میں مزید پانی ملانے کے مترادف ہوگا۔ اور یہ کام ہم گزشتہ 78برس سے کرتے ہی آ رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved